خشت اول چوں نہد معمار کج

ڈاکٹر یامین انصاری 

عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاستدانوں کو مجبور کریں کہ وہ ملک کے سب سے بنیادی مسائل میں سے ایک پرائمری تعلیم کو انتخابی ایشو بنائیں

خشت اول چوں نہد معمار کج

تا ثریا می رود دیوار کج

فارسی کے اس مشہور شعر کا اردو میں لفظی ترجمہ ہے ’جب کوئی معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی لگا دے تو پھر دیوار ثریا تک بھی چلی جائے، ٹیڑھی ہی رہے گی۔‘در اصل یہ شعر ہر اس کام کے لئے ہے جسے شروع کرنے کے بعد بہت آگے تک لے جانا ہو۔ وہ چاہے عمارت کی تعمیر ہو، بچے کی تربیت کا معاملہ ہو، تعلیم کا مسئلہ ہو، کاروبار کا آغاز ہویا پھر دیگر کوئی بھی ایسا کام جس کو منزل مقصود تک پہنچانا ہو۔ ظاہر ہے کہ جب آغاز میں ہی اس بات کا خیال نہیں رکھا جائے گا کہ کام کی شروعات بہتر اور مضبوط طریقے سے ہو تو مستقبل میں بہتر نتائج کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم اپنے گھر کی تعمیر کے وقت اس کی مضبوط بنیاد کے لئے مختلف قسم کی تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ حفظ ماتقدم کے طور پر ہر اصول اور ضابطے کا خیال رکھتے ہیں۔ آخر پھر کیوں ملک کے مستقبل یعنی نئی نسل کی مضبوط بنیادی تعلیم کے تئیں حکومتوں کا رویہ افسوسناک حد تک غیر ذمہ دارانہ ہے؟ جب ہم بچوں کی بنیادی تعلیم کا انتظام کر رہے ہوتے ہیں تو ملک کے مستقبل کی بنیاد رکھ رہے ہوتے ہیں۔

ملک میں اس وقت ہر طرف انتخابات کا شورہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے مختلف قسم کے نعرے بلند کئے جا رہے ہیں۔ قسم قسم کے وعدوں اور دعووں کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔ ا نتخابی ایشوز کے لئے بھی زمین تیار کی جا رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان ایشوز میں عوام کو لبھانے کی تو کوشش ہو رہی ہے، لیکن حقیقت میں ان ایشوز سے ان کی زندگی میں کوئی خوشگوار تبدیلی کے امکانات نہیں کے برابر ہیں۔ کیوں کہ کہیں سے بھی تعلیم، روزگار، کاروبار، تحفظ، انصاف اقتصادیات پر آواز بلند نہیں ہو رہی ہے۔نہ تو حکمراں جماعتیں اور نہ ہی حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے ان مسائل پر بات کی جا رہی ہے۔ خاص طور پر حکمراں طبقہ کو گزشتہ پانچ برسوں میں احساس ہو گیا ہے کہ عوام کو کیسے اپنے دام فریب میں لینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج حالت یہ ہے کہ ملک کی اکثریت اس بات پر غور ہی نہیں کر رہی ہے کہ آخر ہمارے ملک کے سیاستدانوں کی ترجیحات میں تعلیم، روزگار اور معاشیات کیوں نہیں ہے؟ اتنی آسانی سے کیسے ہمارے سیاستداں ہمیں غیر ضروری مسائل میں الجھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں؟ اور جب وہ ہم سے ووٹ مانگنے آتے ہیں تو ہم ان سے پانچ سال کا حساب مانگنے کے بجائے جذباتی مسائل میں کیوں الجھ جاتے ہیں؟ رہی سہی کسر جمہوریت کے چوتھے ستون جو کہ اب انتہائی مخدوش حالت میں ہے، اس نے پوری کر دی ہے۔ جس میڈیا کا کام عوام کے مسائل کو ایوان اقتدار تک پہنچانا ہونا چاہئے، وہی میڈیا مسائل پر پردہ ڈال رہا ہے اور حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں جب ملک کی بنیادی تعلیمی صورت حال پر ایک حیران کن رپورٹ شائع ہوئی توجیسے مین اسٹریم میڈیا کو اس کی اطلاع ہی نہیں ہوئی۔ مندر مسجد، ہندو مسلم اور طلاق جیسے غیر ضروری مسائل پر ہر روز گھنٹوں صرف کرنے والے میڈیا نے چند منٹ بھی اس رپورٹ کو عوام کے گوش گزار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

