ہم بھی 25 لاکھ عوام کی بھیڑ جمع کرسکتے ہیں اجودھیا میں لیکن ٹکراﺅ اور تصادم کے بجائے عدلیہ اور آئین پر بھروسہ رکھتے ہیں

جان بوجھ کر پورے ملک کے عوام کو دہشت زدہ کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ غیر قانونی طور پر رام مندر کی تعمیرات کے لئے ماحول سازی کی جاسکے اور لوگ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ کے اس فیصلے کو بھول جائیں جس میں متنازعہ مقام کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے پر بابری مسجد کی تعمیر کے حق کو تسلیم کیا گیا تھا۔
نئی دہلی(ملت ٹائمز)
جس طرح اجودھیا میں شدت پسند عناصر اور سنگھ کے لوگوں نے جمع ہوکر اشتعال انگیز نعرے لگائے ہیں اور گذشتہ ایک ماہ سے ملک کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کی گئی تھی اگر چاہیں تو ہم بھی پچیس لاکھ عوام کو اکٹھا کرسکتے ہیں ۔ایس ڈی پی آئی میں اتنی طاقت او رقوت ہے کہ وہ تمام ذات اور طبقہ سے پچیس لاکھ لوگوں کو اجودھیا میں جمع کردے لیکن ہم ٹکراﺅ اور تصادم نہیں چاہتے ہیں ۔ملک کے آئین اور عدلیہ پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔ان خیالات کا اظہار سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی)کے قومی سکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی ایک پریس کانفرنس میں کیا ۔
پریس کلب آف انڈیا میں ایس ڈی پی آئی نے آج ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں رام مندر کے نام پر ایودھیا کا ماحول گرم کرنے اور اشتعال انگیزی برپا کرنے کے لئے آرایس ایس اور اس کی حلیف تنظیموں شیوسینا ،بجرنگ دل اور ویشوہندو پریشد پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہاگیا کہ جان بوجھ کر پورے ملک کے عوام کو دہشت زدہ کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ غیر قانونی طور پر رام مندر کی تعمیرات کے لئے ماحول سازی کی جاسکے اور لوگ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ کے اس فیصلے کو بھول جائیں جس میں متنازعہ مقام کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصے پر بابری مسجد کی تعمیر کے حق کو تسلیم کیا گیا تھا۔
دہلی کے پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس منعقد کرکے ایس ڈی پی آئی کے قومی رہنماوں جناب آرپی پانڈیا قومی نائب صدر جناب محمد مجید صاحب قومی جنرل سکریڑی جناب محمد شفیع صاحب قومی جنرل سکریڑی ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی قومی سکریڑی اور صوبہ دہلی کے کنوینر ڈاکٹر نظام الدین نے کہا کہ گذشتہ دو دنو ن تک اتنے بڑے پیمانے پر ایودھیا میں لوگوں کو اکٹھا کرنے کے نام پر سینکڑوں کروڑوں روپے خرچ کئے گئے۔مشرقی یوپی کے لوگوں کی نقل وحمل متاثر کی گئی ہزاروں لوگوں کو خوف کے عالم میں اپنے گھروں سے ہجرت کرنی پڑی کیونکہ ایودھیا کی سڑکوں پر گذشتہ کئی دنوں سے اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے ان تنظیموں کے ارکان گشت کرتے رہے اور خوف پرپا کرتے رہے اس قسم کے غیر ضروری اشتعال انگیزعوامی اجتماع نے پورے ملک کو فسادات اور بد امنی کے خدشے سے دو چار کیا اور یہ سب کچھ صرف اس لئے کیا گیا کہ ملک کے عوام کو اور عدلیہ کو دھمکایا جاسکے کہ وہ کسی بھی قانونی جواز کو ماننے سے قطع نظر اپنی من مانی کریں گے ان حالات کے پیش نظر ایس ڈی پی آئی نے حکومت اتر پردیش سے مطالبہ کیا ہے کہ اس پروگرام کے منتظمیں سے پولس بندوبست اور دیگر اخراجات کا معاوضہ وصول کیا جائے۔
