مسلمانوں کو مایوسی اور احساس کمتری سے نجات حاصل کرنا بہت ضروری ہے

محمد طلحہ برنی 

دہلی یونیورسٹی 

احساس کمتری ایک بھیانک نفسیاتی بیماری ہے؛ اپنے آپ کا غلط اندازہ لگاتے ہوئے خود کو کم تر اور حقیر سمجھنے، احساس محرومی اور خود ترسی میں مبتلا ہونے کو نفسیات کی اصطلاح میں احساس کمتری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اپنے اندر کسی طرح کے نقص و عیب، جسمانی نفسانی یا اجتماعی درماندگی کے احساس، اپنے صلاحیتوں سے متعلق شکوک و شبہات کا شکار رہنا بھی احساس کمتری میں شامل ہے ؛ جس طرح احساس برتری انسان کو غرور و تکبر جیسی بیماریوں کا شکار بنا دیتا ہے ایسے ہی احساس کمتری بھی آدمی کو۔مختلف نفسیاتی امراض میں مبتلا کر دیتا ہے۔

احساس کمتری خود اعتمادی کے لئے سم قاتل ہے اور خود اعتمادی کے فقدان سے ناکامی کا خوف دل میں سرایت کر جاتا ہے اور بالآخر یہی خوف پھر ناکامی کی وجہ بھی بن جاتا ہے۔

احساس کمتری دماغی کارکردگی اور فکری صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ یہ آدمی کو غیر ضروری اندیشوں اور وسوسوں میں جکڑ دیتا ہے، جس کی وجہ سے ڈر و خوف اور ناقابل بیان الجھنیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔

یہ احساس تعصب, تنگ نظری اور حسد کو جنم دیتا ہے۔ انسان میں ناشکری جیسی صفت قبیحہ تولید کرتا ہے جس کے نتیجے میں زبان پر ہر وقت شکوہ شکایت رہتا ہے۔ اللہ کے عطا کردہ انعامات کو دوسروں کے مقابلے کم سمجھ کر مایوس رہتا ہے۔ دوسروں کی صلاحیت سے اپنی صلاحیت کا موازنہ کرکے دل ہی دل میں دکھی رہتا ہے، بجائے اس کے کہ اپنی قابلیت بڑھاکر دوسروں کا مقابلہ کرے اس کے اندر فائٹنگ اسپرٹ ختم ہوجاتی ہے، بلکہ بسا اوقات تو بہت زیادہ خوبیوں کا مالک ہونے کے باوجود اس وہم میں گرفتار رہتا ہے کہ وہ اپنے اندر کوئی خوبی نہیں رکھتا، سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا اللہ تعالٰی پر ایمان و یقین کمزور ہوجاتا ہے اور توکل، صبر، رضا بالقضاء اور تقسیم خداوندی پر قناعت کرنے جیسی نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔

 مسلمانوں کے لئے حالات واقعی بہت مشکل ہیں شرور و فتن کی تند و تیز ہوائیں اس کی بنا کو اکھاڑ دینا چاہتی ہیں، ہر میدان و محاذ پر سخت مشکلات کا سامنا ہے اقوام عالم بالاتفاق ان کا وجود مٹا دینا چاہتی ہیں مگر یہ بات ہمیشہ اپنے ذہن کے نہاں خانوں میں پورے وثوق اور یقین کے ساتھ رکھنی چاہیے کہ یہ سب مسلمان کے عزم و حوصلے اور استقلال کے کوہ ہمالیہ کو ٹس سے مس نہیں کر سکتے، تمام تر دشواریوں اور رکاوٹوں کے باوجود قوم مسلم کو سرینڈر نہیں کرنا بلکہ مسلسل جد و جہد کرنی ہے عارضی شکست اور وقتی ناکامی سے دل برداشتہ نہیں ہونا ہے کیوں کہ مایوسی اور بد دلی ہمیشہ ہزیمت کی راہ ہموار کر تی ہے ؎

اگر تم دل گرفتہ ہو 

کہ تم کو ہار جانا ہے 

تو پھر تم ہار جاوگے 

اگر خاطر شکستہ ہو 

کہ تم کچھ کر نہیں سکتے 

یقینا کر نا پاوگے۔

مسلمانوں کو ہر زمانے میں اس راہ حیات میں مختلف حالات کا سامنا کرنا ہے اس دوران اگر آسمان آگ برساے اور زمین سے لاوا ابلنے لگے تب بھی اس کا یہ یقین ہونا چاہیے کہ مصائب و آلام کی یہ تاریک راتیں ایک نورانی صبح میں تبدیل ہو کر رہیں گی ؎

