پارلیمنٹ کے ریکاڈ کے مطابق مسلم ممبران پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ سوالات پوچھنے والے اسد الدین اویسی اور مولانا بدرالدین اجمل ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک آزاد پارٹی کے لیڈر ہیں ۔ان پر کسی کا دباﺅ نہیں ہے ۔ایسی ہی پارٹیوں کے نمائندے مسلمانوں کے حق میں بہتر ثابت ہوتے ہیں ۔
نئی دہلی (ملت ٹائمز)
ہندوستان کے تمام انتخابات میں مسلم رائے دہندگان نے لوک سبھا کی تمام سیٹوں کے علاوہ مسلم اکثریتی حلقوں سے بھی سیکولر پارٹیوں کے امیدواروں کوووٹ دیکر انہیں ایوان میں بھیجا لیکن نتیجے میں مسلمانوں کو کچھ نہیں ملا ۔انہیں سیاسی حصہ داری نہیں دی گئی ۔ مختلف پارٹیوں نے مسلم امیدواروں کو پارٹی ٹائم لائن سے اوپر اٹھ کر اپنے حلقہ ،عوام اور قوم کے مفاد کی بات نہیں کرنے دی اس لئے سترہویں لوک سبھا انتخابات میں مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ مسلم اکثریتی حلقوں سے مسلم لیڈر شپ والی پارٹیوں کے نمائندوں کو ووٹ دیں اور انہیں ایوان میں پہونچائیں ۔

ان خیالات کا اظہارملت ٹائمز کانکلیو میں شریک علماءودانشوران نے کیا اورکانکلیومیں شامل تقریبا سبھی پینلسٹ، شرکاءاور مہمانوں نے مشترکہ طور پر ملت ٹائمز کے اس نظریہ سے اتفاق کیاکہ ہندوستان میں اب مسلم لیڈر شپ والی سیاسی پارٹیوں پربھروسہ اور اعتماد کرتے ہوئے ان کے نمائندوں کو ایوان تک پہونچانا چاہیئے اور ہمیں ان کو ہر طرح سپورٹ کرنا چاہیئے ۔ سیکولر پارٹیوں کے امیدواروں کو وٹ دینے کے بجائے مسلم قیادت والی سیکولر پارٹیوں کے نمائندے کو ووٹ دینا چاہیئے اور ان سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ مسلم قیادت والی پارٹیوں کو بھی اتحاد کا حصہ بنائیں ۔

واضح رہے کہ معروف ویب پورٹل ملت ٹائمز نے ہوٹل ریور ویو جامعہ نگرمیں گذشتہ شب 30مارچ کو” عام انتخابات 2019 میں ہندوستانی مسلمانوں کا سیاسی لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے“ کے موضوع پر پر ایک کانکلیو کا انعقاد کیا جس کے متعدد سیشن میں مسلمانوں کی سیاسی حصہ دار ی ،موثر نمائندگی اور اقتدارمیں شراکت پر کھل کر بحث ہوئی ۔الیکشن 2019 کے پیش نظر مسلمانوں کیلئے علماءودانشوران اور اسکالرس نے یہ لائحہ عمل طے کیا کہ سترسالوں میں ہم نے کانگریس ،آرجے ڈی ،ایس پی ۔ بی ایس پی ۔ ٹی ایم سی ، جے ڈی ایس ۔سی پی ایم سمیت تقریبا سبھی پارٹیوں پر بھروسہ کیا ۔ان کے نمائندوں کو مسلم اکثریتی حلقوں سے ووٹ دیکر کر ایوان میں بھیجا ۔ رواں انتخابات میں ملک کے لوک سبھا کی جن سیٹوں پر آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ ، آ ل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین ، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا، راشٹریہ علماءکونسل، سمیت متعدد قابل ذکر مسلم لیڈر شپ والی پارٹیوں کے نمائندے انتخاب لڑرہے ہیں وہاں مسلمانوں کو انہیں بھر پور سپورٹ کرنا چاہیئے ۔ بڑی تعداد میں ووٹ دیکر انہیں پارلیمنٹ میں پہونچانا چاہیئے ۔ یہ لوگ ہندوستان کے مسلمانوں ،کمزوروں ،مظلوموں ،اقلیتوں ،دلتوں اور پسماندہ طبقات کی مضبوط آواز ہوں گے ۔ان کی حقوق کی لڑائی لڑیں گے اور نظریاتی سطح پر ہماری ترجمانی کریں گے ۔ بقیہ دیگر سیٹوں پر آپ سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیجئے ان کے نمائندوں کو ایوان تک پہونچایئے ۔

کانکلیو میں یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیاں مسلم قیادت کو پنپنے نہیں دینا چاہتی ہے۔ ان کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ مسلمان سیاسی طور پر کمزوربے بس بے اختیار اور محتاج بن کررہیں ۔حالاں کہ پینل میں شامل کانگریسی رہنما ڈاکٹر شکیل الزماں انصاری سابق وزیر حکومت بہار نے اسے مسترد کردیااور اس نظریہ سے عدم اتفاق کرتے ہوئے کہاکہ کانگریس میں سبھی کو یکساں نمائندگی حاصل ہے۔

