محمد عارف اقبال
تصور میں تجھے ذوق ہم آغوشی نے بھینچا تھا
بہاریں کٹ گئی ہیں آج تک پہلو مہکتا ہے
اُن دنوں ہم بچے آپس میں اپنے پسندیدہ شخصیات کا انتخاب کرتے اور ایک دوسرے کی پسندیدگی پربرتری ثابت کرنے کی جی توڑ کوشش کرتے۔ فرصت کے اوقات میں یہی مشغلہ محبوب ہوتا ، مختلف میدان سے ایک ایک نمایاں شخصیات کا تذکرہ اور ان کی کارگردگی پر بحث و مباحثہ۔بچپن میں میری پسندیدہ شخصیات کچھ اس طرح ہوا کرتیں تھیں۔کھیل کی دنیا سے سچن تنڈولکر،برائن لارا، وسیم اکرم اور بریٹ لی۔ موسیقی میں محمدرفیع، لتا منگیشکر اور ادت نارائن۔ اداکار میں امیتابھ بچن، عامر خان اور جانی لیور۔ سیاست داں میں لالو پرساداور اٹل بہاری واجپائی ۔ شاعر میں بشیر بدر اور منور رانا۔ خطیب میں حضرت مولاناقاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ ، حضرت مولانا طاہر حسین گیاوی اور حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی یہ حضرات ہمارے ہیرو ہوا کرتے تھے۔
جب لکھنے پڑھنے سے رغبت ہوئی، کتب بینی اور اخبار مطالعہ میں آیا تو ایک نام تسلسل سے جو کم و بیش ہر اخبار کے اداراتی صفحہ کی زینت ہوتا ۔ بے لاگ، بے خوف اور نکیلی تحریر جن کا طرہ امیتاز تھا ، انہیں مسلسل پڑھنے اور سمجھنے کے بعد میری لسٹ میں ایک اور ہیرو کا اضافہ ہوا، نام تھا ’’ کلدیپ نیر ‘‘۔
مذکورہ باتیں شعور کی ابتدائی زمانے کی ہے، رفتہ رفتہ شعور بالیدہ ہوتا گیا، پسندیدگی میں تبدیلی آتی گئی ، مگر کلدیپ نیر صاحب کا نام ذہن و دماغ پر نقش رہا،آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا، وہ میرے ہیرو کل تھے، آج ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جب جرنلزم کا طالب علم ہوا تو اساتذہ کے زبانی کلدیپ نیر صاحب کا نام بڑے ادب و احترام سے لیتے ہوئے سنا، طلبہ بھی ان کی صحافتی زندگی کے دلچسپ قصے ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتے ۔آہستہ آہستہ کلدیپ صاحب کو دیکھنے کی خواہش امڈنے لگی۔ اب یہ ہمارے صحافتی زندگی کے آئیڈیل تھے۔ اصل زندگی میں جو ہیرو ہوتے ہیں، مداح کی ان تک رسائی بڑی دشوار کن ہوتی ہے، انہیں صرف ٹیلی ویزن اور اخبارات کی سرخیوں میں دیکھ کر ہی دم بھرنا پڑتا ہے ۔ لہٰذا، کلدیپ صاحب کے تعلق سے بھی یہ بات ذہن نشیں رہی کہ شاید ان سے کبھی ملنے کا موقع ملے ۔
وقت آگے بڑھتا رہا، کلدیپ صاحب سے ملاقات کا خیال دماغ سے نہیں گیا۔ موقع بموقع لوگوں سے کلدیپ صاحب کے تعلق سے پوچھتا رہا اور ان سے ملنے کی صورت دریافت کرتا رہا۔ احباب بھی ان سے ملنا آسان نہیں ،کہہ کر ٹال دیتے۔ تلاش جستجو آخر ایک دن رنگ لائی ، ان کا نمبر حاصل ہوا۔ بلاجھجھک فون گھما یا۔ ہیلو کرنے کے بعد سامنے سے ایک بھاری بھرکم آواز ٹکرائی ۔ دعا سلام کرنے کے بعد کہا ، سر ! میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں صحافت کا طالب علم ہوں ، آپ سے ملاقات کی خواہش رکھتا ہوں، انہوں نے بغیر لام قاف کئے محبتانہ انداز میں کہا ، کل میرے غریب خانہ پر شام چھ بجے آ جائیں۔ ملاقات کا وقت ملتے ہی کھل اٹھا۔ اتنا معلوم کر لیا تھا کہ کلدیپ صاحب وقت کے بہت پابند ہیں ، لہٰذا چھ بجتے ہی ان کے گھر میں داخل ہو گیا، ملازم نے ان کے آفس میں لے جاکر بیٹھا یا، آفس کیا ایک لائبریری تھی، کچھ دیر میں چائے ناشتہ لئے ملازم حاضر ہوا اور کہا صاحب آ رہے ہیں،آپ چائے پی لیں۔ لائبریری میں موجود کلدیپ صاحب کی رکھی ہوئی ایک ایک چیز غور سے دیکھنے لگا۔ نہرو جی ، شاستری جی کے ساتھ کی تصویر، ان کے مطالعہ میں رہنے والی کتابیں، صحافتی خدمات کے اعتراف میں ملنے والا اعزاز۔ چائے کی چسکی کے ساتھ ان تمام چیزوں کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتا رہا کہ اس لائبریری میں ایک پورا عہد سمایا ہوا ہے۔ اتنی دیر میں آہستہ آہستہ قدموں کی آواز آنے لگی اور لاٹھی کے سہارے کلدیپ صاحب داخل ہوئے۔ میں فوراً اٹھ کھڑا ہوا ، ایک تناور درخت کی طرح کلدیپ صاحب میرے سامنے کھڑے تھے میں نے فوراً آداب کہا، وہ بھی اپنی بھاری موٹی آواز میں جواب دیتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئے۔ کلدیپ صاحب کو سامنے پا کر ذہن و دماغ میں یہ شعر کندنے لگا :
آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصروں
جب بھی ان کو دھیان آئے گا تم نے فراق کو دیکھا ہے
کلدیپ صاحب فراق کے مانند میرے سامنے سراپا تھے۔ پر کشش شخصیت، آنکھوں پر موٹے گول چشمہ، سفید کرتا پاجامہ اور اس پر کالی بندی اور سر پر مخملی ٹوپی۔ اس وقت کسی صحافی سے ملنے، انہیں قریب سے دیکھنے اور بات کرنے کو ہم طالب علم بڑا اعزاز سمجھتے ، پھر کلدیپ صاحب کا شمار تو ہندوپاک کے عظیم صحافی میں تھا، اس لئے نگاہ جمائے کلدیپ صاحب کو بڑے غور سے ان کی ایک ایک ادا اور چہرے پر نمایاں ہونے والے نقوش کو دیکھتا اور سنتا رہا۔
’’ ہا ں جی، بتائیں مجھ سے کیوں ملنا چاہتے تھے اور کہاں سے آئیں ہیں ‘‘۔ ان کی بات کا میں صرف اتنا ہی جواب دے سکا ’’ بس آپ کو دیکھنے کی خواہش یہاں کھینچ لائی ‘‘ ۔ اتنا سنتے ہی وہ کھل کھلا کر ہنسنے لگے، کہا مجھ میں ایسا کیا ہے جو دیکھنے چلے آئے، میں نے کہا آپ میرے بچپن کے ہیرو ہیں۔ انہوں نے تجسس سے پوچھا ، وہ کیسے؟ جواب میں پوری روداد سنائی۔ اب کلدیپ صاحب بڑی خوش دلی اور انہماک سے بات کر رہے تھے، ایساقطعی محسوس نہیں ہوا کچھ دنوں قبل تک جس شخص سے ملاقات کی خواب دیکھا کرتا تھا وہ سامنے ہیں، بالکل سادہ دل انسان، نہ آواز میں رعب، نہ گفتگو میں تصنع، نہ اخلاق میں پستی اور نہ چھوٹوں کے شفقت و اکرام میں بخالت۔ پھرانہوں نے جامعہ ملیہ کی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھا اور اس سے جڑی اپنی یادیں گنگنانے لگیں۔ انہوں نے کہا مجھے بیحد خوشی ہوتی ہے جب نئی نسل اور نوعمر سے ملتا ہوں اور ان کے افکار و خیالات سے آگاہ ہوتا ہوں، وہ جدیدیت کے قائل تھے اور کہتے اتنی ساری سہولیات ہم لوگوں کے زمانے میں نہیں تھی، آپ لو گ جدید ٹیکنالوجی سے خوب فائدہ اٹھائیں۔ پھر موجودہ حالات پر بھی باتیں کیں، اور سیاست میں ہو رہے اٹھا پٹک پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ تقریباً سوا گھنٹے کی اس پہلی ملاقات میرے حافظہ میں کسی فلم کی طرح قید ہیں، شروع ہوتے ہی سارے مناظر رقص کرنے لگتے ہیں۔ چلتے وقت بہت سارا دعا پیار دیتے ہوئے کہا ، آتے رہنا۔
اس کے بعد مسلسل کلدیپ صاحب کے رابطہ میں رہا، ہر دو تین ماہ پر بلا جھجھک ان سے ملاقات کرنے ان کی رہائش گاہ پر چلا جاتا اور فیض پا کر واپس آتا، وہ بھی بہت خوش ہوتے۔ اس پہلی ملاقات میں ہی وہ دل کو بھا گئے، جتنا ان کے بارے میں سنا تھا ا س سے کہیں زیادہ نرم دل، عاجز و انکساری اور عزیزوں سے شفقت و محبت کرنے والے پایا۔ وہ استاذ الاساتذہ تھے، دنیائے صحافت میں کئی نسلوں کی انہوں نے آبیاری کی ہے، جو آج شہرت کے مقام پر ہیں۔ میں ان کے سامنے موجودہ نسل کا سب سے چھوٹا طالب علم تھا، جب اتنے عظیم صحافی کی محبت و شفقت ملے تو کیوں نہ اپنی قسمت پر رشک کروں ۔ کیوں نہ ان کی محبت کا دم بھروں۔ اس وقت میرے دل میں بس یہی خیال تھا کہ مجھے بھی ان کی طرح غیر جانب دارصحافی بننا ہے، ان کے جیسا بے باک لکھنا ہے، ان کے نقش قدم پر چل کر صحافت میں نام اونچا کرنا ہے۔
امسال (2018ء) میں نیوز پورٹل شروع کرنے کا جب خیال آیا تو سب سے پہلے ان سے ہی مشورہ کرنے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے پوچھانام کیا سوچا ہے؟ جواب دیا، ’’دا نیشن‘‘۔ سنتے ہی حامی بھر دی ، کہا اس سے بہتر اور اچھا نام نہیں ہو سکتا۔ اسی نام کو رکھو، اس نام سے تمہاری قومی محبت بھی جھلکتی ہے اور اس سے جڑنے والوں کے اندر قومی خدمت کا بھی جذبہ پیدا ہوگا۔ میں نے اور بھی کئی نام پیش کیئے، مگر انہوں نے ’’ دا نیشن ‘‘ رکھنے کا ہی مشورہ دیا۔ تجویز کردہ نام قبول کرتے ہوئے کام شروع کردیا۔ 21جنوری 2018ء کو نیوز پورٹل لانچ کرنے کا وقت قریب آیا تو پروگرام کی صدارت کی پیشکش کی، جسے ضعف و نقاہت کے باوجود انہوں نے بخوشی قبول کرلیا اور کچھ ضروری ہدایات اور مفید مشورہ دیئے اور کہا میری طبیعت اچھی رہی تو میں تمہارے پروگرام میں ضرور شرکت کروں گا۔ مگراس دن سخت علیل اور کمزوری کی وجہ سے وہ پروگرام میں شریک نہیں ہو سکے تاہم انہو ں نے پروگرام کی تفصیلات فون پر لی اور کامیابی پر مبارک باد پیش کی۔ اگلے دن ہی ان کی عیادت کے لئے حاضر ہوا اور ان کے اعزاز میں پیش کئے جانے والا مومنٹو انہیں سپرد کیا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور سر پر ہاتھ رکھ کر دھیر ساری دعائیں دیں۔ پھر ویب سائٹ کھول کر دیکھانے کو کہا اور اس کے مشمولات دیکھے ۔ میری خواہش پر از راہِ محبت انہوں نے دوبارہ سے بٹن دبا کر ’’ دا نیشن ‘‘ کی رونمائی کی اور اس آغاز کو ایک مبارک قدم سے تعبیر کیا۔ کلدیپ صاحب ’’ دا نیشن ‘‘ کو پابندی سے اپنی نگارشات بھجتے ۔ ان کی تحریر کا جو رنگ تھا آخری دنوں تک چڑھا رہا۔
