مولانا نسیم احمد قاسمی
فقیہ ملت مولانا زبیر احمد قاسمی نور اللہ مرقدہ کی وفات حسرت آیات یقینا موت العالم موت العالم ہے۔ بلاشبہ نصف صدی سے زائد عرصہ تک دینی خدمات انجام دہی کے بعد یہ آفتا ب علم وہدایت 13جنوری 2019 بروز اتوار کو ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا ۔ اور کوہ علم و معرفت کو اپنے آبائی وطن چندر سین پور ضلع مدھوبنی میں دفن کردیا گیا۔ اکابرین دیوبند میں حضرت مولانا محمد قاسم ناناتویؒ کی تدفین کے وقت حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ یہ شعر پڑھتے جاتے تھے اور روتے تھے۔ ؎
مٹی میں کیا سمجھ کے دباتے ہو دوستو
گنجینۂ علوم ہے یہ گنج زر نہیں
بلاشبہ حضرت مولانا زبیر احمد قاسمیؒ گنجینۂ علوم و فنون تھے۔دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد جب 1379 میں تدریسی دور کا آغاز ہوا تو اول دن سے ہی تدریسی صلاحیتوں کے چرچے شروع ہوئے۔ فقہ وحدیث ، تفسیر و کلام، منطق و فلسفہ، معانی و ادب، ہر جگہ شہرتوں اور محبوبیت نے ان کے قدموں تلے پھول بچھائے۔ ان کے انداز درس اور طریقہ تدریس نے نے مقبولیت کا دامن نہیں چھوڑا۔کسی فن میں نہ عاجز اور نہ کسی کتاب سے متوحش ،ہر جگہ ان کی صلاحیتوں کے قطار اندر قطار چراغ روشن ہوئے اور ان کی روشنی طالبان علوم نبوت کیلئے ایک مثال بن کر سامنے رہی ۔ خدا نے ذہن ، فکرحافظے اور افہام وتفہیم کی بے پناہ دولتوں سے نوازا تھا۔ اور قدرت کی ان فیا ضانہ عنایات کا انہوں نے فیاضانہ استعمال کیا۔ ہر خوانی علم سے خوب خوشہ چینی کی۔ نہ کسی فن کی بیڑیوں میں جکڑے رہے اور نہ کسی خاص علم کی زنجیڑوں نے انہیں باندھے رکھا۔ زندگی کو جن اصولوں کے حوالے انہوں نے کیا ان میں سے ایک مطالعہ بھی ہے۔ ایام جوانی سے لیکر بڑھاپے کی اس چھاؤں تک نہ وہ اس سے بیزار ہوئے اور نہ بے توجہ۔گھنٹوں پڑھتے ، مطالعہ کرتے۔ حضرت کی زندگی کے نشیب و فراز سے جو لوگ واقف ہیں اور ان کی شبانہ و روز جدوجہد پر جن کی نظر ہے وہ لوگ اس کی تصدیق ضرور کریں گے ۔
تدریس کی انفرادیت کے ساتھ تحریر و قلم میں بھی ان کی امتیازی شان تھی، وہ اس میدان میں اس قافلہ سالار کی طرح تھے جس کے پیچھے چلتے قافلے اپنی پوری توانائی اور طاقت صرف کردیتے ہیں لیکن ان کے قدموں کے نشانات پر چل کر ہی وہ منزل پر پہونچتے ہیں۔ تحریر ان کی اتنی اجلی ، اتنی پاکیزہ، اتنی صاف شفاف اور اتنی رسیلی، اتنی میٹھی، اتنی شیریں کہ خواجہ حسن نظامی بھی اپنا لطف کھو بیٹھے۔ اتنی پرکشش اور اتنی جاذب نظر کہ ابوالکلام آزاد کی تحریروں کا سحر ٹوٹتا نظر آئے۔عمق اور بلندی اس درجہ کہ مناظر احسن گیلانی کی تحریروں کی چاشنی ذائقہ کا حصہ بن جائے۔تحریر میں وہ کسی کے مقلد نہیں ۔اپنا ہی انداز ، اپنا ہی اسلو ب، وہ بھی اتنا جداگانہ اور متنوع کہ چاہنے کے باوجود اس میں اسلوب تک رسائی ممکن نہ ہو۔ ہزاروں مقالات و مضامین ان کے گہر بار قلم سے نکلے ۔ لکھنا ان کیلئے اتنا ہی سہل اور آسا ن جتنا دوسروں کیلئے لیٹنا، سونا ،کھانا پینا ۔ ہر موضوع اور ہر عنوان کو نکھارا ۔ استوار کیا، علمی موضوعات سے لیکر حالات حاضرہ پر بھی جچی تلی رائے کا اظہار کرتے اور ان کی رائے میں وزن بھی ہوتا۔ فکر بھی ،سچائی بھی ۔