ہمارے ملک کے سیاستداںہندستان کو وشو گرو بنانے کا دعویٰ تو کرتے ہیں، لیکن پرائمری تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کر رہے ہیں۔ ملک میں تعلیمی صورت حال پر ہر سال سروے کرکے اپنی رپورٹ پیش کرنے والے غیر سرکاری ادارے ’ پرتھم ایجوکیشن فاؤنڈیشن ‘ نے حال ہی میں ۸۱۰۲ءکے لئے اپنی ’ اینوئل اسٹیٹس آف ایجوکشن رپورٹ‘ جاری کی ہے۔ اس سالانہ رپورٹ میں جو تصویر سامنے آئی ہے وہ ہمارے پالیسی سازوں کے لئے زبردست فکر مندی کی بات ہونا چاہئے۔ اپنے سروے کی سخت ضابطوں اور اس کے معیار کو قائم رکھ کر فاؤنڈیشن نے اپنی معتبریت کو برقرار رکھا ہے۔ یہ رپورٹ ہمیں ملک کی پرائمری تعلیم میں ہو رہی تبدیلیوں کے عمل سے بھی روبرو کراتی ہے۔ ہمارے میں ملک میں تعلیمی نظام کس حد تک موثر ہے، اس کا اشارہ طالب علموں کے تعلیمی معیار سے ہی ملتا ہے۔ اگر ہم تازہ رپورٹ کا موازنہ ۸۰۰۲ء سے کریں تو دیکھتے ہیں کہ آج طلبہ کے تعلیمی معیار میں ۸۱ فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ یہ قومی سطح کے اعداد و شمار پر مبنی ہے۔ ریاستی سطح پر دیکھیں تو وہاں بڑے پیمانے پر یکسانیت کی کمی پائی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ’ پرتھم ایجوکیشن فاؤنڈیشن ‘ کی یہ رپورٹ بار بار یہ اشارہ دے رہی ہے کہ سرکاری اسکولوں کے معیار تعلیم میں گراوٹ آرہی ہے۔ رپورٹ میں سامنے آئے اعداد و شمار ایک خطرناک تصویر پیش کرتے ہیں۔ ملک میں بنیادی تعلیم کا حال یہ ہے کہ آج بھی پانچویں درجہ کے تقریباً نصف بچے دوسری جماعت کا متن تک ٹھیک سے نہیں پڑھ سکتے۔ جبکہ آٹھویں کلاس کے ۶۵ فیصد بچے حساب کے مضمون میں تقسیم تک نہیں کر پاتے ہیں۔ یہ رپورٹ ملک کے ۶۹۵ اضلاع کے ۷۱ ہزار ۰۳۷ گاؤں کے پانچ لاکھ۶۴ ہزار۷۲۵ طالب علموں کے درمیان کئے گئے سروے پر مبنی ہے۔ اس کے مطابق چار بچوں میں سے ایک بچہ معمولی سا سبق پڑھے بغیر ہی آٹھویں کلاس تک پہنچ جاتا ہے۔ ملک بھر میں درجہ تین کے کل ۰۲ء۹ فیصد طالب علموں کو ہی جمع اور گھٹانا ٹھیک سے آتا ہے۔ اسکولوں میں کمپیوٹر کے استعمال میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ ۰۱۰۲ء میں۸ء۶ فیصد اسکولوں میں بچے کمپیوٹر کا استعمال کرتے تھے۔ سال۴۱۰۲ءمیں یہ تعداد کم ہوکر ۷فیصد ہو گئی، جبکہ ۸۱۰۲ءمیں یہ ۶ء۵ فیصد پر پہنچ گئی۔ دیہی اسکولوں میں لڑکیوں کے لئے بنے بیت الخلاءمیں صرف ۶۶ء۴ فیصد ہی استعمال کے قابل ہیں۔ ۳۱ء۹ فیصد اسکولوں میں پینے کا پانی اب بھی نہیں ہے اور ۱۱ء۳ فیصد میں پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ ریاستی حکومتیں اب بھی تعلیم کو لے کر سنجیدہ نہیں ہیں۔ وہ شاید اس لئے کہ یہ مسئلہ ان کے ووٹ بینک کو متاثر نہیں کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ معاشرے کے کمزور طبقے کے بچے ہی سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، جبکہ امیر طبقے کے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی غفلت کا عالم یہ ہے کہ اسکولوں میں اساتذہ کی تقرری تک نہیں ہوتیں۔ ایک یا دو استاد کئی کئی درجوں میں پڑھا تے ہیں۔ اساتذہ کو آئے دن درس و تدریس کے بجائے پولیو مہم ،مردم شماری یا انتخابی ڈیوٹی میں لگا دیا جاتا ہے۔ کئی اسکولوں میں استاد دن بھر مڈڈے میل کے نظام میں ہی لگے رہ جاتے ہیں۔ اساتذہ کی تقرریوں میں بھی خوب دھاندلیاں ہوتی ہیں۔یہ تقرریاں سیاسی جماعت اور حکومت کے مطابق ہوتی ہیں۔ ایک حکومت بھرتی کا عمل شروع کرتی ہے تو دوسری پارٹی کی سرکار آ کر ان پر روک لگا دیتی ہے۔ استاد بننے کے خواہش مند پھر عدالتوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ یو پی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اکھلیش یادو کی سرکار کے دور میں دیگر مضامین کے ساتھ اردو کی اسامیاں بھی تھیں۔ تقرری کا عمل شروع ہوا، لیکن حکومت کی عدم توجہی کے سبب مکمل نہیں ہو سکا۔ جب ریاست میں یوگی کی سرکار آئی تو حسب توقع اس نے یہ کہہ کر ان تقرریوں کو رد کر دیا کہ ریاست میں اردو اساتذہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جن امیدواروں کی کاؤنسلنگ تک ہو چکی تھی، بس انہیں تقرری نامہ ملنا تھا، اب انہیں کاؤنسلنگ کے وقت جمع کی گئیں اپنی تعلیمی دستاویز واپس دی جا رہی ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تعلیم کے تئیں سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کی منشا کیا ہے۔

بہر حال جب تک سنجیدگی کے ساتھ حکومتیں پرائمری تعلیم پر توجہ نہیں دیں گی، اس وقت تک ملک کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر لے جانا تقریباً نا ممکن ہے۔ انہیں بچوں کے معیار تعلیم کے ساتھ اساتذہ کی تقرری کے صاف و شفاف عمل کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے لئے یقیں محکم عمل پیہم کی اصول پر چلنا ہوگا، جیسا کہ دہلی کی عام آدمی پارٹی کی حکومت نے کرکے دکھایا ہے۔ اس کے لئے عوام کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سیاستدانوں کو مجبور کریں کہ وہ ملک کے سب سے بنیادی مسائل میں سے ایک پرائمری تعلیم کو انتخابی ایشو بنائیں۔

(مضمون نگار روزنامہ انقلاب کے ریزڈینٹ ایڈیٹر ہیں )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں