مہدی حسن عینی قاسمی
اللہ تعالی کی اپنے بندوں کے لئے نعمتوں اور انعامات کا شمار ممکن نہیں ہے لیکن اللہ تعالی کے ان عطایا میں سے رمضان المبارک کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے ، حضورر اکرم ﷺ کو اس مہینہ کا شدت سے انتظار رہا کر تا تھا آپ ﷺ ما ہ صیام کا جس شوق سے استقبال کرتے تھے، اس کا احساس اور ذکر خود ایمان افروز اور اس انعام الہی کی قدر ومنزلت کو سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھا نے کے لئے مہمیز کا کام کرتاہے، آپ ﷺ جب رجب کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرماتے کہ’’اللہم بارک لنا فی رجب وشعبان وبلغنارمضان‘‘
اور پھر جب رمضان کا چاند نظر آجاتا تو لسان نبویﷺ سے یہ الفاظ گوہر بن کر ضوفشاں ہوتے ’’ اللہم أہلہ علینا بالأمن ولایمان والسلامۃ والاسلام ربی وربک اللہ‘‘ اے اللہ ہم پر یہ چاند امن وایمان اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما اے چاند میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔
روزے کے باب میں کلام الہی نے تین چیزوں کی طرف خصوصیت سے ہمیں متوجہ کیا ہے ’’لعلکم یتقون‘‘ تا کہ ہم صاحب تقوی بن جائیں ، ’’لعلکم تشکرون‘‘تا کہ تم اپنے رب کا شکر ادا کرو اس کی تمام عطایا اور انعامات پر۔
لتکبرو اللہ علی ما ہدکم‘‘ تا کہ تم اس انعام خداوندی اور عطائے ہدایت ربانی پر اللہ کی کبریائی بیان کرو اور قرآن کے پیغام کو پھیلاؤ اور اس انعام کا شکر ادا کرو ،نبی پاکﷺ نے اس مبارک مہینے سے فائدہ اٹھانے کا مؤثر ترین نسخہ اس طرح بیان فرمایا ’’من صام رمضان ایماناً واحستساباً غفرلہ ما تقدم من ذنبہ‘‘ جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردےئے جائیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ سر کار دو عالم ﷺ نے اس مقدس مہینہ کو نیکیوں کی فصل بہار قرار دیا ہے۔
علاوہ ازیں روزہ اسلام کے نظام تربیت واصلاح نفس کا ایک بنیادی رکن ہے، انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اللہ رب العزت نے اسلام کے نظام تربیت میں عبادات ومعاملات کے ذریعہ ناصرف فرد بلکہ معاشرے اور پوری انسانیت کے لئے کرنے اور برتنے کے ایسے کام فرض کےئے ہیں جن میں سے ہر ایک اس نظام تربیت کو قوت اور سہارا دیتا ہے ، روزہ سال بھر میں ایک مہینہ کا غیر معمولی نظام تربیت
(SPECIAL TRAINING COURSE) ہے جو آدمی کو تقریباً ۷۲۰ گھنٹے تک مسلسل اپنے مضبوط ڈسپلن کے شکنجے میں کسے رکھتا ہے تاکہ روزانہ کی معمولی تربیت میں جو اثرات خفیف تھے وہ شدید ہوجائیں بلکہ صرف روزہ ہی نہیں بلکہ تمام عبادات کی غرض یہ ہے کہ ان کے ذریعہ آدمی کی تربیت کی جائے اور اس کو اس قابل بنا دیا جائے کہ اس کی پوری زندگی اللہ کی عبادت بن جائے گویا عبادات انسان کے مقصد وجود کے حصول کا ذریعہ ہیں’’ وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون ‘‘کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ،ایک بنیادی فرق روزے اور دیگر تمام عبادت میں یہ ہے کہ ان کی ادا ئیگی ایک قابل محسوس شکل رکھتی ہے، جب کہ روزہ ایک ایسی مخفی عبادت ہے جسے صرف وہ جس کی عبادت