ایس ڈی پی آئی رہنماوں نے پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس قسم کی کوئی ریلی کسی سیکولر ،سماج واد ی،قبائلی ،پسماندہ طبقات یااقلیتی طبقات نے اپنے جائز مطالبات کے حمایت میں منعقد کی ہوتی تو ہندو توا کے یہی علمبردار اس کو سبوتاز کرنے کے لئے اس طرح حملہ آور ہوجاتے جس طرح گذشتہ فروری میں مہاراشٹر کے بھیما کور ے گاوں میں ایک دلت ریلی کو نشانہ بناکر تشدد برپا کیا گیا تھا۔
ایس ڈی پی آئی کے قومی رہنماوں نے کہا کہ بابری مسجد معاملے میں گذشتہ تین دہائیوں سے مسلمانوں نے کسی بھی قسم کے عوامی اجتماعات سے گریز کرتے ہوئے محض عدلتی فیصلے کے انتظار اور اس کے احترام کرنے کے اعلان تک خود کو محدود رکھا ہے۔
اور ہر قسم کے اشتعال انگیزی یا عوامی سطح پر کسی بھی قسم کی بھڑکاو بیاں سے مکمل احتراز کیا ہے حالانکہ بابری مسجد کی شہادت کے دن بھی اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راو نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھاکہ وہ اسی مقام پر مسجد کی دوبارہ تعمیر کروائیں گے اور وہ وعدہ آج تک پورا نہیں کیا گیا اس کے باوجود مسلمان ہند عدلیہ کے احترام میں انتہائی صبر وضبط کے ساتھ اس کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان حالات میں نام نہاد ہندوتوا وادی تنظیموں کی یہ اشتعال انگیز ی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ وہ فیصلے سے قبل ہی اپنی شکست قبول کر چکے ہیں حالانکہ ان میں سے بہت سی تنظیمیں عدالت میں فریق بھی نہیں ہیں اس کے باوجو د یہ تنظیمیں یک طرفہ طور پر ملک میں نفرت اور ہیجان کا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہیں اور واضح طور پر اعلان کر رہی ہیں کہ انہیں ملک کے عدلیہ پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سمیت ملک میں قومیت کے علمبرداروں کے اس قسم کے ہتک آمیز بیانات کو تشویش کی نظر دیکھتی ہے اور اسے عدلیہ کی تحقیر مانتی ہے کہ یہ آستھا کا معاملہ ہے اور استھا کا فیصلہ کرنا عدالتی دائرے اختیار سے باہر ہے جبکہ عدالت عظمی یہ واضح کر چکی ہے کہ بابری مسجد قضیہ استھا کا معاملہ نہیں ہے بلکہ زمیں کی حق ملکیت کا معاملہ ہے۔
ایس ڈی پی آئی گذشتہ روز راجستھان کے الور ضلع میں بی جے پی کی ایک انتخابی ریلی کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کے اس بیان کی بھی سخت مذمت کرتی ہے کہ رام مندر معاملے میں ان کی سیاسی حریف کانگریس روڑے اٹکا رہی ہے کہ اس کے جانب سے اس معاملے کو معرض التوا میں ڈالنے کی درخواست کی گئی تھی۔
