خبر در خبر (599)
شمس تبریز قاسمی
کانگریس نے عوام کو جوڑ نے ،عوام کے درمیان کام کرنے اور عوام سے تعلقات مستقل ہموار کرنے کیلئے رچناتمک کانگریس کی شروعات کی ہے ۔ اس سلسلے کی پہلی میٹنگ 11 مارچ 2019 کو نئی دہلی کے جواہر بھون میں منعقد کی گئی ۔ ملک بھر کی اہم این جی اوز اور تنظیموں کے سربراہان ۔ سول سوسائٹی کے نمایاں افراد اور کچھ صحافی موجود تھے جن کی مجموعی تعداد تقریبا 250 رہی ہوگی ۔ اس میٹنگ میں شرکت کیلئے کانگریس دفتر سے راقم الحروف کو بھی مدعو کیاگیا تھا ۔ میرے ساتھ ہمار ے دوست ڈاکٹر حفظ الرحمن قاسمی نے بھی شرکت کی ۔ رچمانتک کانگریس کی یہ میٹنگ صبح گیارہ بجے سے شام کے پانچ بجے تک چلتی رہی ۔کانگریس کے متعدد اہم رہنماﺅں کے ساتھ دوپہر سے شام تک کانگریس صدر راہل گاندھی نے بھی شرکت کی ۔
رچمانتک کانگریس میں اسٹیج سے کم بولاگیا اور وہاں موجود شرکاءکو بولنے کازیادہ موقع دیاگیا۔کانگریس صدر راہل گاندھی اور دیگر ذمہ داروں نے مکمل آزادی کے ساتھ سوال کرنے کی پیشکش کی ۔ مشورہ طلب کیا اور کہاکہ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا چناﺅکے بعد رک نہیں جائے گا ۔آج کے خبر در خبر میں رچمانتک کانگریس میں سول سوسائٹی کی جانب سے کانگریس پر اٹھائے گئے سوالات کا ہم تذکرہ کرنے جارہے ہیں ۔ یہ سولات بہت اہم ہیںاور اس پر کانگریس کیلئے اپنی پالیسی میں تبدیلی لانا ضروری ہے ۔یہاں کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش کے اس جملے کا تذکرہ ضروری ہے جوانہوں نے کہاکہ آج کی اس میٹنگ میں کئی ایسے نمایاں چہرے نظر آرہے ہیں جنہوں نے گذشتہ پندر ہ بیس سالوں کے دوران کانگریس کی شدید تنقید کی ہے لیکن آج انہیں یہاں دیکھ حیرت بھی ہورہی ہے اور خوشی بھی کہ آج ملک کو بحران سے بچانے کیلئے کانگریس کا ہی انہوں نے انتخاب کیاہے ،یہاں آنے کی دعوت قبول کی ہے اور انہیں اندازہ ہوچکاہے کہ ملک کی ترقی اور آئین کے تحفظ کیلئے اب کانگریس کا ساتھ دینے کا وقت آگیاہے ۔
سول سوسائٹی اور این جی اوز کے ذمہ داران نے اپنے سوالات کے ذریعہ کانگریس سے گزارش کی وہ علاقائی اور چھوٹی پارٹیوں کو جگہ دے ،انہیں اتحاد میں شامل کرے اور سب کو ساتھ لیکر چلنے کا مزاج بنائے ۔ممبئی سے آئے ایک صاحب نے بہت اچھا سوال کیا کہ آپ انتخابا ت میں ایسے مسلمانوں کو ٹکٹ دیتے ہیں جو جیتنے کے بعد اپنی قوم کی نمائندگی بھول جاتے ہیں صرف آپ کی وفاداری پر ان کی توجہ رہتی ہے ۔ اس لئے آپ ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیکر امیدوار بنائیں جو آپ کی وفاداری کے ساتھ اس قوم کی نمائندگی اور ترجمانی کا بھی خیال رکھے جن کے ووٹوں سے وہ جیت حاصل کرتے ہیں ۔کئی لوگوں نے کانگریس کو یہ مشورہ بھی دیاکہ وہ ہر حال میں اپنی سابقہ پالیسی پر برقرار رہے ۔ ملک کے بدترین حالات کے باوجود اپنے نظریات میں و ہ کوئی تبدیلی نہ لائئے ۔خواتین نے کانگریس پر خواتین کے استحصال کا بھی الزام عائد کیا ۔مختلف شعبوں میں ملازمت اور یکساں حقوق نہ ملنے کا شکو ہ کیا ۔ ڈاکٹر ثروت فاطمہ نے تین طلاق کا مسئلہ چھیڑ تے ہوئے کانگریس سے کہاکہ بی جے پی نے تین طلاق کے نام پر سیاست کرکے مسلم فیملی کو تباہی کے دہانے پر پہونچادیاہے ۔ اسلام کے خوبصورت اور جامع عائلی نظام کو انہوں نے چیلنج کیا ہے ۔کانگریس اگر اقتدار میں آتی ہے تو انہیں ایسی سیاست سے گریز کرناہوگا ۔راجستھان سے آئے لوگوں کا شکوہ تھاکہ کل تک جب وہاں گانگریس کی حکومت نہیں تھی سارے لیڈران رابطے میں تھے ۔فون ریسو کرتے تھے لیکن اقتدار ملنے کا بعد ان کا رویہ تبدیل ہوگیاہے ۔ اب وہ دستیاب نہیں ہوتے ہیں ۔فون پر بات نہیں کرتے ہیں ۔ملاقات کا موقع تک نہیں دیتے ہیں ۔گجرات کی ایک مائناریٹی تنظیم نے وہاں اقلیتی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا ۔ایک صاحب اور بہت عمدہ سوال کیا کہ کانگریس انتخابات کے زمانے میں مسلمانوں اور سیکولر عوام کو نظر انداز کرکے چلتی ہے کیوں کہ انہیں لگتاہے کہ یہ ہر حال میں ہمارے ساتھ رہیں گے ۔ کانگریس چھوڑ کر بی جے پی کی طرف یہ کبھی جانہیں سکتے ہیں اور اس نظریاتی مجبوری کا فائدئہ اٹھاتے ہوئے کانگریس ایسے ووٹرس پر توجہ نہیں دیتی ہے جسے سراہا نہیں جاسکتاہے ۔
رچناتمک کانگریس میں راقم الحروف نے بھی ایک سوال کیا ”موجود ہ دور میں سیاست اور مذہب کو بہت قریب کردیاگیاہے ۔ ملک کی ایک بڑی آبادی اب سیاست کو مذہب کے آئینے میں دیکھ رہی ہے ایسے میں کانگریس سیاست کو مذہب سے الگ کیسے کرپائے گی جبکہ ہندوستان کے سیکولر ملک ہونے کی وجہ سے ضروری ہے “۔میرے سوال میں ایک یہ جز بھی شامل تھاکہ ”ہم آج کانگریس کے ماضی کا کوئی تذکرہ نہیں کرنا چاہتے ہیں کہ کانگریس بھی کبھی آر ایس ایس کی سیاسی ونگ کے طور پر کام کرتی رہی ہے ۔نہ یہ تذکر یہاں مناسب ہوگاکہ بابری مسجد کے قضیہ کیلئے کون ذمہ دار ہے ۔نہ یہ شکوہ ہم کرنا چاہتے ہیں کہ کانگریس نے این آئی اے کی تشکیل دیکر مسلمانوں کو ہزاروں کی تعداد میں دہشت گردٹھہرا کر جیل کی سلاخوں میں بند کیاہے ۔نہ یہ تذکرہ مناسب ہوگا کہ 2002 کے گجرات فسادا ت کی وجہ سے 2004 میں کانگریس حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی لیکن اس کے بعد اس نے گجرات فسادات کے مجرموں کے خلاف کوئی ٹھوس کاروائی کرنے میں دلچسپی نہیں دکھائی ۔بہر حال یہ سب گزرے زمانہ کی بات ہے ۔راہل جی کا کہناہے کہ یہاں سے ایک نئی شروعات ہورہی ہے ۔ نئی کانگریس ہے لیکن ہمیں ایسا لگ نہیں رہاہے ۔کیوں کہ مدھیہ پردیش ۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس کو جیت ملنے کے بعد وہاں کی حکومتیں جو فیصلے لے رہیں وہ بی جے پی کی پالیسی کی ہی طرح ہے ۔ یہاں بھی راشٹر واد ،گائے ماتا اور اسی جیسی سوچ کا ہی غلبہ نظر آرہاہے جس کیلئے ہم بی جے پی کی مذمت کرتے رہتے ہیں۔ اس لئے یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ کانگریس بی جے پی سے کچھ الگ راہ اپنائے گی اور وہ برہمنواد کے نظریہ سے نکل کر ملک کے جمہوری نظام کو مکمل طور پر اپناکر حکومت چلائے گی ۔
کانگریس صدر راہل گاندھی نے سوالات کا خیر مقدم کیا ۔ انہوں نے جواب دیا اور ہر ممکن مطمئن کرنے کی کوشش کی ۔ بعض معاملوں کیلئے انتظامیہ اور سابقہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا اور بہت جلد تبدیلی لانے کا وعدہ کیا ۔لیکن اس پر کتناعمل ہوگا ۔ان سوالوں کو کتنی سنجیدگی سے لیاجائے گا اس بارے میں کچھ بھی کہنا مشکل ہے ۔
اپنی تقریر کے دوران راہل گاندھی نے ایک اہم جملہ کہاکہ اب تک ہم آر ایس ایس اور بی جے پی کے خلاف لڑرہے تھے لیکن اس مرتبہ ہماری لڑائی آر بی آئی ،فوج ،الیکشن کمیشن ،عدلیہ ،سی بی آئی او راس جیسے آئینی اداروں کے تحفظ اور بقاءکیلئے ہے ۔اس بات میں سچائی ہے ، آئین کے تحفظ، دستور کی بقااور جمہوریت کی مضبوطی کیلئے ایسی حکومت کا قیام ضروری ہے جس میں ایسے اندیشے نہ پائے جاتے ہوں۔
رچناتمک کانگریس کے آغاز میں یہ بھی بتایاگیاتھاکہ میٹنگ میں آنے والے مشورے اور سوالات پر بحث ہوگی ۔ اس مقصد کیلئے ملک بھر کی ریاستوں کے دو اہم ذمہ داروں کو بلایاگیاہے جن کے ساتھ آج ہی شام کو ہم میٹنگ کرکے انہیں ایشوز پر گفتگو کریں گے ۔
stqasmi@gmail.com