کی جارہی ہے، جانتا ہے، اللہ عزوجل فرماتے ہیں ! ابن آدم کا ہر نیک عمل کئی گنا بڑھادیا جاتاہے،ایک نیکی کئی انیکیوں کے برابر، حتی کہ ۷۰۰ نیکیوں کے برابر ، سوائے روزے کے جو صرف میرے لئے ہوتا ہے اور میں یہ دوسروں کو اس کا بدلہ خود دیتا ہوں،یہ و نظرنا آنے والی عبادت اپنے اثرات ونتائج کے اعتبار سے صحیح معنی میں جہاد اصغر کہی جاسکتی ہے کیونکہ اس میں نفس میں پائی جانے والی مخفی بغاوت (طاغوت ) اور انانیت (شیطان) جو ایک انتہائی بھلے اور راست باز انسان کو وقتی طورپر اپنے قابو میں لے آتی ہے۔
اس کو پورے ایک ماہ کے لئے نظرنا آنے والے قید خانے کی سنگین سلاخوں کے پیچھے بیڑیاں پہنا کر قید کر دیا جاتا ہے ،رسول کریم ﷺ نے فرمایا : تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آپہونچا ،یہ بابر کت مہینہ ہے۔ اللہ سبحانہ تعالی نے تم پر اس کے روزے فرض فرمائے، اس مہینہ میں جنت کے دروازے کھول دےئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دےئے جاتے ہیں ، اور اس میں شیطان جکڑدےئے جاتے ہیں ‘‘ عام دنوں میں شیطانی وساوس مومن کو بہت سے نیک کاموں سے روکنے کے لئے نت نئی شکلوں میں مزاحم ہوتے ہیں لیکن رمضان ایسا موسم بہار لے کر آتا ہے جس میں فضا بھلائیوں کے لئے ساز گار اور برائیوں کے لئے سد راہ بن جاتی ہے، روزہ ایک ڈھال بن کر آتا ہے اس لئے اگر کسی روزہ دار کو کوئی شخص جھگڑے پر آمادہ کرنا چاہے تو وہ صرف یہ کہہ کر الگ ہوجاتاہے کہ ’’میں روزے سے ہوں‘‘ (بخاری ، مسلم) یہ ہمت یہ اعتماد اور یہ حوصلہ کہ ایک دھمکی کا جواب ہاتھ سے دینے کی صلاحیت ہو اور پھر بھی صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا جائے کہ میں روزے سے ہوں، صرف ایسی صورت حال میں ہی ہوسکتا ہے جب ایک شخص کو یہ شعور اور آگہی ہو کہ وہ ایسے نظام تربیت سے گذر رہا ہے جس میں ہر نفسیاتی رد عمل اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشی کے تابع ہو، یہ ضبط نفس صرف اور صرف رمضان ہی کی برکت سے حاصل ہوتاہے، لیکن اس ماہ کی برکات اور اس عبادت کے ذریعہ اپنی شخصیت وسیرت میں انقلابی تبدیلی کا عمل ہم اسی وقت کرسکتے ہیں جب چند باتوں سے اجتناب کیا جائے اور ایسے عمل کو وظیفۂ حیات بنالیا جائے جو رمضان کے دوران اور اس کے بعد ہمارے ہر سانس ، ہر قدم، ہر خیال، ہر منصوبے، اور ہر ارادے کو صحیح رخ اور صحیح معنی دینے کی صلاحیت رکھتا ہو، جن چیزوں سے بچنے اور اجتناب کرنے سے یہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے انہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے لیکن تعداد میں کم ہونے کے باوجود ان سے بچنے کے لئے مضبوط عزم اور ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے آنکھوں کے سامنے ہونے کا تصور ضروری ہے،ان میں جنسی لذت کی نیت سے قربت، غذا، پانی، جھوٹ اور جاہلیت کے دور میں کی جانے والی عادات شامل ہیں’’جو شخص جھوٹ بولنے، اس کو پھیلانے، اور جہالت کی باتوں کو ترک نہیں کرتا تو اللہ رب العزت کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنے کھانے پینے کو ترک کرے (بخاری)۔
