بابری مسجد تنازع حل کرنے کیلئے مصالحت کمیٹی کی تشکیل !

خبر در خبر (598)
شمس تبریز قاسمی
بابری مسجد ۔رام جنم بھومی تنازع کے حل کیلئے سپریم کورٹ نے مصالحت کمیٹی تشکیل دے دی ہے ۔ سہ رکنی مصالحتی کمیٹی کا چیرمین جسٹس خلیف اللہ کو بنایاگیاہے اس کے علاہ اس کمیٹی میں شری شری روی شنکر اور شری رام پنچو کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ پینل ایک ہفتہ میں اپنا کام شروع کر دے گااور 8 ہفتوں یعنی دوماہ کی مدت میں انہیں یہ پورا کام کرنا ہوگا ۔ مصالحت کی یہ پوری کاروائی سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہوگی اور میڈیا رپوٹس پر پابندی عائد رہے گی ۔مصالحت کے عمل کی ریکارڈ نگ بھی ہوگی۔ یہ مصالحت فیض آباد میں ہوگا جہاں سبھی فریقین آپس میں بیٹھ کر مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ پینل کو چار ہفتے کا وقت دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی کارروائی کا اسٹیٹس رپورٹ پیش کرے اور پھر 8 ہفتے کے اندر مصالحت کے عمل کو ختم کرے۔
ہندوفریقوںنے اس مشورہ کی شدید مخالفت کی تھی ، لیکن عدالت کے دباو میں اس نے بھی تین ثالثوں کے نام پیش کئے تھے ، جن میں سابق چیف جسٹس جگدیش سنگھ کہیر ،سابق چیف جسٹس دیپک مشرا اورجسٹس اے کے پٹنائک شامل تھے ، آج عدالت نے ان کے ذریعہ تجویز کردہ تینوں ناموں کو یکسر مستردکرتے ہوئے ایک آزادثالثی پینل کا تقررکردیا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ اور جمعیت علماءہند نے خیر مقدم کیاہے ۔ دوسری طرف سے مخالفت ہورہی ہے ۔ بی جے پی صدر امت شاہ نے بھی فیصلہ کا خیر مقدم کرنے کے بجائے کہاہے کہ جلد رام مندر کی تعمیر شروع ہوجائے گی ۔یہ کمیٹی مصالحت کرنے میں کامیاب ہوپائے گی یا ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر یہ کوشش ناکام ہوگی اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ سپریم کورٹ کی اس کاروائی کا یہ فائدہ ضرورہوگا کہ عام الیکشن 2019 میں شدت پسند سیاست دانوں اور بی جے پی کو اسے زیادہ موضوع بحث بنانے کا موقع نہیں ملے گا ۔جب تک دو ماہ کی مدت میں صلح سمجھوتہ کی کاروائی ہوگی اس دوران الیکشن اختتام کو پہونچ جائے گا ۔ سپریم کورٹ نے ایک اور قابل ستائش فیصلہ یہ کیاہے کہ میڈیا کے ذریعہ رپوٹنگ پر پابندی عائد کردی ہے اور کاروائی کو ریکاڈ کرنے کاحکم دیاہے ۔
یہ مصالحت ملکیت کی بنیادپر ہوگی کہ آخر متنازع زمین کا اصل حقدار کون فریق ہے ۔ یہ بابری مسجد کی ہی جگہ یا واقعی اس مفروضہ میں ذرہ برابری بھی کوئی سچائی ہے کہ یہاں کبھی مندر تھا ۔ ملت ٹائمز میں ایک تفصیلی رپوٹ ہم شائع کرچکے ہیں کہ اجودھیاتنازع کی شروعات کب ہوئی کیاہے پورا قضیہ اور کب سے رام مندر کا دعوی کیا جاراہاہے ۔
بابری مسجد ۔رام جنم بھومی تنازع کے حوالے سے سب سے اہم سوال یہی ہر ایک کے ذہن میں گردش کررہاہے کہ ججز کیوں اس قضیے کا خود فیصلہ نہیں کررہے ہیں ۔کیوں بار بار مصالحت کا حوالہ دے رہے ہیں اور دونوں فریق سے آپسی صلح سمجھوتہ کے ذریعہ یہ کام کرنے کو کہ رہے ہیں ۔کیا ہندو فریق کے پاس اپنے دعوی کے ثبوت میں کوئی دلیل نہیں ہے ؟ کیا فریق مخالف وہاں مندر ثابت کرنے میں ناکام ہے ؟ کیا عدلیہ کو یہ اندیشہ ہے کہ اگر اجودھیا تنازع پر وہ فیصلہ سناتی ہے تو ملک کا ماحول خراب ہوجائے گا ؟۔
آئیے ذرا جان لیتے ہیں کون ہیں وہ تین شخصیات جنہیں مصالحت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے

1. فقیر محمد ابراہیم کلیف اللہ
ریٹائرڈ جسٹس فقیر محمد ابراہیم کلیف اللہ ہندوستان کے تمل ناڈو سے تعلق رکھتے ہیں۔ کلیف اللہ نے چنئی میں اپنی پریکٹس شروع کی تھی۔ سال 2000 میں انھیں مدراس ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا تھا۔ کچھ وقت بعد کلیف اللہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنائے گئے تھے۔ 2 اپریل 2012 میں کلیف اللہ نے سپریم کورٹ کے جج کے طور پر حلف لیا تھا۔ 22 جولائی 2016 کو کلیف اللہ سپریم کورٹ کے جسٹس کے عہدہ سے سبکدوش ہوئے۔ ان کی سبکدوشی کے وقت اس وقت کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے کہا تھا کہ جسٹس کلیف اللہ نے بی سی سی آئی کیس میں جس طرح کے مشورے دیے وہ قابل تعریف ہیں۔

2. شری شری روی شنکر
تمل ناڈو میں پیدا ہوئے شری شری روی شنکر ’آرٹ آف لیونگ‘ فاونڈیشن کے بانی ہیں۔ انھوں نے 17 سال کی عمر ہی فیزکس کی ڈگری حاصل کر لی تھی۔ ایودھیا معاملہ میں یہ پہلے بھی کئی بار ثالث کے کردار میں سامنے آ چکے ہیں۔ لیکن ہمیشہ انھیں مایوسی ہی ہاتھ لگی۔ 2018 میں ایودھیا معاملہ میں ثالثی کے معاملے پر روی شنکر نے کہا تھا کہ مسلم فریق کو اس زمین کے بارے میں سوچنا چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ یہ ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ روی شنکر نے کہا تھا کہ ”شری رام جنم بھومی ہونے کی وجہ سے ہندو طبقہ کو اس جگہ سے گہری عقیدت ہے۔“ حالانکہ روی شنکر کی اس گزارش کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے سیدھے طور پر مسترد کر دیا تھا۔شری شری روی شنکر اس سے پہلے واضح انداز میں جانبداری کا ثبوت پیش کرچکے ہیں۔جب بھی انہوں نے ثالثی کی بات کی وہاں رام مندر کی تعمیر کی بات کی۔گزشتہ سال ایک مرتبہ وہ مسلمانوں کو دھمکی بھی دے چکے ہیں کہ اگر اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر نہیں ہوگی تو ہندوستان شام بن جائے گا۔

3. شری رام پنچو
شری رام پنچو چنئی کے سینئر وکیل ہیں اور گزشتہ 40 سالوں سے وکالت کر رہے ہیں۔ ثالثی کے معاملے میں پنچو ایک کمال کے وکیل تصور کیے جاتے ہیں۔ تقریباً 20 سالوں سے پنچو سرگرم ثالث کا کردار نبھا رہے ہیں۔ پنچو نے ہندوستان کا پہلا ثالثی کورٹ 2005 میں شروع کیا تھا اور ثالثی کو ہندوستانی نظامِ انصاف کا اہم حصہ بنائے جانے کے لیے کام کیا۔ میڈیشن چیمبر (ثالثی چیمبر) کے بانی شری رام پنچو نے ملک کے کئی متنازعہ معاملوں کو ثالثی کے ذریعہ حل کرایا ہے۔
مصالحت کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے مشورہ پر عمل کرکے آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ اور جمیعت علماءہند نے بہتر فیصلہ کیاہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ معاملہ جہاںتھا وہیں رہ جائے گا ۔ فائدہ بس یہی ہوگا کہ عام الیکشن اس اس کوشش کے دوران گزر جائے گا ۔
stqasmi@gmail.com