معمار تعلیم، آبروئے مدارس اسلامیہ بہار، فقیہ ملت مولانا زبیراحمدقاسمی ؒ

مولانا امداد الحق بختیار قاسمی

 علم و عمل، اخلاص و للہیت، سادگی اور بے تکلفی، جہد مسلسل، تعمیری ذہن و کردار، رجال سازی، بے باکی و حق گوئی جیسے بے شمار اوصاف جلیلہ کی تعبیر اور جیتی جاگتی تصویر مولانا زبیر احمد قاسمی ؒ تھے، انہوں نے 1380ھ سے 1440ھ تک پورے ساٹھ 60 سال کا طویل عرصہ خالص درس و تدریس، تعلیم و تربیت اور نونہالان امت کی تراش خراش جیسی عظیم اور بے مثال خدمت میں صرف کیا، امت کے نونہالوں کے اس جمگٹھے سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دُرِّ آبدار تیار کرکے انہیں علم و عمل کے تاج کا دُرِّ شہوار بنادیا، سرزمین بہار سے تعلق رکھنے والے فضلاء کی ایک بڑی تعداد نے آپ کے زیر سایہ رہ کر تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے اور اب وہ ملک اور بیرون ملک نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں ، جو یقیناً مولانا کے لیے صدقہ جاریہ ہیں ۔

 مولانا کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ رسوخ فی العلم اور ہندوستان کے کئی ایک بڑے ادارے کے رکن ہونے کے باوجود بہت سادہ زندگی گزارتے تھے، انہیں اور ان کی سادگی کو دیکھ کر شاید ہی کوئی یہ اندازہ لگا سکتا کہ یہ وہ شخصیت ہیں جن کی فقہی رائے بڑی بڑی فقہی اکیڈمیوں میں سنجیدگی سے سنی جاتی اور قدر و منزلت کے ساتھ قبول کی جاتی ہے، جن کے مقام علم کے سامنے بڑے بڑے مفتیوں کا علمی قامت جھک جاتا ہے، قاضی مجاہد الاسلام ؒ جیسے بڑے فقیہ جن کے قدر دان ہی نہیں بلکہ مداح بھی تھے۔

 مولاناؒ سے میری پہلی ملاقات مدرسہ اشرف العلوم کنہواں میں ہوئی تھی، جب میں اپنے برادران کے ساتھ کسی کے علاج کے سلسلہ میں مولانا اظہار الحق صاحب کے پاس حاضر ہوا تھا ، تب ہی شرف ملاقات کے لےے مولانا کی خدمت میں بھی حاضری ہوئی تھی، اس ملاقات کا مقصد صرف ایک بڑے عالم دین سے ملاقات تھی اور بس، چنانچہ ہوا بھی ایسا ہی، صرف سلام، مصافحہ اور درخواست دعا پر ملاقات تمام ہوئی، مولانا اپنے شاگردوں کے درمیان تشریف فرماتھے، شاید کوئی سبق ہورہاتھا ، دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب آپ ” ادارة الباحث الفقہیہ جمعیۃ علماء ہند “ کے گیارہویں فقہی اجتماع (۳۲، ۴۲،۵۲/ ربیع الاخر ۶۳۴۱ھ مطابق ۳۱،۴۱،۵۱/فروری ۵۱۰۲ء) میں جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد تشریف لائے، احقر کے کمرے کے برابر میں ہی آپ کا قیام تھا ، آپ کے پاس حاضری ہوئی ، میں نے بوقت ملاقات عرض کیا کہ حضرت آپ کی کچھ سوانحی معلومات چاہیے، مولانا نے فرمایا کہ آپ اپنی کاپی میرے پاس رکھ جائیں، میں خود کسی وقت لکھ دوں گا، چنانچہ اگلی ملاقات میں مولانا نے میری درخواست پوری فرمادی اور ذیل کی جتنی سوانحی معلومات ہے ، سب مولانا ؒ کے اپنے ہاتھ کی تحریر کردہ ہیں ، لہذا یہ اولین ماخذ اورفرسٹ سورس کی حیثیت رکھتی ہیں۔