یہ نظام تربیت جن مطلوبہ صفات کو جلابخشتا ہے ان میں سر فہرست تقویٰ کی روش ہے، دوسر ی صفت صبر، یعنی ایک جانب اپنے آپ کو نفس کے مطالبات سے روکے رکھنا اور دوسری جانب مثبت اور تعمیری پہلو سے بھلائی، قیام حق اور نظامِ عدل کا قیام کرنا، نیز اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی کے نظام کو نافذ کرنے کی جدوجہد کو استقامت کے ساتھ برادشت کرتے ہوئے اس پر جم جانا یہی صبر کا مفہوم ہے اس مہینہ کو ’’شہرصبر‘ ‘ یعنی صبرکا مہینہ بتلایا گیا ہے نیزماہ صیام کو ہمدردی ، مواسات، غمخواری، غربیوں کی ہمدردی محتاجوں کے تعاون کا مہینہ قرار دیا گیا ہے حدیث پاک میں ہے’’ وہو شہر المواساۃ‘‘اب یہ ہمدردی خواہ مالی ہو یا غذا فراہم کر کے ہو یا پھر ایک ملازم پر سے اس کا بوجھ ختم کرکے ہو یا لباس دے کر۔
نبی اکرمﷺ کی جو دوسخا اس مہینہ میں غیر معمولی طور پر بارش لاتی تھی اور ہر کوئی سیراب ہوتا تھا، اس دوران آپ ﷺ سے جو کچھ بھی مانگا جاتا تھا آپ انکار نہیں فرماتے تھے۔
صبر وشکر، مغفرت ومواساۃ کے ساتھ ساتھ نفس کا محاسبہ اس مہینہ کا سب سے بڑا عمل ہے سیدنا عمرؓ کے مشہور قول ’’حاسبوا قبل أن تحاسبوا‘‘ احتساب کرو قبل اس کے کہ تمہارا احتساب کیا جائے‘‘ اور رمضان کے روزے احتساب کے ساتھ رکھنے والی حدیث مبارکہ کی اہمیت ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے غیر معمولی اور نہایت اہمیت کی حامل ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس احتساب کے مختلف پہلوؤں پر اپنے ذہن کو تازہ کرتے ہوئے اس نسخۂ کیمیا کے ذریعہ اپنی تمام بھول چوک کے لئے اس مبارک مہینہ کے شب و روز میں رب کریم سے خصوصی ’’استغفار‘‘ استعانت ونصرت کی طلب کے ساتھ کیا جائے ،نیز اس احتسابی عمل کا آغاز ، ایک عامی انسان ہو یا ذمہ دار، اسے اولاً خود سے شروع کرنا ہوگا اور اپنے آپ سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ اس سے کمیاں اور خطائیں کہاں سرزد ہوئی ہیں ذاتی معاملات میں اجتماعی امور میں ،اپنے اہل وعیال کے حقوق کی ادائیگی میں یا پھر اہل محلہ وپڑوسی کے حقوق میں پھر اگر عبادات میں کمی کی ہے تو فرائض واجبات ادا نہیں کرسکا ہے؟ یا پھر محرمات کا ارتکاب کیا ہے؟ ان تمام امور پر غور وفکر کر کے، ماضی کے ہر ہر عمل کے بارے میں خود احتسابی کرنا اس مقدس مہینہ کا سب سے اہم تقاضا ہے، پھر امانت ودیانت کے ساتھ اپنے نفس پر ملامت کرتے ہوئے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرتے ہو ئے اس خدائی مہمان کا استقبال کرنا سارے مسلمانوں کا فریضہ ہے۔
نیز ادائیگی حقوق یعنی زکوۃ وصدقات، عبادات ومقتضیات پر کار بند ہونا بھی اس کے امتیازات میں سے ہے۔
اس لئے ضرورت اس بات کی ھیکہ ملت کے خواص وعوام، فردو جماعت اپنے ماضی میں جھانکیں مذامت کے آنسو بہائیں، مستقبل میں خدائی نظام پر چلنے کا عزم مصمم کریں، ملک جس رخ پر جارہا ہے اس میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور اس مقدس مہینہ میں ایک نئی منصوبہ بندی اور حکمت عملی وضع کریں تاکہ اللہ راضی ہو، بندوں کے حقوق ادا ہوں اور ہماری زندگیاں نوا نی و روحانی کیفیات سے سر شار ہو سکیں۔(ملت ٹائمز)