ملیشیا کے معروف سیاسی رہنما انور ابراہیم کے ساتھ ایک ملاقات

خبر درخبر(590)
شمس تبریز قاسمی
انور ابراہیم ملیشا کے معروف سیاست اور اسلامی اسکالر ہیں ۔ماضی میں وہ نائب وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر رہ چکے ہیں ۔ماثر محمد کی قیادت والی ملیشیا کی موجود ہ مخلوط حکومت میں سب سے زیادہ ارکان پارلیمان جسٹس پارٹی کے ہیں جس کے بانی اور کلیدی ذمہ دار انورا براہیم ہیں ۔کہاجارہاہے کہ وہ ملیشاءکے مستقبل کے وزیر اعظم ہیں ۔سیاسی عداوت کی بنیاد پر وہ متعدد مرتبہ جیل کی سلاخوں میں بھی رہ چکے ہیں ۔پہلی مرتبہ انہیں جیل ملیشاءکے موجودہ وزیر اعظم ماثر محمد نے ہی بھیجاتھا جو انہیں ہی کی حمایت سے فی لحال وہاں اعظم بنے ہوئے ہیں ۔انور ابراہیم گذشتہ8جنوری سے 11 جنوری تک ہندوستان کے4 روزہ دورے پر تھے ۔اس دوران انہوں نے ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی ۔ کانگریس صدر راہل گاندھی اور متعدد سیاسی رہنماﺅں سے ملاقات کی ۔ مختلف تاجروں اور کمپنیوں کے ڈائریکٹر سے بھی ان کی ملاقات ہوئی ۔انور ابراہیم کے اس سفر کے موقع پر ان کی ایک میٹنگ ہندوستان کے مسلم دانشوران کے ساتھ بھی انڈیا انٹر نیشنل سینٹر میں 13 جنوری 2019 کو بروز جمعرات کو تقریبا بارہ سے دوبجے کے درمیان منعقد ہوئی ۔ اس راﺅنڈ ٹیبل مباحثہ میں سابق مرکزی وزیر عارف محمد خان ۔ پروفیسر طاہر محمود سابق رکن لاءکمیشن آف انڈیا ۔ ایس وائی قریشی سابق چیف الیکشن کمشنر ۔ وجاہت حبیب اللہ سابق چیرمین قومی اقلیتی کمیشن ۔جناب فیض الرحمن سمیت متعدد دانشوارن شریک تھے ۔ ہندوستان کے معروف تھنک ٹینک ادارہ انسٹی ٹیوف آ ف آبجیکٹو اسٹڈیز کے ایک وفد نے بھی اس میٹنگ میں شرکت کی جس میں آئی او ایس کے وائس چیرمین پروفیسر افضل وانی سابق رکن لاءکمیشن آف انڈیا ۔ آئی او ایس کی اسسٹنٹ جنرل سکریٹری پروفیسر حسینہ حاشیہ ۔ جناب عطاءالرحمن سکریٹری برائے انتظامی امور آئی او ایس اور آل انڈیا ملی کونسل صوبہ دہلی کے صدر پرویزمیاں کے نام قابل ذکر ہیں ۔ راقم الحروف بھی اس مباحثہ میں شریک تھا ۔
اس مباحثہ میں مسلم ممالک میں مسلمانوں کے مسائل ،مسلم ممالک میں ڈیموکریسی جیسے موضوعات پر طویل بحث ہوئی ۔ جناب انور ابراہیم نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ملیشاءمیں جمہوریت اور سیکولرزم کے مضبوط ہوتے سفر کا تذکرہ کیا ۔انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات پر بہت زوردیاکہ وہاں جمہوریت مضبوط ہورہی ہے ۔موجودہ حکومت ملیشیا کی تعمیر وترقی میں چوطرفہ کردار ادا کررہی ہے ۔ ملیشیا میں اقلیتوں کومکمل حقوق اور تحفظ حاصل ہیں ۔ وہاں کے چیف جسٹس ایک عیسائی ہیں ۔کئی اہم اور کلیدی عہدوں پر اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد فائز ہیں ۔ وہاں اکثریتی اور اقلیتی کمیونٹی کے درمیان زیادہ کوئی تنازع نہیں رہتاہے ۔
اس بحث میں ایس وائی قریشی اور خواجہ ایس شاہد سمیت کئی دانشوروں نے بار بار یہ سوال دہرایاکہ آخر مسلم ممالک میں جمہوریت مضبوط کیوں نہیں ہے؟ ۔ یہ بھی ان سے سوال کیاگیا کہ جمہوری ملک میں شریعت لاء، اسلامی آئین کا نفاذ کہاں تک درست ہے ۔مختلف مذاہب کے لوگ جہاں موجود ہوں وہاں کسی ایک مذہب کے آئین کو کیسے نافذ کیا جاسکتاہے ؟ ۔ ان سوالوں کی تائید میں ملیشاءاور انڈونیشاکے علاوہ ترکی کو بھی کئی مرتبہ پیش کیاگیا ۔انور ابراہیم نے بہت خوبصورت اندا ز میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ دنیا کسی بھی اسلامی جمہوری ملک میں اسلامی قانون یا شریعت لاءکا نفاذ تمام شہریوں کیلئے نہیں ہے بلکہ ہر ایک اسلامی جمہوری ملک میں اقلیتوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے ۔ ملیشاءمیں شریعت لاءصرف مسلمانوں کے درمیان ہے ۔عیسائی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے اپنے مذہب پر عمل کرتے ہیں اور انہیں مکمل مذہبی آزادی ہے ۔ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی اسلام ملیشیا کا سرکاری مذہب نہیں ہے اور نہ اسٹیٹ مذہب کا درجہ حاصل ہے ۔جس طرح اقلیتوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے ان کیلئے ان کا پرسنل لاءقابل عمل ہے اسی طرح اکثریتی طبقہ کو بھی اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل اجازت ہوتی ہے ۔انہیں بھی ان کے پرسنل لاءپر عمل کرنے کا اختیار ہوتاہے اس لئے یہ کہناہے کہ جمہوری ملک میں شرعی قانون کا نفاذ کہاں تک درست ہے یہ بے بنیاد سوال اور منفی پیر وپیگنڈہ کا حصہ ہے ۔

