یہ خطبہ استقبالیہ ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر شمس تبریز قاسمی کا ہے جسے انہوں نے ملت ٹائمز کانکلیومیں گذشتہ 30 مارچ کو پیش کیاتھا ۔قارئین کے استفادہ کیلئے اسے یہاں شائع کیا جارہاہے ۔
آزاد ہندوستان میں کل 16 انتخابات ہوچکے ہیں ۔17 واں لوک سبھا انتخاب ہمارے سامنے ہے۔ 1952 میں ہوئے پہلے لوک سبھا انتخابات سے لیکر اب تک کی تاریخ کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو مسلمانوں کی سیاسی حصہ داری ہمیں صفر نظر آتی ہے ۔ کبھی مسلمانوں نے پنڈٹ نہرو کا ساتھ دیا ۔کبھی اندرا گاندھی کو انہوں نے اقتدار تک پہونچایا ۔کبھی جے پرکاش نارائن نے مسلمانوں کو اپنے ساتھ شامل کیا ۔کبھی ملائم سنگھ یادو ،کبھی لاپرسادیادو ،کبھی مایاوتی ،کبھی نتیش کمار او رکبھی رام ولاس پاسوان کا مسلمانوں نے بھر پور ساتھ دیا لیکن اس پورے سترسالہ سفر میں مسلمانوں نے خود اپنے لئے کیا کیا ؟۔کیا کبھی مسلمانوں کو سیاسی بالادستی نصیب ہوئی ؟کیاکبھی حکومت میں حصہ داری دی گئی ؟۔کیا کبھی مسلمانوںنے کنگ میکر بننے کے بجائے خود کنگ بننے کی کوشش کی ؟۔ کیا کبھی مسلمانوں نے کسی کو جتانے اور کسی کو ہرانے کے بجائے خود جیتنے کی کوشش کی ؟ ایسا نہیں ہے کہ یہ مسلمانوں کیلئے ممکن نہیں ہے ۔مسلمان خود جیت نہیں سکتے ہیں ؟ مسلمان سیاسی بالادستی حاصل نہیں کرسکتے ہیں ؟ لیکن مسلمانوں نے تجربہ نہیں کیا۔ خوف اور دہشت سے نکلنے کی کوشش نہیں کی ۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد سے زائدہے ۔ آسام اور بنگال میں 34 فیصد مسلم آباد ی ہے ۔یوپی میں 17 فیصد مسلم آبادی ہے ۔ بہار میں 18 فیصد مسلم آبادی ہے ۔ کسی بھی ایک کمیونٹی کی ایک انتی بڑی تعداد اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کیلئے کافی ہے ۔ خاص طور پر بنگال اور آسام میں تنہا مسلمان اپنی حکومت بناسکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہورہاہے۔ برہمن ، یادو اور دلتوں کے ساتھ مسلمانوں نے رہنا پسند کیا خود ان کو اپنے ساتھ شامل کر کے سیاسی بالادستی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ۔
ماضی میں اس طرح کی جب بھی کوئی کوشش ہوئی ۔کسی مرد مجاہد نے ہندوستان کے آئین اور دستور کے مطابق کوئی سیاسی پارٹی بنائی ۔سیاسی سطح پر مسلمانوںدلتوں اور دیگر برادارن وطن تک اپنی پہونچ بنانے کی کوشش کی تو اس کی سب سے زیادہ مخالفت خود مسلمانوں نے کی ۔ علماءدانشوران سمیت سبھی طبقے نے ایسے لوگوں کو مسلما ن مخالف اوربی جے پی کا ایجنٹ قرار دیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ ایسی تحریکوں کو روکنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ہندوستان کے سارے ہندو متحد ہوجائیں گے ۔معاملہ کمیونل ہوجائے گا ۔ووٹ پولرائزڈ ہوجائے گا ۔مسلمان تنہا بچ جائیں گے ۔
