ڈاکٹر یامین انصاری
بی جے پی کے سامنے اب مشکل یہ ہے کہ حصولیابیوں اور عوامی مسائل کے معاملے میں وہ پہلے ہی صفر ہے اوراس کا آخری حربہ ہندوتوا بھی ناکام ہو گیا ہے
ویسے تو ریزرو بینک آف انڈیا میں چل رہی اٹھا پٹخ اور گورنر و ڈپٹی گورنر کے استعفوں کا معاملہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ سی بی آئی اور آر بی آئی جیسے ملک کے کئی دیگر مرکزی اداروں کو جس طرح بے معنی اور بے حیثیت بنا کر رکھ دیا گیا ہے، اس نے ہر ہندوستانی شہری کی پیشانی پر پریشانی کی لکیریں کھینچ دی ہیں۔ لیکن پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتیجے اس وقت زیادہ توجہ طلب ہیں۔ کیوں کہ ان نتیجوں سے مستقبل قریب میں ملک کی سیاست کا رخ طے ہوگا۔ جیسا کہ پہلے ہی کہا جا رہا تھا کہ مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم کے اسمبلی انتخابات ۲۰۱۹ ء کے عام انتخابات کا سیمی فائنل ہیں۔یہ انتخابات ۲۰۱۹ ء کی تصویر کافی حد تک صاف کر دیں گے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے، کیوں کہ اب ملک کے عوام نے اپنے ارادے ظاہر کر دئے ہیں۔ ان پانچ ریاستوں کے نتیجوں نے ملک کے دگر گوں ہوتے حالات اور افراتفری کے ماحول کے درمیان نہ صرف امید کی کرن پیدا کی ہے، بلکہ یہ بھی بتا دیا ہے کہ ملک کی اکثریت فرقہ پرستی، نفرت، تشدد اور زہر آلود سیاست کو پسند نہیں کرتی ہے۔ پانچوں ریاستوں کے عوام نے نفرت کے سوداگروں اور فرقہ پرست طاقتوں کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ وقتی طور پر بھلے ہی آپ عوام کو جذباتی ایشوز میں الجھا سکتے ہیں، ان کا جذباتی استحصال کر سکتے ہیں، ان کا استعمال کر سکتے ہیں، ان کو ایندھن بنا کر اپنی سیاسی روٹیاں سینک سکتے ہیں، ’علی‘ اور ’بجرنگ بلی‘ کرکے مٹھی بھر لوگوں کو خوش کر سکتے ہیں،لیکن تا دیر آپ عوام کو بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ آپ کو عوامی مسائل پر توجہ دینی ہی ہوگی۔ ان نتائج نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ ملک کے عوام اب بی جے پی کے دام فریب میں نہیں آنے والے۔ ان کا مندرمسجد، ہندو مسلم، طلاق، لو جہاد، گھر واپسی، گو ¿ رکشاجیسے غیر ضروری مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ انھیں روز گار چاہئے، تعلیم چاہئے، طبی سہولتیں چاہئے،کاروبار میں ترقی چاہئے، سڑک، بجلی، پانی چاہئے اور ملک میں امن اور بھائی چارہ چاہئے۔ جو بھی ان مسائل پر بات کرے گا اور اس سلسلہ میں کوئی کام کرے گا، عوام کی حمایت اسی کو حاصل ہوگی۔ آپ بہت زیادہ دنوں تک مذہبی اور جذباتی مسائل میں لوگوں کو الجھا کر نہیں رکھ سکتے۔
بی جے پی کو اب سمجھ جانا چاہئے کہ ۴۱۰۲ء میں اس نے عوام سے جو دل فریب وعدے کئے تھے اور عوام نے ان وعدوں پر یقین کرکے اسے جو حمایت دی تھی، ان کو پورا کرنے کے لئے اب بھی کچھ وقت باقی ہے۔ اگر بی جے پی ہندو مسلم اور مندر مسجد چھوڑ کر عوامی مسائل کو حل کرنے کی سمت میں کچھ عملی اقدامات کرتی ہے تو کچھ حد تک عوام ان کی جانب متوجہ ہو سکتے ہیں، لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام شاید بی جے پی کے دام فریب میں بار بار نہیں آئیں گے۔ انھوں نے اسمبلی انتخابات میں اپنا پیغام سنا دیا ہے۔۹۱۰۲ءکے لوک سبھا انتخابات سے پہلے راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کسی بڑے جھٹکے سے کم نہیںہے۔اب ایسا لگنے لگا ہے کہ خود کو نا قابل شکست ماننے والی بی جے پی کی جیت کا سلسلہ ۸۱۰۲ء کے اسمبلی انتخابات میں آکر تھم ساگیا ہے۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے بی جے پی کے خلاف جو شاندار مظاہرہ کیا ہے، اس سے مرکز میں بھی اس کی واپسی کا اشارہ ملتا ہے۔ ۴۱۰۲ء میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد کانگریس سے براہ راست مقابلے میں بی جے پی نے پہلی بار اپنی اقتدار والی ریاستوں کو گنوایا ہے۔ یوں توپنجاب اور کرناٹک میں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن پنجاب میں بی جے پی شرومنی اکالی دل کے ساتھ این ڈی اے کا حصہ تھی اور وہ وہاں براہ راست کانگریس سے مقابلہ میں نہیں تھی۔دوسری جانب کرناٹک میں کانگریس ہی اقتدار میں تھی۔ بعد میں جنتا دل ایس کے ساتھ مل کر اقتدار میں واپسی کی۔ ابھی تک ’ کانگریس مُکت بھارت ‘ کا نعرہ دینے والی مودی اور امت شاہ کی یہ جوڑی گزشتہ ساڑھے چار سال میں کانگریس کو ایک ایک کر کے کئی ریاستوں سے بے دخل کرتی آ رہی تھی، تا ہم اب جا کر یہ سلسلہ تھم گیا ہے۔ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس نے اپنی کارکردگی سے ایک بار پھر بی جے پی کے چانکیہ کہے جانے والے امت شاہ کی حکمت عملی کو جھٹلا دیا ہے ۔ تاہم، یہ پہلی بار نہیں ہے جب امت شاہ کی حکمت عملی ناکام ثابت ہوئی ہے اور ان کی خوش فہمی مٹی میں مل گئی ہے۔ اس سے پہلے تین بار امت شاہ کی حکمت عملی غلط ثابت ہو چکیہے۔ پانچ ریاستوں کے انتخابات کے نتائج سے پہلے بھی تین ریاستوںکرناٹک، دہلی اور بہار نے امت شاہ کی انتخابی حکمت عملی کو آئینہ دکھا دیا تھا۔کرناٹک انتخابات کے نتائج میں معلق اسمبلی نے کانگریس کے لئے تھوڑی سی مشکل پیدا کر دی تھی۔ تا ہم کانگریس نے ایسا انتخابی داؤ چلا کہ بی جے پی کے یدی یورپا کو کرسی سے ہٹنا پڑا اور وہاں کانگریس نے جے ڈی ایس کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی۔یہاں بی جے پی ۴۰۱ نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری، لیکن وہ اکثریت سے۸ سیٹیں پیچھے رہ گئی۔ کانگریس کو۸۷ سیٹوں پر کامیابی ملی، وہیں جنتا دل سیکولر (جے ڈی اےس) ۷۳ سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی۔ وہیں جے ڈی اےس کی اتحادی پارٹی بی ایس پی کو ایک سیٹ ملی ۔ بی جے پی جیسے ہی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام ہوئی ، تو کانگریس نے ۸۷ سیٹوں کے باوجود جلدی دکھاتے ہوئے ۷۳ سیٹوں والی جے ڈی اےس کو حمایت دینے کا داؤ چل دیا۔ اس کے بعد جے ڈی اےس نے بھی حمایت اور ایچ ڈی کمارسوامی کو وزیر اعلی بنانے کی پیشکش منظور کر لی۔ اس طرح وہاں بھی امت شاہ کی حکمت عملی ناکام ہو گئی۔ اس سے پہلے دہلی میں ۵۱۰۲ء کے اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور بھاری اکثریت کے ساتھ دہلی کے اقتدار پر قابض ہوئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ہر طرف مودی لہر کی چرچہ تھی، ۴۱۰۲ء کے عام انتخابات میں بی جے پی نے زبردست جیت حاصل کی تھی۔ لیکن ۵۱۰۲ء کے دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج نہ صرف عام آدمی پارٹی کے حق میں آئے بلکہ اروند کجریوال کی پارٹی نے کانگریس کے ساتھ ہی بی جے پی کو بھی چاروں شانے چت کر دیا۔ ۷۰ سیٹوں والی دہلی اسمبلی میں عام آدمی پارٹی نے اسمبلی کی ۷۰ سیٹوں میں سے ۷۶ سیٹوں پر قبضہ جما لیا تھا۔ بی جے پی محض ۳ سیٹوں پر ہی سمٹ کر رہ گئی اور کانگریس اپنا کھاتہ تک نہیں کھول سکی تھی۔اس کے بعد مودی لہر کے درمیان ہی بہار کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو بڑا جھٹکا لگا۔ بہار کی۳۴۲ سیٹوں میں سے لالو پرساد یادو کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی۔ آر جے ڈی کو ۰۸ اورجے ڈی یو کو ۱۷سیٹیں ملی تھیں۔ اس وقت بی جے پی کو ۳۵ اور ایل جے پی اور آر ایل ایس پی کو بالترتیب دو دو سیٹیں ملی تھیں۔ اس انتخاب میں جے ڈی یو، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور کانگریس نے عظیم اتحاد بناکر الیکشن لڑا، جس میں تیسری پارٹی کانگریس کو۷۲ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں۔ اس الیکشن میں بھی امت شاہ کی حکمت عملی کو گہرا دھکا لگا تھا۔
بہر حال یہ تو طے ہے کہ ملک کے عوام بی جے پی سے عاجز آ چکے ہیں۔ تعلیم، روزگار، کاروبار، صحت اور دیگر عوامی مسائل کو حل کرنے میں پوری طرح ناکام ہو چکی بی جے پی نے جی ایس ٹی اور نوٹ بندی کی شکل میں عوام کو ایک اور چوٹ پہنچادی، جسے وہ آج بھی نہیں بھول سکے ہیں۔اسی لئے ان انتخابات میں بی جے پی نے عوام کو مندر مسجد اور ہندو مسلم کارڈ کھیل کر ایک بار پھر جذباتی مسائل میں الجھانے کی کوشش کی، لیکن اسے اندازہ ہی نہیں ہے کہ عوام نفرت اور فرقہ پرستی کی سیاست کو سمجھ چکے ہیں۔ لہذا پانچوں راستوں کے عوام نے بی جے پی کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ اب انتظار ہے ۹۱۰۲ء کے عام انتخابات کا۔ اگر کانگریس اور دیگر علاقائی اپوزیشن پارٹیاں ایسے ہی نتائج دیکھنا چاہتی ہیں تو انھیں پارٹی کے نفع نقصان سے اوپر اٹھ کر ملک کے مفاد میں کچھ سمجھوتے کرنے ہوں گے۔
(مضمون نگار معروف صحافی اور روزنامہ انقلاب کے ریزڈینٹ ایڈیٹر ہیں)