ہندوستانی مسلمانوں کا لیڈر کون؟

مولانا برہان الدین قاسمی

ما بعد آزادی ہندوستان میں مسلمانوں کو جن گونا گوں مشکلات سے دو چار ہونا پڑا ان میں عدمِ اتحاد اور قابلِ اعتماد سیاسی و سماجی قیادت کا فقدان بھی اہم مسائل رہے ہیں۔ دینی، سماسی اور سماجی سطح پر ابھرنے والے نام نہاد مسلم عمائدین کی اکثریت ایسے افراد پر مشتمل رہی ہے جنھوں نے عوام میں خاطر خواہ رسوخ کے بغیر خود کو ملی قیادت کے تخت پر سرفراز کرنے کی کوشش کی۔ ان کے دعویٔ قیادت و امامت کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ ان کے والد، دادا یا خاندان کا کوئی فرد ماضی میں ملت کی قیادت کا فریضہ انجام دے چکا ہے۔

ایوانِ زیریں کے حالیہ انتخابات میں علی الاقل تین ایسے مسلم رہنما سیاست کے جہموری میدان میں منظر عام پر آئے جنھیں قوم نے ان کی سیاسی و سماجی خدمات کی وجہ سے یکے بعد دیگرے انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار کیا۔ 

پارلیمنٹ کا حصہ ہونے اور ہندوستانی سیاست کا عملی تجربہ رکھنے کی وجہ سے ہندوستان کی موجودہ سیاسی و سماجی حالات کو سمجھنے میں ان منتخب عمائدین کی سیاسی بصیرت پر نسبۃً زیادہ بھروسا کیا جا سکتا ہے بر خلاف ایک ایسے شخص پر بھروسا کرنے کے جو لوک سبھا کا ایک الیکشن بھی تا حال نہ جیت سکا ہو۔ یہ وہ عمائدین ہیں جو دہائیوں سے انتخابات لڑ رہے ہیں اور اپنے متعلقہ حلقوں میں کامیاب انتخابی کمپیننگ کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے بساطِ سیاست پر منفی رجحانات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور سیاست میں اپنا لوہا منواکر خود کو مضبوط لیڈر ثابت کرچکے ہیں۔ دوسری طرف انھیں سیاست کا سبق پڑھانے ایک ایسا شخص آتا ہے جسے ایک تنظیم کی قیادت ورثے میں ملی ہے۔  

طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جس کو اچھی خاصی مسلم آبادی والے حلقوں سے قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر عملی سیاست میں ایک نہیں دو مرتبہ اپنی قسمت آزمانے کے بعد ناکامی ہاتھ لگی ہو وہ خود “لیڈر” بننے کی کوشش کررہا ہے اور منتخب رہنماؤں کو نصیحت ہی نہیں وارننگ دے رہا ہے۔ ایک ناکام سیاست داں ٹیلی وژن پر فیصلہ سناتا ہے کہ فلاں ہندوستانی مسلمانوں کا لیڈر نہیں، فلاں کو فلاں علاقے تک محدود رہنا چاہیے اور اگر فلاں نے آنجناب کی متعین کردہ حدود سے باہر قدم نکالا تو وہ یہ ہونے نہیں دیں گے۔ 

یہ تو وہی بات ہوئی کہ میں مقابلہ ہار چکا ہوں لہذا کسی دوسرے کو بھی جیتنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ میں نے کوشش کی اور منہ کی کھائی لہذا میں اب کسی کو بھی طالع آزمائی کا موقع نہیں دوں گا۔ یہ وہی بات ہوئی کہ کوئی ذیابیطس کا مریض یہ نادر شاہی فرمان جاری کردے کہ چونکہ ما بدولت شکر تناول نہیں فرماسکتے لہذا ہندوسان میں کوئی شکر نہیں چکھے گا۔ جی ہاں، کان کھول کر سن لیجیے، “ما بدولت شیخ الکل اور ہندوستانی مسلم سیاست کے قطب الاقطاب ہیں۔”

(مضمون نگار معروف دانشور اور مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر ممبئی کے ڈائریکٹر اور انگریزی میگزین ماہنامہ ایسٹرن کریسنٹ کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ اردو ترجمہ مفتی جاوید اقبال قاسمی نے کیا ہے)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں