کہاں تو طے تھا چراغاں ہر ایک گھر کے لئے

ہر سال ۲؍ کروڑ ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن ۲۰۱۸ءمیں ہی ۱؍ کروڑ۹؍ لاکھ نوکریاں چلی گئیں، حکومت سے سوال تو پوچھا جائےگا

 ڈاکٹر یامین انصاری

 نریندر مودی حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کو ہیں۔ ملک پر انتخابی ماحول تقریباً مسلط ہوچکا ہے۔ ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے مہرے بٹھانے میں لگی ہے۔ کون کس کے ساتھ رہے گا، یا جو ساتھ ہیں وہ کسی اور کے ساتھ جائیں گے، یہ بھی تقریباً طے ہو گیا ہے۔ لیکن ان سب کے درمیان ان رائےدہندگان کی طرف کوئی غور نہیں کر رہا ہے جو خاموشی کے ساتھ فی الحال یہ سب تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ عوام کو بھی معلوم ہے کہ اب ان کے پاس وہ موقع آنے ہی والا ہے جب وہ ہر پانچ سال کے بعد ان لیڈران کا حساب لینے کا انتظار کرتے ہیں۔یوں تو موجودہ حکومت نے ۲۰۱۴ء کے انتخابات سے پہلے بہت سارے وعدے کئے تھے اور بہت سارے دعوے کئے تھے۔ اب اسے ہر دعوے اور وعدے کا حساب دینا ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ حکمراں جماعت اور اس کے لیڈران کو احساس ہونے لگا ہے کہ وہ عوام کے دروازے پر کیا منہ لے کر جائیں گے۔ کیوں کہ مودی حکومت اب دعوے چاہے جتنے کرے، زمینی سطح پر شاید ہی کوئی وعدہ پورا ہوتا نظر آیا ہو۔ملک کے مسائل کی فہرست تو طویل ہے لیکن اس میں بے روزگاری کا مسئلہ اس وقت سر فہرست نظر آ رہا ہے۔ 

جولائی ۲۰۱۸ء میں وزیر اعظم نریندر مودی نےاپنے ایک سینئر کابینی رفیق نتن گڈکری کی حق بیانی کے بر عکس اپنے ایک بیان میں کہاتھا کہ ان کی حکومت نے روزگار تو بہت دئے ہیں،لیکن ان کے پاس اس کے اعداد و شمار یا ڈیٹا نہیں ہے۔ ان کا یہ بیان واقعی حیران کردینے والا تھا۔ کیوں کہ وزیر اعظم کے پاس اپنی ہی حکومت کی کامیابی بتانے کا ڈیٹا نہیں ہے۔حیرانی اس لئے بھی زیادہ ہوئی تھی کہ آزادی کے وقت ہوئی پنڈت نہرو کی غلطیوں سے لے کر اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی ’ناکامیوں‘ کا سارا ریکارڈ تقریروں میں بیان کرنے کے لئےان کے پاس موجود رہتا ہے۔ساتھ ہی آئے دن ملک بھر کے اخبارات میں شائع ہونے والے اخبارات میں ان کی حکومت نے کتنے کروڑ رسوئی گیس کنیکشن دیے، کتنے کروڑ لوگوں نے گیس سبسڈی چھوڑ دی، کتنے لاکھ بزرگوں نے ریلوے کی سبسڈی چھوڑ دی، کتنے جن دھن کھاتے کھل گئے۔ یہ سبھی اعداد و شمار تقریروں میں بیان کرنے کے لئے ان کو ازبر ہیں، بس روزگار کے اعداد و شمار ان کے یا وزرا کے پاس نہیں ہیں۔خیر ، کوئی بات نہیں۔ کچھ سرکاری ایجنسیاں اور ادارے اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ انہی میں سے ایک ادارے نے مودی کی پریشانی میں اضافہ کر دیاہے۔ 

اقتصادی منظر نامہ پر نظر رکھنےوالے ایک قابل اعتماد ادارے ’’ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی ‘‘ کی تازہ رپورٹ نے مودی حکومت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دسمبر میں بے روزگاری کی شرح گزشتہ۲۷؍ مہینوں میں سب سے زیادہ رہی۔ جب اس کی شرح۳۸ء۷؍فیصد تک پہنچ گئی۔ ستمبر ۲۰۱۶ء میں یہ شرح۴۶ء۸؍ فیصد تھی۔ اس کی وجہ ۲۰۱۸ء میں روزگار میں لگے لوگوں کی تعداد میں تقریباً ایک کروڑ ۹؍ لاکھ کی کمی درج کی گئی ہے۔یعنی اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔بے روزگاری بڑھنے کے ساتھ مزدوربھاگیداری کی شرح کا نیچے آنا مسئلے کو انتہائی پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ یہ شرح (۱۵ ؍تا۶۴؍ سال کی عمر کے افراد کی کل تعداد ) میں کام کرنے کے خواہاں لوگوں اور روزگار میں لگے یا روزگار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے لوگوں کی تعداد کے تناسب کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ دسمبر ۲۰۱۷ء اور دسمبر ۲۰۱۸ء کے درمیان اس میں۱۰؍اعشاریہ ایک فیصد کا فرق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کم ہوتے مواقع کی وجہ سے مایوس لوگ روزگار سے بدظن ہو گئے ہیں۔ مزدور بھاگیداری کی شرح میں کمی عام طور پر معیشت میں تباہی کی طرف ایک اشارہ ہوتی ہے۔ اس رپورٹ کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ۲۰۱۸ء میں روزگار میں جو کمی آئی ہے، اس کا ۸۳؍ فیصد سے زیادہ حصہ دیہی علاقوں سے وابستہ ہے۔ ان اعداد و شمار کو زراعت بحران کے ساتھ رکھ کر دیکھیں، تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ دیہات کی اقتصادی حالت انتہائی خراب ہے۔ قابل ذکر ہے کہ دیہی علاقوں میں مانگ ہماری صنعتوں کے لئے بڑا سہارا ہے، لیکن کاشت کاری کی پریشانیوں اور روزگار کی کمی سے اس مطالبے پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ کچھ مایوس کن اعداد و شمار یہ بھی ہیں کہ ایک کروڑ سے زیادہ مواقع کی کمی سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوئی ہیں۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال ۲۰۱۸ء میں ۸۸؍ لاکھ خواتین نے روزگار گنوا دیا، جن میں ۶۵؍ لاکھ خواتین دیہی علاقوں سے ہیں۔ روزگارلوگوں کی تعداد میں خواتین کی شرکت میں اضافہ کے بغیر اقتصادی اور سماجی ترقی کو مضبوطی دینا بہت مشکل ہے۔

ظاہر ہے خواتین کے بعدبے روزگاری سے سب سے زیادہ متاثر نوجوان ہوتے ہیں۔ جبکہ نوجوانوں کو ملک کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جاتا ہے اور ان پر ملک کو آگے لے جانے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن جب وہ اس لائق ہی نہیں ہوں گے کہ انہیں اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے یا اپنے کنبہ کا پیٹ پالنے کےلئے کام ہی نہیں ہوگا تو وہ ملک کو آگے لے جانے کے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں خاص طور پر نوجوان طبقے میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے سخت تشویش پائی جارہی ہے۔ گزشتہ برس سال کے آخرمیںخود حکومت کی جانب سے جاری اعداد و شمار میں بتایا گیا تھا کہ ملک کی آبادی کے تقریباً ۱۱؍ فیصد یعنی۱۲؍کروڑ لوگوں کو روزگار کی تلاش ہے۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی تعداد ہی سب سے زیادہ ہے۔ بے روزگاروں میں۲۵؍ فیصد۲۰؍ سے ۲۴؍ سال تک کی عمر کے نوجوان ہیں، جبکہ ۲۵؍ سے۲۹؍ سال کی عمر والے نوجوانوں کی تعداد ۱۷؍ فیصد ہے۔ ۲۰؍ سال سے زیادہ عمر کے ۳۰؍ کروڑ ۱۴؍ لاکھ نوجوانوں کو ملازمت کی تلاش ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بے روزگاری کے مسلسل بڑھتے یہ اعداد و شمار حکومت اور ملک کے لئےسخت تشویش کا باعث ہیں۔ سال ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کی بنیاد پر مرکزی حکومت کی جانب سےجاری اعداد و شمار میں خواتین بے روزگاری کا پہلو بھی سامنے آیا ہے۔ کام کے لئے تلاش کرنے والوں میں تقریباً نصف خواتین بھی شامل ہیں۔ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ بے روزگاروں میں۱۰؍ ویں یا۱۲؍ ویں تک پڑھے نوجوانوں کی تعداد۱۵؍ فیصد ہے۔ یہ تعداد تقریباً ۷۰؍ کروڑ ہے۔ تکنیکی تعلیم حاصل کرنے والے ۱۶؍فیصد نوجوان بھی بےروزگاروں کی قطار میں ہیں۔ اس سے صاف ہے کہ ملک کے تکنیکی اداروں اور صنعتی دنیا میں اور بہتر تال میل ضروری ہے۔یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پڑھے لکھے نوجوان چھوٹی موٹی نوکریاں کرنے کی بجائے بہتر موقع کی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ بے روزگار نوجوانوں میں تقریباً آدھے ایسے ہیں جو سال میں چھ ماہ یا اس سے کم کوئی چھوٹا موٹا کام کرتے ہیں، لیکن ان مستقل کام کے لئے تلاش ہے۔ ہاں، اس حکومت نے ایک کام ضرور کیا ہے کہ ان بے روزگار نوجوانوں کی توجہ اصل مسئلہ سے ہٹا دی ہے ۔ ان کوہندو مسلم اور مند مسجد کا مسئلہ اچھال کر دوسری جانب مصروف کر دیا ہے۔ جو نوجوان ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنی خدمات انجام دیتے، آج ان بے روزگار نوجوانوں کی بڑی تعداد ملک میں تخریب کاری میں مصروف نظر آتی ہے۔ اس کی لاتعداد مثالیں گزشتہ پانچ سال میں ہمیں بار بار دیکھنے کو ملی ہیں۔ بہر حال مذکورہ اعداد وشمار سے وہ الزامات صحیح ثابت ہوتے ہیں کہ مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ اور اب جبکہ اس کی مدت ختم ہونے کو ہے،پھر بھی حکومت کی ناکامی کا یہ ریکارڈ بدستور قائم ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے کچھ کابینی رفقا بھلے ہی سڑک سے پارلیمنٹ تک اپنی حکومت کی کارکردگی پر اپنی تقریروں میں خیالی پلاؤ پکا تے رہیں اور پکوڑے بنانے کو کاروبار بتاتے رہیں، لیکن زمینی حالات کچھ اور ہی بیان کرتے ہیں۔ اسی لئے ہندی کے مشہور شاعر دشینت کمار نے کہا تھا کہ ؎

کہاں تو طے تھا چراغاں ہر ایک گھر کے لئے

کہاں چراغ میسر نہیں شہر کے لئے 

( مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں )

yameen@inquilab.com