حضرت مولانا زبیر احمد قاسمیؒ ان راسخین فی العلم میں سے تھے جن کی مثالیں کم ملتی ہیں، خصوصاً اس زمانے میں علمی انحطاط، علمی انتشار، تحریکوں کی کثرت، مشغولیتوں کی فراوانی اور ان کا تنوع اتنا ہے کہ علم میں رسوخ حاصل کرنا بڑا مشکل ہوگیا ہے۔ لیکن مولانا ہندوستان کے ان منتخب اور مختص ممتا ز علماء میں شامل تھے جنہیں علوم اسلامیہ میں رسوخ حاصل تھا ۔ وسعت معلومات ۔ تصنیف و تالیف کی صلاحیت یہ سب چیزیں بہت عام اور کثرت سے پائی جاتی ہیں ۔ لیکن علمی رسوخ بہت اونچی بات ہے۔ ایک خاص امتیاز ہے ۔ مولانا کی محنت وخلوص اور مسلسل علمی اشتغال سے تعلق قائم رہنے کی بناءپر آخر تک علمی رسوخ و پختگی باقی رہی جو بہت کمیاب بلکہ نایاب ہے۔
مولانا کی دوسری خصوصیت ان کی دینی حمیت ہے۔ اللہ تعالی نے ان کو حمیت دینی کا جو جوہر عطا فرمایا تھا وہ کم لوگوں کو ملتاہے۔ ہوسکتاہے دین داری عبادت گزاری ، تہجد ، شب بیداری اور ذکر و شغل میں دوسرے لوگ بڑھے ہوئے ہوں لیکن دینی غیرت و حمیت کی دولت سے مالامال تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مولانا خلاف شرع اور خلاف اصول کوئی کام دیکھتے تھے تو ان کے پورے بدن میں آگ سی لگ جاتی تھی ، تڑپ اٹھتے تھے ۔ ہول دل شروع ہوجاتا تھا اور اسی بے چینی و اضطراب کی کیفیت میں مبتلا ہوکر کہتے تھے کہ کیا ہورہاہے ؟ مسلمانوں کا کیا حشر ہوگا ؟خاص طور پر تعلیم یافتہ طبقہ کا کیا انجام ہوگا ؟۔
مولانا کی تیسر ی خصوصیت عالم ربانی کی ہے ۔ علماءامت اور علماءاسلام کو اللہ تعالی ” ربانیین “ کے لفظ سے یاد کرتا ہے ۔ ” اللہ والے بنو “ ۔ لیکن اللہ تعالی کی صفات میں رب کا لفظ انتخاب فرمایا گیا کہ ایسے علماء بنو جن کے اندر تربیت کا مادہ ہو اور تربیت کی صلاحیت بھی ہو انہیں کو علماء ربانین بھی کہتے ہیں ۔ بلاشبہ مولانا عالم ربانی کے مصداق تھے ۔
اپنے وقت کے باکمال، انسانوں، نامور شخصیات، سرکردہ لوگوں، برگزیدہ افراد اور عالمی سطح کی شخصیات سے ان کے تعلقات بھی رہے اور مراسم بھی۔ حاضری اور ملاقاتوں میں سب نے ان کو سراہا، چاہا ، سینے سے لگایا، علم حدیث اور علم فقہ پر اللہ پاک نے ان کو خصوصی نظر عطاء کی تھی جن کی وجہ سے وہ ممتاز شیخ الحدیث اور فقیہ ملت شمار کئے جاتے تھے ۔
خلاصہ یہ کہ وہ محدث ، فقیہ ، مفسر ، الحب فی اللہ والبغض فی اللہ کی تصویر، حق گو ، حق شعار ، جری و بیباک، غیرت دینی و ملی کے مظہر ، ماہر اسرار شریعت ، عزم و ہمت کے بلند پہاڑ، خود داری و ہمت کے کوہِ وقار ، مخلوق کی مدح و ذم سے بے نیاز، خلاف شریعت عمل کے دشمن اور کامیاب و باکمال منتظم تھے۔ چناں چہ جامعہ عربیہ اشرف العلوم کنہواں سیتامڑھی کی تعمیر و ترقی میں جہاں روحانی اولیاء اللہ کی دعائے سحر گاہی کا دخل ہے، وہیں بلاشبہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی انتھک محنت ، خداد صلاحیت اور صالحیت ، مستحکم نظم و انتظام اور شان تدریسی کو بھی بڑا دخل ہے۔ وہ آج ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کی لاکھوں اولاد روحانی و علمی یادگار ہیں جو ان کیلئے ذخیرۂ آخرت اور ذریعۂ نجات ہیں۔ اللہ تعالی ان کی دینی خدمات و مساعی اور ان کے اخلاص و درد مندی اور جہد و مستعدی کی بہترین جزائے عطا فرمائے ۔ آمین ۔
( مضمون نگار معروف عالم دین، اشرف العلوم کنہواں کے سابق استاذ اور جامعہ عائشہ صدیقہ نورچک مدھوبنی کے بانی و صدر ہیں)
رابطہ نمبر 9431627955