 مولانا کی دوسری بڑی خصوصیت جس سے میں متاثر ہوا ، اور ان کی قدر ومنزلت میرے ل میں مزید بڑھ گئی ، وہ یہ ہے کہ مولانا دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد میں شیخ الحدیث کے منصب جلیلہ پر فائز تھے ،جو درس نظامی کا قابل احترام ، قابل رشک اورسب سے بڑا منصب ہے ، جسے مدرسین کی معراج کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، ایسے عظیم الشان عہدہ پر انہوں نے بہار کے دور دراز اور مردم خور علاقہ کو ترجیح دی ، وہ حیدر آباد جیسے بڑے شہر کو چھوڑ کر ایک دور افتادہ گاؤں میں جا پڑے، یہ ان کی بڑی قربانی ہے، مادیت، نام نمود ، شہرت، عہدہ طلبی اور چمک دمک کے اس دور میں یہ بڑا اقدام ہے، انہوں نے پھل توڑے نہیں، بلکہ پھل تیار کیے ہیں ۔

کچھ سوانحی نقوش

ولادت باسعادت: مولانا زبیر احمد قاسمی ؒکی ولادت چندر سین پور ، ضلع مدھوبنی صوبہ بہار میں ۸۵۳۱ھ مطابق ۹۳۹۱ءمیں ہوئی ، چندرسین اس ضلع کا مشہور و معروف گاؤں ہے، یہ نامور شخصیات اور بڑے علماء اور اہل اللہ کا مسکن ہے، آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے : مولانا زبیر احمد قاسمی بن عبد الشکور بن عبد الرحیم بن نوجا بن کھکھنو بن امیر اللہ بن چودہری ۔

ابتدائی اور ثانوی تعلیم:آپ کی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مکتب سے شروع ہوئی ، جہاں دس سال کی عمر تک فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی ، اس کے بعدمدرسہ بشارت العلوم کھرایاں پتھرا ضلع دربھنگہ میں داخل نصاب تمام ہی فارسی کی کتابیں: سکندر نامہ، یوسف زلیخا، دیوان حافظ، دیوان غنی ، انوار سہیلی وغیرہ پڑھیں نیز میزان سے ہدایہ تک مولانا محمد سعید صاحب ہی سے ساری کتابیں پڑھیں۔

اعلی تعلیم: پھر آپ نے درالعلوم دیوبند کا قصد فرمایا اور ۷۷۳۱ھ میں وہاں داخل ہوئے ، جہاں موقوف علیہ اور دورۂ حدیث شریف کی تعلیم آپ نے وہاں کے نامی گرامی اساتذہ سے حاصل کی ،۹۷۳۱ھ دورۂ حدیث شریف سے فراغت پائی، آپ کے دروہ اساتذہ میں حضرت شیخ فخرالدین علیہ الرحمہ، علامہ ابراہیم وغیرہ ہیں۔

درس وتدریس: فراغت کے فورا بعد آپ تدریس میں مشغول ہوگئے اور آپ نے تدریس کا آغاز اپنے مادر علمی بشارت العلوم کھرایاں پتھرا سے کیا ، وہاں آپ نے سات سال مختلف کتابوں کی تدریسی خدمات انجام دیں ، بعد ازاں آپ نے دس سال مدرسہ اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی میں تدریسی فرائض انجام دیے، بعدہ امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ کے یہاں جامعہ رحمانیہ خانقاہ مونگیر میں تقریباً گیارہ سال مختلف عربی کتابوں کی تدریسی خدمات انجام دیں ، اسی طرح آپ نے دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد میں شیخ الحدیث کے پروقار منصب پر فائز رہتے ہوئے کئی سالوں تک بخاری شریف کا درس دیا، اس کے بعد پھر بحیثیتِ ناظم اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی تشریف لے گئے، اور تاحیات تقریبا ً 28 سال سے ناظم کی حیثیت سے مدرسہ کی بے لوث خدمت کرتے رہے، اور مدرسہ نے آپ کی نظامت میں خوب خوب ترقی کی اور ملک بھر میں اس کے تعلیمی معیار کو سراہا جانے لگا، اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے ۔

وفات: آپ طویل علالت کے بعد 83 سال کی علم و عمل سے لبریز عمر پاکر 13 جنوری 2019ء مطابق 6 جمادی الاخری 2019ء کی صبح کو رب حقیقی سے جا ملے، آپ کا جنازہ اسی دن پڑھایا گےا اور آپ کے گاؤں کے قبر ستان میں ایک جم غفیر نے علم و عمل کے اس گنجینہ کو سپرد خاک کیا، اللہ ان کی قبر کو جنت کا نمونہ بنائے۔

( مضمون نگار عربی مجلہ ” الصحوة الاسلامیہ “کے چیف ایڈیٹر اور جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد میں شعبہ عربی ادب کے صدر ہیں )

ihbq1982@gmail.com