کلدیپ نیر صاحب ہندوپاک کے درمیان امن و محبت کے سب سے بڑے سفیر تھے، دونوں ملکوں کے درمیان عوامی رشتوں کو مضبوط کرنا ان کا سب بڑا مشن تھا، انہوں نے ہمیشہ اس بات کی امید جگائی رکھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک نہ ایک دن بہتر رشتے ہونگے۔ ہر سال 14/15 آگست کی شب واگہہ بارڈر پر امن کا دیپ جلا کر ایک نئے صبح کا پیغام دیتے ۔ وہ جتنے ہندوستان میں مقبول تھے اتنا ہی پاکستان کی عوام ان سے پیار کرتی تھی۔ ان کے پاس بیٹھئے تو دونوں ملکوں بے شمار قصے سناتے اور گم ہوجاتے ۔
کلدیپ نیر صاحب بیک وقت کئی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ بے کاک صحافی، سیاست داں، سماجی کارکن ،شاعر، مصنف، سفارتکار اور جمہوریت کے سب سے مضبوط محافظ تھے۔ اردو نواز تو تھے ہی ، کھلے دل کے انسان بھی تھے۔ ان کے مزاج میں پیچ و خم نہیں تھا، لوگوں سے خوش دلی سے ملتے ، ان کا یہ مقولہ مشہور تھا جسے اکثر وہ دہراتے۔ ’’ میں نے صحافت کا آغاز ہی انجام سے کیا ہے ‘‘۔ صاف ستھری بات پر توجہ دیتے ، لایعنی باتوں کی طرف نہیں دیکھتے، اپنی بات پوری وثوق اور بے باکانہ انداز میں رکھتے۔ حقیقی معنوں میں وہ صحافت کے آبرو اور باخبر سپاہی تھے۔ کسی کی پرواہ کئے بغیر کانٹے بھر ے سفر میں صحافت کو پوری ایمانداری سے پیش کیا ، نہ کبھی کسی کے سامنے جھکے اور نہ رکے، جو دیکھا ، بلا خوف لکھا، جبین پر کسی طرح کا نہ کوئی افسوس، نہ کسی چیز کی فکر، زندگی میں آپ نے بہت کچھ پایا ، مگر کسی کا مرہون و منت نہیں، بلکہ اپنی جدوجہد اور ایماندارانہ وصف کی بنیاد پر ۔ اس لئے موجودہ نسل کے صحافیوں کے وہ ایک آئیڈیل تھے۔ بات ہی بات میں ایک بار میں نے عرض کیا ، سر! آپ تو سبھی کے آئیڈیل ہیں، جس پیشہ میں پوری زندگی آپ سیکولرزم کا سبق دیتے رہیں، امن و بھائی چارے کی بات کرتے رہیں، دو ملکوں کی سرحد کی کھائی کو پاٹنے کی کوشش کرتے رہیں۔ صحافت کے اصول و ضوابط کو تا عمر باقی رکھا۔ موجودہ دور میں کون ایسا صحافی ہے جو آج کے اس پر آشوب اور دہشت زدہ ماحول میں اس وراثت کو آگے بڑھاتا دکھائی دے رہا ہے؟۔انہوں نے پلک جھپکتے ہی ’’ رویش کمار ‘‘ کا نام لیا ، پھر کچھ دیر سوچ کر ایک دو اور صحافیوں کا نام لیا۔ جس عظیم اور ایماندارانہ پیشے کو کلدیپ صاحب تا عمر سینچتے رہیں آج کچھ ضمیر فروش میڈیا ہاؤس اور نفع پسندصحافیوں نے اسے داغدار کر دیا ہے۔ کلدیپ صاحب کا ہم لوگوں سے جدا ہونا یقیناً غیر جانبدارانہ صحافت کیلئے بڑا خلا ہے جس کی بھرپائی مشکل سے ہوگی۔
اب جبکہ کلدیپ صاحب ہمارے بیچ نہیں ہیں، محسوس ہوتا ہے شاید وہ کانوں کے قریب آکر کہہ رہے ہوں ،میاں! میرے قلم کی سیاہ روشنائی سفید ہوگئی، اب تم جیسے نئی نسل پر ذمہ داری ہے ، اٹھو اور کھڑے ہو، قلم میں حق اورسچائی کی سیاہی بھرو اور آج کی بونی صحافت کے سامنے ایک نئی لکیر کھینچو۔ اب تم جیسے نوعمر صحافت کے طالب علم کو ایمانداری کے ساتھ جرأت مندانہ قدم اٹھا نا ہوگا ، تاکہ بے لاگ صحافت کے بجھتے چراغ کو ایک نئی روشنی ملے اور پھر شمع پر، پروانے کی طرح ، کوئی ’’ کل دیپ ‘‘ جل اٹھے ۔
اپنا تو کام ہے جلاتے چلو چراغ
رستے میں خواہ دوست یا دشمن کا گھر ملے