سینئر صحافی جناب اے یو آصف نے اپنے صدارتی خطاب میں اس بات کیلئے پرزور اپیل کی کہ رواں انتخابات میں مسلم رائے دہندگان کچھ سیٹوں پر سیکولر مسلم لیڈر شپ والی پارٹیوں کو ووٹ دیکر جتانے کا بھی تجربہ کریں اور انہیں اقتدار تک پہونچائیں ۔انہوں نے بتایاکہ پارلیمنٹ کے ریکاڈ کے مطابق مسلم ممبران پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ سوالات پوچھنے والے اسد الدین اویسی اور مولانا بدرالدین اجمل ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک آزاد پارٹی کے لیڈر ہیں ۔ان پر کسی کا دباﺅ نہیں ہے ۔ایسی ہی پارٹیوں کے نمائندے مسلمانوں کے حق میں بہتر ثابت ہوتے ہیں ۔ پروفیسر اختر الواسع صاحب نے کہا” میں اختر الواسع ہوں اور اختر الایمان پر یقین رکھتا ہوں۔ ایسے مخلص ،ہمدرد اور بے لوث لیڈر کو ہم پارلیمنٹ میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔در اصل ان کا اشارہ کشن گنج لوک سبھا سیٹ سے ایم آئی ایم کے امیدوار اختر الایمان تھے ۔

ملت ٹائمزچیف ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ ہم ووٹوں کو منتشر ہونے کے بجائے اسے متحد کرنے کیلئے یہ لائحہ عمل طے کررہے ہیں کیوں کہ کانگریس نے آسام ،بہار اور یوپی سمیت کئی لوک سبھا حلقوں پر مسلم امیدوار کھڑا کردیاہے جہاں پہلے سے مسلم سیکولر پارٹیوں کے امیدوار جیت حاصل کررہے ہیں ۔ایسے میں یہ خدشہ ہے کہ وہاں کا ووٹ تقسیم ہوجائے گا اورفرقہ پرست پارٹیوں کی بآسانی جیت ہوجائے گی اس لئے ایسی سیٹوں کیلئے ہم یہ لائحہ عمل طے کررہے ہیں کہ وہاں کے مسلم رائے دہندگان مسلم لیڈر شپ والی پارٹیوں کو متحد ہوکر ووٹ دیں ۔

کانکلیوکے متعدد سیشن میں ایڈوکیٹ محمود پراچہ سینئر وکیل سپریم کورٹ آف انڈیا ۔ معروف تجزیہ نگار محترمہ تسنیم کوثر جنرل سکریٹری بنات ۔ ایڈوکیٹ شرف الدین احمد نائب صدر ایس ڈی پی آئی ۔ جناب کلیم الحفیظ چیرمین الحفیظ ایجوکیشنل اکیڈمی ۔ مفتی اعجاز ارشدقاسمی رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ ۔مشکور احمد عثمانی سابق صدر اے ایم یو اسٹوڈینٹ یونین ۔ڈاکٹر شکیل الزماں انصاری سابق وزیر حکومت بہار ۔معروف تجزیہ نگار مولانا عبد الرحمن عابد۔ سینئر صحافی محترمہ شبنم صدیقی ۔ ڈاکٹر عبد القادر شمس سینئر سب ایڈیٹر روزنامہ سہارا۔ بلیغ نعمانی ترجمان ایم آئی ایم ۔ انٹرنیشنل تجزیہ نگار اختر الاسلام صدیقی ۔ سینئر صحافی قاسم سید چیف ایڈیٹر روزنامہ خبریں نئی دہلی ۔ڈاکٹر خالد اعظمی کویت ۔ ڈاکٹر منظر امام۔ڈاکٹر مظفرحسین غزالی سمیت متعدد علماء،دانشوران اور اسکالرس نے پینل ڈسکشن میں حصہ لیا ۔ موضوع سے متعلق سوال کیا ۔ اور ایک جامع بحث ہوئی ۔ فیصل نذیر اور شبینہ نازنے نظامت کا فریضہ انجام دیا ۔ اس کے علاوہ ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی ۔ روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر قاسم سید اور ملت ٹائمز کے سب ایڈیٹر محمد انظر آفاق نے متعدد سیشن میں اینکرنگ کا فریضہ انجام دیا ۔ قبل ازیں محمد افسر علی کی تلاوت سے کانکلیو کا باضابطہ آغاز ہوا ۔ملت ٹائمز کانکلیو کی ویڈیوز ملت ٹائمز کے یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج پربھی نشر کی جائے گی تاکہ وہ لوگ بھی استفادہ کرسکیں جو یہاں نہیں آسکے ۔