اس قسم کے بیانات سے بالوسطہ طورپر وزیر اعظم نریندر مودی عدلیہ کو ہی مورد الزام ٹھہرارہے ہیں گویا عدالت کسی ایک خاص پارٹی کے زیر اثر کام کر رہی ہے اور عدالت ہندو مخالف ہے۔ اس بیان سے عوام کے اکثر یتی طبقے میں عدالت کے تئیں نفرت اور عدم اعتماد کی فضا قائم ہوتی ہے جو ایک جمہوری ملک میں ایک انتہائی خطرناک تاثر ہوگا کیونکہ عدلیہ جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی کے حیثت رکھتا ہے ایس ڈی پی آئی وزیر عظم سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے لئے ملک سے معافی مانگیں کہ محض چند اسمبلی انتخابات جیتنے کی خاطر اس طرح کے خطرنات بیانات سے ملک میں جمہوریت کی بقا کے لئے انتہائی مضر ہیں وزیر اعظم سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ اس موقع پراور اپنی پارٹی اور آر ایس ایس سے اپیل کریں گے کہ وہ اس معاملے میں کسی قسم کی اشتعال انگیزی سے گریز کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کا احترام کریں۔
ایس ڈی پی آئی ایودھیا کی سڑکوں پر اپنی سیاسی بساط بچھانے کے لئے شیوسینا کے عمل کے بھی سخت مذمت کرتی ہے کہ جس کا مقصد محض اتنا تھا کہ مہاراشٹر میں وہ ایک بار پھر نمبر ایک پوزیشن حاصل کرکے اپنا وزیر اعلی بیٹھا سکیں اور آئندہ لوک سبھا انتخابات میں اپنے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کے لئے ٹکٹ حاصل کر سکیں جبکہ آج تک ٹھاکر ے خاندان کے کسی بھی فرد نے ایودھیا کا دورہ نہیں کیا تھا ایسے میں اچانک یہ دورہ صرف یہ ثابت کرنے کی کوشش تھا کہ مہاراشتر میں وہ سب سے بڑی ہندوتوادی جماعت ہیں تاکہ وہاں کے ہند ووٹران کو اپنے جانب راغب کیا جاسکے ایس ڈی پی آئی کا ماننا ہے کہ بی جے پی شیوشینا اور سنگھ پریوارکی تمام حلیف جماعتوں کا مقصد رام مندر کے نام پر تمام جذبات کو برانگیختہ کرکے حکومت پر قابض رہنے کے سوا کچھ نہیں ہے تاکہ اس کے ذریعے وہ اپنے فسطائی ایجنڈے کو ملک پر تھوپ سکیں اور اس طرح ایک جانب ملک کے بڑے صنعتی گھرانوں کو فائدہ پہنچائے وہیں دوسری جانب ملک کے دبے کچلے مظلوم ومفلوک عوام کی آواز اٹھانے والی سیکولز انصاف پسند اور جمہوری آوازوں کو دبایا جاسکے۔رام مندر کی آڑ میں قومیت اور حب الوطنی کی تعریف کو ہندو قوم پرستی کے نام پر بدلا جارہا ہے اور حق پرستوں کی آواز کو کچلنے کے لئے ملک دشمن قرار دیا جارہا ہے اور اسی آڑ میں حکومت پانے ناکامیوں کو چھپانے اور اعلی سطحوں پر ہونے والے لوٹ اور کرپشن پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے۔جبکہ آرایس ایس جیسی دائیں بازو کی عسکریت پسند تنظیم نے رام مندر کی مکمل کمان ہاتھ میں لینے کا اعلان کر رہا ہے تو اس بات کا خدشہ بڑھ گیا ہے کہ ملک عنقریب انار کی اور افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔
پریس کانفرنس میں اعلان کیا گیا ہے کہ ایس ڈی پی آئی آنے والے چھ دسمبر کودہلی میں ایک بڑی ریلی منعقد کرے گی جسمیں ہر مذہب ،سماج اور طبقات کے لوگ شرکت کریں گے۔ریلی میں دلت ،قبائلی اور سماجی انصاف کی تنظیموں سے وابستہ بیشتر لوگوں کی شرکت متوقع ہے تاکہ ہندوتووادیوں کے اس مفروضے کو غلط ثابت کیا جاسکے ملک کے تمام رام مندر کی تعمیر کے حق میں ایک زبان ہوچکے ہیں۔ریلی 6دسمبر کو صبح دس بجے منڈی ہاوس سے شروع ہو کر پارلیمنٹ تک مارچ کرے گی۔۔۔۔جلسے کی صورت اختیار کرلے گی۔
ایس ڈی پی آئی اس امر پر اظہار اطمنان کرتی ہے کہ اتنی بڑی اشتعال انگزی اور تشہیر کے باوجود ہندوتووادی جماعتیں ایودھیا میں خاطر خواہ بھیڑ اکٹھا کرنے میں نا کام رہی مقامی لوگوں نے پر امن رہ کر تشدد برپا کرنے والوں کے ناپاک منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔

SHARE