فنافی العلم مولانا زبیر احمد قاسمی(تاثرات)

نایاب حسن قاسمی
یہ میری بدقسمتی ہے کہ اب تک جن مختلف علمی وعملی شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات سے ملاقات کی میری دلی خواہش رہی،ان میں سے کئی لوگ اس جہان سے رخصت ہوگئے اورمیں اپنی سستی، سہل انگاری اورلاپروائی کی وجہ سے ان کی ملاقات سے محروم رہ گیا ۔ انہی میں سے ایک مولانا زبیر احمد قاسمی بھی تھے،ان کی بے پناہ علمی صلاحیت، دلچسپ شخصیت، ان کے شاگردوں کے ذریعے بیان کیاجانے والاان کاایک مخصوص ومنفردقسم کاسراپا مجھے بارباران سے ملنے، ان سے استفادہ کرنے اوران کی ممتاز ومتنوع الجہات شخصیت کوقریب سے دیکھنے، برتنے پراکساتارہا، مگربہ وجوہ میں اس معاملے میں بے توفیق ومحروم ہی رہا۔
ان کاتعلق بہارکے مدھوبنی ضلع اورچندرسین پورگاو¿ں سے تھااورجب ہم نے شعورسنبھالا، تووہ بہارکی ایک مشہورعلمی ودینی درس گاہ جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں ضلع سیتامڑھی کے ناظم تھےاوران کی علمی وجاہت کے ساتھ ان کی نظامت کے بھی بڑے چرچے تھے،ان کے بارے میں مشہور تھاکہ وہ بہت اصول پسندیاسخت ہیں اورطلبہ توطلبہ، اساتذہ بھی ان کی اصول پسندی کی گرفت سے بچ نہیں پاتے ہیں، وہ تعلیمی ضابطے کی خلاف ورزی قطعاً برداشت نہیں کرتے تھے،کنہواں کایہ مدرسہ اپنی عمرکے سوسال بتاچکاہے، مگراس کوعلمی شناخت تب حاصل ہوئی، جب مولانازبیرصاحب نے حیدرآبادکی شیخ الحدیثی چھوڑکراس کی نظامت اپنے ہاتھ میں لی، انھوں نے اس مدرسے کامعیارووقارثریٰ سے ثریاتک پہنچادیا،حالاں کہ اس ادارے کی بنیادمیں اپنے زمانے کے اجل علماوصلحاشامل رہے تھے، مگرتعلیمی سطح پرناموری اس کے حصے میں مولانازبیرصاحب کے دورِ نظامت وتدریس میں آئی،وہ ایک جیدترین فاضلِ دیوبندتھے،ان کی تعلیمی وتدریسی صلاحیتوں کے جیتے جاگتے نمونے ان کے وہ شاگردہیں،جوسیکڑوں کی تعداد میں بہارہی نہیں، ملک بھرکے مختلف خطوں میں تعلیم وتدریس کافریضہ انجام دے رہے ہیں اور ہم جیسے طالب علموں کے استاذہیں، گویاوہ حقیقی معنوں میں استاذالاساتذہ تھے? کم ازکم بہارمیں توشایدہی کوئی ایسا قابلِ ذکرادارہ ہوگا، جہاں ان کے بلاواسطہ یا بالواسطہ شاگردخدمتِ تدریس میں مصروف نہ ہوں،میں انھیں دیکھنے یاملنے اوربراہِ راست استفادہ کرنے سے محروم رہا، مگران کے بہت سے شاگرد، جن میں سے کچھ میرے اساتذہ ہیں اوربہت سے دوست اورساتھیوں کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ ان کے بارے میں مختلف قسم کے واقعات سناتے رہتے تھے اورمیں بڑی دلچسپی سے ان کے واقعات سنتاتھا؛بلکہ بسااوقات میں کنہواں کے تعلیم یافتہ احباب سے ان کے بارے میں مختلف سوالات کرتااوران کاموڈبنانے کی کوشش کرتاتھاکہ وہ ان سے وابستہ واقعات سنائیں ۔وہ لوگ ان کی تدریس، اندازِ تربیت، طلبہ کومخاطب کرنے یاان کی اصلاح کرنےکے ان کے انداز، ان کی نشست وبرخاست وغیرہ کی تفصیلات جس اندازمیں بیان کرتے، اسے سن کرہروہ شخص ان سے ملنے کے لیے Excitedہوجا تاتھا،جوپہلے نہ ملاہو ۔
