شیخ الہند رحمہ اللہ بحیثیتِ ادیب و شاعر

 محمد ریاض قاسمی منچریالی

 

انقلاباتِ جہاں, واعظِ رب ہیں سن لو

 

ہر تغیر سے صدا آتی ہے فافہم فافہم

 

شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ستودہ صفات اور نمایاں کمالات کی جامع تھی, ان کی نظر صرف دینی علمی فنون میں منحصر نہ تھی بلکہ دیگر کمالات میں بھی آپ پیش پیش تھے, اور یہ تو علمائے دیوبند کی خاصیت ہمیشہ سے رہی ہے, اور علمائے دیوبند نے مختلف علوم و فنون میں جو کارنامے انجام دیئےہیں اس کی نظیر تاریخ اب تک پیش نہ کر سکی اور نہ پیش کر سکتی ہے, چنانچہ حضرت مولانا سلمان صاحب بجنوری دامت برکاتہم نے ایک موقع پر صحیح فرمایا: “حقیقت کی طاقت سے بڑھ کر کوئی طاقت نہیں ہے, دوسرے اداروں کے پاس نام لینے کے لئے افراد نہیں ہیں اور علمائے دیوبند کے پاس افراد کا نام لینے کے لئے وقت نہیں ہے”.

 

 اگر ہم علمائے دیوبند کے ادیبوں اور شاعروں کی طرف نگاہ اٹھاینگے تو تا حدِ نظر علماء کی امت کی امت پڑی ہے,ایک ٹھاٹھے مارتا سمندر ہے جس کا کنارہ نہیں, چنانچہ بانیِ دار العلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ ایک ادیب سے کچھ کم نہ تھے, انہیں میں ادب کے آسماں کو چھونے والے مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ  , مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ  , مولانا رحمت اللہ صاحب کیرانوی رحمہ اللہ,مولانا شفیع احمد دیوبندی رحمہ اللہ,مولانا قاری طیب صاحب رحمہ اللہ, مولانا ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ اور مولانا تقی عثمانی مدظلہ العالی جیسے شہرہ آفاق عظیم الشان ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنے زورِ قلم سے امت کو سنبھالا ہے اور سنبھال رہے ہیں, یہ تو صرف چند نام تھے ورنہ ادیبوں کی طویل فہرست ہے. (ملاحظہ ہو عکسِ احمد از مولانا شکیب قاسمی, ط: دارالعلوم وقف دیوبند) 

 

انہیں ادب اور شاعری کے آسماں چھونے والوں میں شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے ادب کو ایک ایسے مقام پر لاکر کھڑا کیا جس کی کوئی نظیر نہیں ہے, چنانچہ شیخ الہند نے ایک ایسے گھرانہ میں آنکھ کھولی جو عثمانی شیوخ میں ایک معزز و معتبر علمی گھرانہ تھا,اور آپ کی ولادت بریلی میں 1850ء کے اخیر یا1851ء کے شروع

 

میں ہوئی, آپ کے والد حضرت مولانا ذوالفقار علی صاحب بصیغہ ملازمت ڈپٹی انسپکٹر مدارس بریلی میں مقیم تھے, شیخ الہند نے اپنا علمی سفر  اپنے گھر سے شروع کیا, اور ام المدارس دار العلوم دیوبند سے تعلیم حاصل کی اور شاعری کا ذوق روزِ اول سے ہی تھا, اسی شاعری کے شوق نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے غم و رنج کے موقع پر جو اشعار آپ نے کہے ہیں اس کی نظیر مل نہیں سکتی.

 

مرثیہ و نظم تاریخی بر وفات حجۃ الاسلام:

 

آنکھوں میں جوش اشک ہے سینے میں درد ہے

 

دل میں غم و الم ہے زبان پر ہزار حیف

 

کل تک تو آرزو تھی ہمیں عمر خضر کی

 

 ہردم اجل کا آج ہے کیوں انتظار حیف 

 

خورشید علم آج ہوا کونسا غروب

 

 عالم تمام کیوں نظر آتا ہے تار حیف

 

عالم سے ظل رحمتِ حق جب کہ اٹھ گیا

 

رہ رہ کے کیوں نہ آئے مجھے بار بار حیف

 

( کلیات شیخ الہند ص ٧۸)

 