جو یقین کی راہ پر چل پڑے 

انہیں منزلوں نے پناہ دی 

جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا 

وہ قدم قدم پر بہک گئے

 مسلمان عظیم قوم تھی, عظیم قوم ہے اور عظیم قوم رہے گی ان شاء الله. مسلمانوں کا دین ابدی، مستحکم اور مدلل ہے مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت اعلی ترین ہے مسلمانوں کی اِیجادات بے شمار ہیں مسلمانوں کی علمی و تمدنی تاریخ روشن ترین ہے مسلمانوں کے کارنامے بے مثال ہیں مسلمانوں کے مفاخر منقطع النظیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو خیر امت بنایا ہے اور یہ خیر امت قیامت تک باقی رہے گی ان شاء الله . خدا نے اس قوم کو ایسی نعمتیں اور صلاحیتیں عطا فرمائی ہین جن سے دوسری اقوام تہی دست ہیں۔

تو کسی فرد مسلم کو نا مایوس ہونا چاہیے نا کسی احساس محرومی کا شکار ہو نا چاہیے بلکہ پوری مستعدی کے ساتھ اپنی جدوجہد اور باطل سے پنجہ آزمائی جاری رکھنی چاہیے۔

شیطانی قوتیں مسلمانوں میں ڈر و خوف، قنوطیت اور احساس کمتری پیدا کرکے ان کو شکست دینا چاہتی ہیں بلکہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ خود ہمارے معاشرے ہی میں لوگ کسی کو احساس کمتری میں مبتلا کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ بہت سے مسلمان لکھاری اپنی تحریروں اور مضامین میں سواے مسلمانوں کو گالی دینے, ان کی عیب جوی اورذلت و مسکنت کے بیان کے اور کچھ نہیں کرتے۔

اسلوب ہی انتہائ حقارت آمیز اور تذلیل والا ہوتا ہے کہ قاری یہ سمجھنے لگتا ہے مسلماں کرہ ارض پر ذلیل ترین اور پسماندہ قوم ہے علم و فن سے بے بہرہ ہے کہ اس کا نا کوئی مستقبل ہے نا ماضی۔ اسلامی تہذیب کی توہین کرکے مغربی تہذیب کو آئڈیل کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ مغرب اور اس کی تہذیب کسی بھی حقیقت پسند اور فطرت پسند شخص کے لیے نا کبھی آئڈیل تھی اور نا کبھی ہوسکتی ہے۔

 ایسے بہت سے قلم کار آپ کو مل جائیں گے جو نا صرف خود مغرب سے مرعوب ہیں بلکہ پوری مسلم قوم کو اس لئے معتوب کرتے ہیں کہ وہ مغرب کے نقش قدم پر نہیں چل رہی ہے، ان کے عتاب کا سب سے زیادہ نشانہ علماء برادری بنتی ہے اور یہ لوگ مسلمانوں کی مزعومہ ناکامی کا ٹھیکرا علماء کے سر پھوڑتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے ایسے لوگ شکست خوردہ، خود آگاہی سے محروم اور احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں اور پھر اپنے منفی آرٹیکلز اور مضامین سے پوری قوم میں اس بیماری کے جراثیم پھیلارہے ہوتے ہیں۔

یقیناً مسلمانوں میں اپنے ماضی جیسی بات نا رہی ہو اس کے لئے مثبت تنقید بھی کی جاسکتی ہے مگر یہ کسی بھی طرح معقول نہیں کہ مسلمانوں کی تنقید کے نام پر ان کی تذلیل کی جاے یا ان کی تہذیب و ثقافت اور شعارات کا استہزاء کیا جائے ان کے لئے نامناسب القابات وضع کئے جائیں یا ان پر دوسری اقوام کو فوقیت دی جاے۔ کسی کی تیز رفتاری سے اپنی بھی رفتار بڑھے تو بہتر ہے مگر دوسرے کو دیکھ کر اپنی رفتار کو سست کردینا عقلمندی نہیں ہے۔

 کتنی حیرت کی بات ہے کہ فضلاء مدارس کو بھی اس مہلک بیماری نے آ دبوچا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مدارس کے فضلاء و طلباء ذہانت و فطانت میں اپنی مثال آپ ہوتے ہیں؛ خدا داد صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیں، لیکن ان کو لگتا ہے کہ وہ عصری تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے ہیں اور یہ کہ وہ عصری درسگاہوں کے طلباء سے پیچھے ہیں ان کو اپنا مستقبل تاریک محسوس ہوتا ہے جبکہ ان کے پاس موجود قدسی علم ہر زمانے کے لئے ہے، کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلباء سے اہلیت و لیاقت میں میلوں آگے ہیں رہتی دنیا تک امامت و سیادت ان کے لئے مقدر ہے، تو پھر کس چیز سے محرومی کا احساس ؟

کسی نئے فن اور زبان کے حصول کی کوشش اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کرنا ایک الگ چیز ہے، پر اس کے عدم حصول پر احساس کمتری میں مبتلا ہو جانا یا مایوس ہو جانا حاصل شدہ علوم و فنون کی بے قدری اور توہین ہے۔

مسلمانوں اور خاص کر فضلاء مدارس کو اس احساس کمتری و محرومی سے باہر نکلنا ہوگا ؛ خود اعتمادی، خود آگاہی، اپنے علم و فن پر فخر اور اپنے دین و تہذیب کی برتری کا یقین پیدا کرنا ہوگا پھر ان شاء الله کامیابی قدم چومے گی۔