انھوں نے اپنے عہدِ نظامت میں کنہواں میں اعلی صلاحیت کے حامل معلمین کوجمع کیا،نظامِ تعلیم کی بہتری کے لیے ہروہ قدم اٹھایا، جوضروری تھا، وہ طالب علموں کے ساتھ اساتذہ کی غیرتعلیمی مصروفیات کوبھی برداشت نہیں کرتے تھے وہ فنافی العلم انسان تھے،وہ موجودہ دورمیں تعلیمی اداروں میں پنپنے والے غیرعلمی ماحول کے سخت خلاف تھے اور ایسے عناصرکواپنے ادارے میں برداشت نہیں کرسکتے تھے،انھوں نے جوعلم پڑھاتھا، نہ صرف وہ مستحضراورپختہ تھا؛ بلکہ مسلسل مطالعہ ومشاہدہ کی بہ دولت ان کاعلم نہایت وسیع وعریض بھی ہوچکاتھا، ایسے جبل العلم قسم کے لوگ موجودہ دورمیں خال خال ہی ملتے ہیں ۔ بہارکے کوردہ خطے میں رہنے کے باوجودان کی نگاہِ دوررس میں وقت کے جدیدتر معاشرتی مسائل بھی ہوتے تھے، فقہ وافتاکے سلسلے میں ان کی صلاحیت خاصی غیرمعمولی تھی، وہ فقہ اکیڈمی انڈیاکے تاسیسی ارکان میں شامل تھے اوراس کے فقہی سمیناروں میں پابندی سے شریک ہوتے، مقالے لکھتے،اپنی رایوں سے نوازتے اوربڑے بڑے اہلِ علم ونظران کی آراکااحترام کرتے تھے، شاید مدرسے کی انتظامی و تدریسی ذمے داریوں کی وجہ سے انھیں تصنیفی خدمات کاخاطرخواہ موقع نہیں ملا، مگران کے فقہی مقالات یاجوکچھ مطبوعہ سرمایہ ہے، وہ ان کی علمی وسعت، قوتِ مطالعہ ومشاہدہ اورنظروفکرکی بے کرانی پردال ہے، انھیں یکجاکرکے شائع کیاجائے، تویہ ایک بڑی علمی خدمت ہوگی اور مولاناکی شخصیتِ علمی زیادہ وسیع پیمانے پرسامنے آسکے گی ۔ انھوں نے کنہواں مدرسے کوصرف تعلیمی اعتبارسے ہی نہیں چمکایا؛ بلکہ اس کی تعمیری ترقیات کے لیے بھی کوشاں رہے اوراپنی نظامت کے دوران اس ادارے میں کئی اہم اورعظیم الشان عمارتیں تعمیرکروائیں، اس مدرسے کاسوسالہ اجلاس کرواناان کادیرینہ خواب تھا،جوگزشتہ سال مارچ میں شرمندہ تعبیر ہوگیا،اس کے بعدمدرسے سے ان کا ضابطے کاتعلق غالبا نہیں رہاتھا،البتہ ان کی سرپرستی اس ادارے کو یقیناحاصل رہی ہوگی ۔
مولاناکی وفات گواس عمرمیں ہوئی، جسے عمرِ طبیعی کہتے ہیں، مگرپھربھی ایسے غیرمعمولی انسان کارخصت ہوناباعث رنج والم توہے ہی۔ ہماری دعاہے کہ اللہ تعالی مولاناکی کامل مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلندفرمائے، ان کے پسماندگان ومتعلقین اورشاگردوں کوصبرِ جمیل عطافرمائے ۔ آمین(بشکریہ قندیل ڈاٹ ان )

SHARE