شیخ الہند ہی وہ ہستی ہیں جنہوں نے انگریزوں کی چال کو سب سے پہلے بھانپا اور تحریکِ ریشمی رومال چلائی اور اسی وجہ سے انہیں جزیرہ انڈومین میں مقید کردیا گیا, جہاں چاروں طرف ایک ایسا سمندر ہے اس کی کرب ناک آواز وہ خود نہیں سن سکتا, اس جیل میں رہ کر آپ نے جو قرآن کریم کا ترجمہ کیا ہے وہ اپنے آپ میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے ,وہیں رہ کر بخاری شریف کے ابواب تراجم اور ترمذی پر تقریر ترمذی کا جو کام آپ نے انجام دیا ہے وہ ایک ماہر عالمِ دین و ماہر ادیب ہی کر سکتا ہے, جب آپ جیل سے رہا ہوئے تو بمبئی   کے بندرگاہ پر جو لوگ اور جو جماعتیں آپ سے ملاقات کے لیے آئیں اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے ہندوستان کے لئے کیا کچھ نہیں کیا,ان میں پیش پیش مسٹر گاندھی صاحب ,مولانا شوکت صاحب اور ڈاکٹر انصاری جیسے مشاہیر تھے اور خاص طور سے اس وقت انگریزوں کے ایک وفد نے آپ سے ملاقات کی اور کہا “ملاّ جاؤ اور خاموشی سے اپنا مدرسہ چلاؤ اور ساری تحریکیں بند کردو” تو اس وقت شیخ الہند نے فرمایا: “مجھے جو کام کرنا ہے میں کروں گا اور تم سے جو ہوسکے وہ کرلو”

 

شیخ الہند نے دارالعلوم دیوبند کے متعلق بھی ایک قصیدہ لکھا ہے اس کے اندر آپ نے ایسے اشعار کہے ہیں جس کی عرب و عجم کے علماء نے تحسین کی ہے 

 

 

نظم بر دارالعلوم دیوبند:

 

اس کی آغوشِ غضب میں ہیں ہزاروں رحمت 

 

اس کے ہر لطف میں ہیں سینکڑوں الطاف و کرم

 

انقلاباتِ جہاں, واعظِ رب ہیں سن لو

 

ہر تغیر سے صدا آتی ہے فافہم فافہم

 

کس بلا کی تھی نظر, پڑتے ہی جس کے فی الفور

 

پڑگئی جاں میں جاں, آ ہی آگیا دم میں دم

 

اس کی آواز تھی یا بانگِ خلیل اللہی

 

کہہ کے لبیک چلے اہل عرب و عجم

 

آج یہ شعر حرف بہ حرف صادق آ رہا ہے.

 

اور علماء دیوبند نے عیسائیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جو مفت تعلیم کی تحریک شروع کی تھی اس کے متعلق فرمایا:

 

اسکی آواز تھی بے شک قم عیسی کی صدا

 

جس کے صدقے سے لیا علم نے دوبارہ جنم

 

اشعار بر نصیحت طلباء:

 

اور فرزندان دارالعلوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

 

پیروی کرتے رہو,سعی کو ہاتھوں سے جانے نہ دو

 

بدمے یا درمے یا قدمے یا بقلم. 

 

اشعار بر مولانا قاسم نانوتوی

 

حضرت نانوتوی کے متعلق جو مدحیہ اشعار کہے ہیں:

 

بے نیازی و توکل,رخِ روشن سے نمود

 

قطع منزل کے لئے دونوں قدم تیغ و دو دم

 

اشعار بر مولانا رشید رشید احمد گنگوہی

 

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے بارے میں جو اشعار ذکر کئے ہیں,چونکہ حضرت گنگوہی نے دارالعلوم کی بقا کے لئے جو محنتیں اور کلفتیں برداشت کی ہیں اس کی مثال نہیں مل سکتی

 

سب کی الفت پہ تھی اس کی ہی محبت غالب

 

سب غموں پر جو تھا ممتاز یہی تھا غم

 

اور مولانا گنگوہی نے شرک و بدعت کا جو قلع قمع کیا ہے اس کے متعلق خوب صورت اشعار کہے ہیں,حقیقت یہ ہے کہ یہ اشعار سے زیادہ اعتراف کی حیثیت رکھتی ہے:

 

نہ چلا کوئی فساد ایسا کہ پاؤں نہ کٹے

 

فتنہ نے سر نہ اٹھایا کہ ہوا ہو نہ قلم

 

مُردوں کو زندہ کیا,زندوں کو مرنے نہ دیا

 

اس مسیحائی کو دیکھیں ذری ابن آدم

 

حضرت گنگوہی کے وفات کے متعلق فرمایا:

 

مفسر ایسا لائیں گے کہاں سے یا خدا جس کے

 

ہوں قول و فعل دونوں کاشفِ اسرارِ قرآنی

 

پھرے تھے کعبہ میں بھی پوچھتے گنگوہ کا راستہ

 

جو رکھتے اپنے سینوں میں تھے ذوق و شوقِ عرفانی.

 

نظم بر والی افغانستان 

 

جس وقت امیر حبیب اللہ خان والی افغانستان,ہندوستان کے دورے پر آئے, اس موقع پر آپ نے جو قصیدہ پیش کیا اس کا مقصد والی کی تعریف تھی اور کوئی غرضِ فاسد نہ تھی, اسی وجہ سے یہ اشعار خود آپ نے پیش نہیں کیے اور افغانستان کے والی تھے,لہذا ضروری تھا کہ اشعار بھی فارسی میں ہی ہوں چنانچہ فرمایا:

 

فزودہ شوکت اسلام و در روحم رواں آمد

 

سوئے ہندوستان حبیب اللہ خان آمد 

 

روایت کے برخلاف مدح کے بعد عرضِ حال کے طور پر “ستمہائے دوستاں” اور “مظالم بیگانگاں” کا ذکر کیا گیا ہے, چونکہ مقصد تعریف نہ تھی بلکہ ضروری تھا کہ مسلمانوں کی جانب سے ترجمانی بھی کی جائے:

 

رسالت را کسے منکر, کسے گوید نبی ہستم

 

کسے از وسط ہند آمد, کسے از قادیاں آمد

 

وسط ہند سے سرسید احمد خان کے نئے شوشوں کو مراد لیا ہے اور قادیاں سے نبوت کا دعوی کرنے والے کو. 

 

ہنرمنداں انگلستان کہ آئینِ جہاں بانی

 

چناں بستہ کہ ہندوستاں محسود شہاں آمد 

 

نظم بر مولانا رائے پوری

 

حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر آپ نے جو اشعار کہے ہیں یہ مرثیہ ترجیع بند ہیں, خاص بات یہ ہے کہ یہ اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ اسے اردو کے کلام میں شامل کیا جائے یا فارسی کے,وہ یہ ہیں :

 

رہنمائے مسالک ایماں

 

رہ نوردِ مراحل احساں 

 

راہگراے منازل ایقاں

 

ساقی بزم وحدت و عرفاں

 

زینت, زیب الف ثانی مرد

 

شاہ عبدالرحیم ثانی مرد

 

کچھ مصرعے اردو میں بھی کہے ہیں:

 

سر پر اس کوہ کو اٹھاتا کون

 

دل کے اندر اسے بٹھاتا کون

 

گردن اس کے لے جھکاتا کون

 

پڑھ کے یہ روتا اور رلاتا کون

 

زینت و زیب الف ثانی مرد

 

شاہ عبدالرحیم ثانی مرد

 

شیخ الہند کی رہائی

 

شیخ الہند کی رہائی کے متعلق مختلف افواہوں کے بعد روانگی کی اطلاع پہونچی,اور تاریخِ مقررہ پر اسکندریہ پہونچائے گئے, ۲۲ روز  بعد وہاں سے براہِ ریل سویز پہونچائے گئے,پھر نہایت تکلیف و دقت کے ساتھ رمضان میں جہاز کے ذریعے بمبئی کی طرف روانہ ہوئے,اور دو دن بعد دیوبند کے لئے روانہ ہوگئے اور ریل جس اسٹیشن پر پہونچتی وہاں دیکھنے والوں کا ایک جم غفیر ہوتا, یہ سلسلہ بمبئی سے لے کر دہلی اور دہلی سے لے کر دیوبند تک تھا.

 

ع 

 

وہ جادو کیا نہ جو سر چڑھ کے بولے

 

وفات حسرت ِ آیات:

 

 پھر چند دن بعد بیمار ہوئے, دہلی میں علاج کیا گیا پھر بھی راحت نہ ملی کیونکہ محبوب حقیقی سے ملنے کا وقت آچکا تھا, آٹھ بجے دن, تین مرتبہ “اللہ اکبر” پکار کر کہا اور خود اپنا بدن سیدھا کیا اور لیٹے اور 30نومبر1920ء،مطابق18ربیع الاول1339ھ بروز منگل کو روح مقدس جنت کو پرواز کرگئی۔(شیخ الہند:شخصیت، خدمات وامتیازت:35)

 

“فادخلی فی عبادی  و ادخلی جنتی”

 

جنازہ مبارک دیوبند لایا گیا, مولانا نانوتوی کے مزار کے قریب یہ آفتابِ علمِ نبوت ہمیشہ کے لئے عالمِ ظاہر سے پوشیدہ ہوگیا اناللہ واناالیہ راجعون

 

احقر شیخ الہند کے متعلق ایک شعر کہہ کر قلم کو روک دیتا ہے

ایسا چہرہ لائیں گے کہاں سے اس روز

 

 جس کے نام سے کانپ جاتے ہیں  انگریز بھی امروز

 

riyazmohammad1011@gmail.com