ملت ٹائمز کے ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی ملیشیا کے معروف سیاسی رہنما انور ابراہیم کے ساتھ انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں

ترکی کے حوالے سے کئی لوگوں نے تذکرہ کیا کہ وہاں جمہوریت اور ڈیموکریسی نہیں ہے ۔اردگان صاحب کے آنے کے بعد جمہوریت تقریبا وہاں عملی طور پر ختم ہوچکی ہے ۔ان کی طرزحکومت میں آمریت پائی جاتی ہے ۔ اظہار رائے کی آزادی بھی وہاں تقریبا سلب ہوچکی ہے ۔انورابراہیم نے ہندوستانی دانشوران کے اس سوال کابھی بہت خوبصورت جواب دیتے ہوئے کہاکہ ترکی میں لبرلزم کی انتہاءپسندی پائی جاتی تھی ۔سیکولزم میں شدت ہوگئی تھی ۔ وہاں سرکار ی دفاتر اور عوامی مقامات پر حجاب کا استعمال کرنا ممنوع تھا ۔ طیب اردگان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس تشدد اور انتہاءپسندی کا خاتمہ کیا ۔انہوں نے کہاکہ جس طرح حجاب استعمال نہ کرنا انفرادی آزادی ہے اسی طرح حجاب کا استعمال کرنا بھی انسانی حق اور انفرادی آزادی کا معاملہ ہے لیکن وہاں ایک حق سے روکا جاتھا ، اردگان نے صاحب اسے ختم کیا ۔انتہاءپسندی کو انہوں نے اعتدال میں تبدیل کیااور یہی صحیح جمہوریت اور سیکولرزم ہے جہاں کسی کو اس کی مرضی پر عمل کرنے سے روکا نہ جائے ۔ترکی میںاسلامی احکامات پر عمل کرنا ممنوع تھا جسے اردگان ختم کرکے اعتدال میں تبدیل کیا ۔

اس مباحثہ میں معروف متنازع اسکالر عارف محمد خان بھی موجود تھے ۔ہمیشہ کی طرح یہاں بھی انہوں نے اپنے دل کی بھڑا س بہت جم کرنکالی ۔ حدیث کی حجیت اور اہمیت کو غیر ضروری بتایا ۔تقلیدکے خلاف گفتگو کی ۔آزادی اظہار کے نام پر مسلمانوں اور علماءنے کو حسب سابق انہوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ۔یمن کی جنگ کی اور شام کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے یہ صریح جھوٹ بھی بولنے سے گریز نہیں کیا کہ شامی مہاجرین کو کسی بھی مسلم ملک نے پناہ نہیں دے رکھاہے سارے مہاجرین یورپ اور امریکہ کی پناہ کے محتاج ہیں ۔خدا بھلاکر کے جناب انورا براہیم صاحب کا جنہوں نے فوری گرفت کرتے ہوئے کہاکہ ایسا نہیں ہے کہ شامی مہاجرین کو کسی بھی مسلم ملک نے پناہ نہیں دے رکھاہے ۔ صرف ترکی میں چار ملین شامی مہاجرین پناہ گزین ہیں۔ ترک حکومت نے انہیں ہر طرح کی سہولیات مہیا رکررکھی ہے اور دنیا کے مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ہے جو ایک ساتھ کسی ملک میں پناہ گزین ہے ۔اس کے علاوہ اور بھی کئی مسلم ممالک میں شامی مہاجرین بڑی تعداد میں پناہ لئے ہوئے ہیں ۔

https://www.facebook.com/stqasmi/photos/pcb.2211010679141281/2211010359141313/?type=3&theater

اس پوری گفتگو کے دوران انور ابراہیم کو باربار اس سوال کا سامناکرناپڑا کہ آپ نے ماثر محمد کو سپورٹ کیوں کیا جبکہ انہوں نے سیاسی عدوات میں آپ پر سنگین الزامات عائد کیا ۔جیل بھیجوایا اور کئی طرح سے آپ پر ظلم ڈھانے کا کام کیا ۔ہرمرتبہ انورا براہیم نے ہندوستانی انداز میں اس کا جواب دیتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی کرپشن کے خاتمہ ،سیاسی اصلاحات اور ملک کی مجموعی ترقی کیلئے ہم نے اکثریت میں ہونے کے
باوجود ماثر محمد کی قیادت پر بھروسہ کیا اور انہیں وزیر اعظم بناکر ملیشامیں سیاسی اصلاحات اور معاشی ترقی کی راہیں ہموار کررہے ہیں ۔
کالم نگار ملت ٹائمز کے بانی ایڈیٹر ہیں )