اشرف علی بستوی
انیس مئی کو پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج آگئے ، سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق نتائج حیران کن نہیں ہیں ، اس کی پیشین گوئی مارچ کے اوائل میں ہی بعض لوگوں کردیا تھا ، آسام میں بدرالدین اجمل اور ترون گوگوئی کے درمیان سیاسی مفاہمت نہ ہوپانے کی وجہ سے سبھی کا ماننا تھا کہ اس بارآسام میں بی جے پی کی اچھی پیش رفت ہو سکتی ہے لیکن اس قدر مضبوط ہوکر ابھرے گی اس کا گمان شاید نہیں تھا۔ اس بار بی جے پی کی مودی کو الیکشن مہم سے ذرا دور رکھنے کی حکمت عملی کامیاب رہی ، عین ممکن ہے بہار اور دہلی میں بدترین شکست سے سبق لیتے ہوئے بی جے پی نے کیا اس بار وزیر اعظم نے آسام میں صرف تین ریلیاں کیں جبکہ دہلی میں 18 ریلی میں شریک ہوئے تھے۔ مغربی بنگال میں ووٹ فیصد میں کمی کے باوجود بی جے پی دو سے زائد 6 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
وہ حلقے جو بی جے پی کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل میں راجیہ سبھا میں اس کی کمزوری دور کرنے کے لیے سرگرم رہتے ہیں انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ بی جے پی کو اس جیت سے راجیہ سبھا میں فوری طور پر کوئی فائدہ ملنے والا نہیں ہے۔ راجیہ سبھا میں کمزور این ڈی اے کو ان انتخابات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا البتہ ا?ئندہ بی جے پی کے ارکان کی تعداد ایوان بالا میں بڑھ سکتی ہے؟
آئندہ چند ماہ میں راجیہ سبھا کی کچھ سیٹوں کے لئے انتخابات ہونے ہیں، اس سے این ڈی اے کو راحت مل سکتی ہے۔ تمل ناڈو کی چھ راجیہ سبھا سیٹوں کے لئے اگلے ماہ انتخابات ہوں گے۔ اے آئی اے ڈی ایم کے کے تین ایم پی نونت رشن، منوج پال پانڈین اور ربی برنارڈ، ڈی ایم کے کے دو ایم پی کے پی رامالنگم اور ایس تھنگاویلو اور کانگریس کے ای ایف سدرشن نچی یپپن 29 جون کو ریٹائر ہوں گے۔
اے آئی اے ڈی ایم کے اپنے تینوں ممبران پارلیمنٹ کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ ڈی ایم کے کا بھی اپنے دونوں ممبران پارلیمنٹ کو دوبارہ راجیہ سبھا بھیجنے کا امکان ہے۔ البتہ چھٹی نشست پرغیر یقینی صورتحال ہے۔ اگر کانگریس اس نشست کو نہیں جیت پائی تو ایوان بالا میں اس کی تعداد کم ہوکر 64 سے 63 رہ جائے گی۔
مغربی بنگال میں 16 سیٹیں ہیں۔ ان میں سے 6 کی رکنیت اگست 2017، پانچ اپریل 2018 اور باقی پانچ اپریل 2020 تک ہے۔ اگلے سال ریٹائر ہونے والے چھ میں سے چار ایم پی میں سے ٹی ایم سی ، ایک کانگریس اور ایک لیفٹ کا ہے۔ ٹی ایم سی پانچ ایم پی راجیہ سبھا بھیج سکتی ہے۔ لیفٹ کو ایک نشست کا نقصان ہوگا ، راجیہ سبھا میں لیفٹ کی تعداد 8 سے گھٹ کر 7 رہ جائے گی۔ کیرالہ میں راجیہ سبھا کے 9 ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ گزشتہ ماہ ہی تین نشستوں کے لیے انتخابات ہوئے ہیں۔ باقی چھ ممبران پارلیمنٹ کو انتخابات جولائی 2018 اور 2021 میں ہونا ہے۔ ا?سام میں سات راجیہ سبھا سیٹیں ہیں۔ ان میں سے دو کے لئے گزشتہ ماہ ہی انتخابات ہوئے۔ راجیہ سبھا کے لئے اگلے انتخابات یہاں جون 2019 میں ہوں گے۔ اس لیے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اثر راجیہ سبھا پر 2020 میں پڑے گا۔ نیز بی جے پی کو ان انتخابات سے راجیہ سبھا میں کوئی فوری فائدہ نہیں ہوگا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے نتائج کو بی جے پی کے تئیں عوام کا اعتماد کی علامت قرار دیا ہے ، اور کہا کہ اہل وطن ترقی اور عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی لانے کے پارٹی نظریات کو حمایت دے رہے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ا?سام میں بی جے پی کی جیت کانگریس اور اے آئی یو ڈی ایف کی ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ ہے ، اور اس میں اس گمراہ کن پروپیگنڈے کا بھی دخل ہے جو وزیر اعظم نے 2014 کے عام انتخابات کے وقت ا?سام میں اپنی ریلیوں میں کیا تھا۔ انہی ایم میں انگریزی نیوز چینل ٹائمس ناو کو دیے ایک انٹرویو میں مودی نے کہاتھا کہ دنیا میں بسنے والے سبھی ہندووں کا فطری وطن ہندوستان ہے اور ہمیں ان کی فکر کرنی چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ بنگلہ دیش اور پاکستان سے دہائیوں قبل آئے ہندو پناہ گزینوں کو بسانے کے لیے اب تک کی سرکاروں نے کچھ نہیں کیا یہ لوگ بھارت کی سرزمین پر مارے مارے پھر رہے ہیں ساتھ ہی آسام اور بنگال کے مسلمانوں کو درانداز کہہ کر ملک سے باہر نکالنے کے عزم کا اعا دہ کیا تھا،آسام میں تو یہ فارمولہ کامیاب ہو گیا لیکن بنگال میں انہیں خواطر خواہ کامیابی نہیں ملی اب یہ دیکھنا ہوگا کہ آسام میں اقتدار کی منتقلی کیا تبدیلی لائے گی؟ آسام میں اقلیتوں اور کمزور طبقات کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لیے وزیر اعظم کیا منصوبہ ترتیب دیں گے ؟(ملت ٹائمز)
ashrafbastavi@gmail.com