پاکستان اور ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق!

خبر در خبر (605)
شمس تبریز قاسمی
پاکستان میں ہندوکمیونی کو اقلیت کا درجہ حاصل ہے ۔ہندوستان میں مسلمانوں کو اقلیتی کمیونٹی کہاجاتاہے ۔دونوں ممالک ایک دوسرے پر اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہیں ۔زیادہ انٹر نیشنل رپوٹ ملکوں کی شبیہ یکساں بتائی جاتی ہے ۔ گذشتہ ایک ہفتہ قبل دونوں ملک کے درمیان اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کا واقعہ پیش آیاہے جس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کس ملک کی حکومت اقلیتوں کے تئیں کس قدر سنجیدہے ۔
22 مارچ کو پاکستان سے خبر آئی کہ وہاں صوبہ سندھ کے گھوٹکی میں دو ہند و لڑکی روینا اور رینا کا پہلے اغوا کیاگیا ،اس کے بعد جبر ان کا مذہب تبدیل کراکر مسلمان بنایاگیا اور پھر ان کی شاد ی کراد ی گئی ۔23مارچ کو یہ خبر ہندوستان کے متعدد اخبارات مین شہ سرخی بن کر شائع ہوئی ۔ وزیر خارجہ سشماسوراج نے توئٹر ایک خط شیئر کرکے لکھاکہ ہندوستان نے پاکستان مین موجود ہندوستانی ہائی کمشنر سے رپوٹ طلب کی ہے ۔
انہیں دنوں ہندوستان میں بھی ایک واقعہ پیش آیا۔دہلی سے متصل ہریانہ گرگاﺅں میں ہولی کے دن ایک مسلم گھرانے پر تیس سے چالیس شرپسندوں نے حملہ کردیا ۔گھر کے شیشہ کو توڑ ا ،ایک مرد کی بے دردی سے پٹائی کی ۔ مسلم خواتین کے ساتھ زیادتی کی ۔ دانستہ نام کی ایک لڑکی نے ہمت کرتے ہوئے دانستہ طور پر اس پورے واقعہ کو اپنے کیمرے میں قید کرلیا جس کے بعد یہ یہ دہشت گردی منظر عام پر آئی۔ پاکستان ہندو کونسل کے چیرمین اور پی ٹی آئی سے رکن اسمبلی رامیش کمار کی قیادت میں ہندو کمیونٹی سخت احتجاج کیا جس کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ہندو اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور اغوا پر ایکشن لیا ۔
سندھ اور پنجاب کے وزیر اعلی کو انہوں نے معاملہ کی تفتیش کا حکم دیا ۔اس دوران دونوں اغوا شدہ لڑکیوں نے سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کرکے یہ وضاحت بھی کی کہ ہم نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔تازہ اطلاعات کے مطابق نکاح پڑھانے والے عالم دین سمیت کل سات لوگوں کو پاکستان پولس نے اغوا کے معاملے میں گرفتارکرلیاہے ۔

https://twitter.com/MJibranNasir/status/1109190620172730368

ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ملک میں مسلم فیملی پر ہونے والے دہشت گردانہ حملہ کی کوئی مذمت تک نہیں کی ہے ،کاروائی کی بات تو بہت دور کی ہے ۔ ماب لنچنگ کے سیکڑوں واقعات کی بھی اب تک انہوں نے کھل کر مذمت نہیں کی ہے ۔وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاکستان کے معاملے پر ہائی کمشنر سے رپوٹ طلب کرلی لیکن انہوںنے گرگاﺅں کے دہشت گردانہ حملہ کے بارے میں ایک لفظ تک مذمت کا نہیں لکھا ۔
توئٹر پر سشماسوراج اور پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چودھری کے درمیان ہونے والی بحث بھی موضوع بحث ہے ۔سشما سوراج نے ٹوئٹ کیاتھاکہ ہندوستان نے پاکستان میں ہندوستانی ہائی کمیشن سے دوہندولڑکیوں کے ساتھ ہونی والی زیادتی پر رپوٹ طلب کیاہے ۔ پاکستان کے وزیر اطلاعات ونشریات فواد چودھری نے اس کے جواب میں لکھامیڈم! سندھ سے ان دونوں پاکستانی ہندو لڑکیوں کا معاملہ پاکستان کا ایک داخلی معاملہ ہے۔فواد چوہدری نے یہ بھی لکھا کہ اول تو یہ پاکستان کا ایک داخلی معاملہ ہے اور دوسرے یہ کہ اپنی یہی توجہ ہندوستان کو دراصل اپنے ہاں اقلیتوں کے حقوق واحترام پر دینا چاہیے۔
پاکستانی وزیر اطلاعات کے بقول ان دونوں ہندو بہنوں کے مبینہ اغوا کے بارے میں اسلام آباد میں انسانی حقوق کی وزارت کو ایک جامع انکوائری کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔ ان دونوں لڑکیوں کی عمریں 14 اور 16 برس ہیں اور پاکستان میں سوشل میڈیا کے مطابق انہوں نے ایک درگاہ پر اسلام قبول کیاہے۔
جبر ا مذہب تبدیل کرانا سراسر زیادتی اور غیر اسلامی عمل ہے ۔ قرآن کریم میں صاف طور پر کہاگیاہے کہ مذہب میں کوئی زبردستی نہیں ہے ۔ پاکستان میں جو لوگ اس طرح کررہے ہیں ان کے خلاف سخت ایکشن لینا وہاں کی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن دوسری طرف ہندوستان کی حکومت کو بھی اپنے یہاں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر توجہ دینی چاہیے ۔

ایک ہی وقت میں دوجگہ ایک جیسا واقعہ پیش آیا ۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے اسے اپنی نوٹس میں لیتے ہوئے سخت ہدایات جاری کی ۔ہندوستان کے وزیر اعظم نے کسی بھی طرح کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔حکمراں جماعت کے کسی ادنی لیڈر نے بھی اس پر افسوس کا اظہار نہیں کیا ۔ہندوستان کی میڈیا نے بھی اس واقعہ پرکوئی توجہ نہیں دی ۔ پاکستان کی لیڈاسٹوری بناکر شائع کی گئی لیکن گروگرام واقعہ کی خبر چھپا دی گئی ۔
stqasmi@gmail.com