میر ی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ ووٹ کیسے پولراائزڈہوجاتاہے۔ یادو برادری کی علاحدہ پارٹی ہے ۔ سنہیوں کی علاحدہ پارٹی ہے ۔ پاسوانوں کی علاحدہ پارٹی ہے ۔ دھوبیوں کی علاحدہ پارٹی ہے ۔دلتوں کی علاحدہ پارٹی ہے ۔کانگریس اور بی جے پی پر پہلے برہمنوں کا قبضہ ہے ۔ سبھی اپنی کمیونٹی کی قیادت والی پارٹی کو وٹ دیتے ہیں اور ان میں سے جو مسلمانوں کو لبھانے میں کامیاب ہوجاتاہے وہ اقتدار تک پہونچ جاتاہے ۔ کبھی نہر و پریوار نے مسلمانوں کا سہار الیکر اقتدار حاصل کیا ۔یوپی میں ملائم سنگھ اور مایاوتی نے مسلمانوں کا ساتھ حاصل کرکے حکومت بنائی ہے ۔بہار میں لالو پرساد اور نتیش کمار نے یہی کیاہے ۔ ایک مرتبہ رام ولاس پاسوان نے یہی کرنے کی کوشش کی تھی ۔ بنگال میں ممتامسلمانوں کے ووٹ پر حکومت کررہی ہے ۔آسا م میں کانگریس نے کبھی ایک مسلمان کو وزیر اعلی تک نہیں بنایا اور اب وہاں ایک مسلمان کی قیادت والی پارٹی سرگرم ہوئی ہے تو کانگریس پہلی فرصت میں اسے ختم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے ۔
سبھی کمیونٹی نے اپنی منزلیں طے کرلی ہے ۔ سبھی نے اپنے راستے کا انتخاب کرلیاہے ۔ بھٹکا ہوا صرف مسلمان ہے جنہیں ستر سالوں کے بعد بھی یہی لگ رہاہے کہ اگر ہم نے سیاسی پارٹی بنائی ۔ مسلم لیڈر شپ کو تسلیم کرلیاتو آر ایس ایس ہمارا قتل عام کردے گی ۔ بی جے پی حکومت بنالے گی ۔ ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ ہوجائے گا ۔
یہ خوف اور ڈر سترسالوں سے دن بہ دن مسلمانوں کے درمیان گہرا کیاجارہاہے اور مسلمان اس کے شکار ہوتے جارہے ہیں ۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ جب کانگریس کے دور حکومت میں دہشت گردی کے نام پر صرف مسلمانوں کی بے جاگرفتاریاں ہوتی ہے ۔ مسلم کش فسادات ہوتے ہیں تو الزام بی جے پی پرعائد کردیاجاتاہے ۔ بی جے پی حکومت میں ماب لنچنگ ہوتی ہے تو اس کیلئے بھی ذمہ دار بی جے پی ہوتی ہے اور پھر کانگریس کی واپسی کی دعا ئیں کی جاتی ہے۔
کانگریس نے مولانا ابواالکلام آزاد کو رامپور الیکشن لڑنے کیلئے بھیجا ۔ مسلمانوں کو انہیں حلقوں سے امیدوار بنایاجاتاہے جہاں مسلم ووٹ اکثریت میں ہوتے ہیں ۔اب تو المیہ یہ ہے کہ مسلم اکثریتی حلقوں میں بھی مسلم امیدوار نہیں اتارے جارہے ہیں ۔ دربھنگہ اور پورنیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ کبھی بھی کوئی پارٹی کسی مسلمان کو ایسے حلقہ سے امیدوار نہیں بناتی ہے جہاں مسلما ن ووٹرس قابل ذکرتعداد میں نہیں ہوتے ہیں ۔نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلم ووٹوں کی بنیاد پر جیت حاصل کرکے حکومت بناتی ہے او رپھر ان مسلم نمائندوں کو بے بس بنا دیتی ہے ۔پارٹی ٹائم لائن کی مجبوریاں ان کی زبان پر تالا لگادیتی ہے ۔ ایسے مسلم رہنما مسلم ووٹ حاصل کرکے ضرور جیت جاتے ہیں لیکن اپنی مسلم کمیونٹی کیلئے کچھ کرنہیں پاتے ہیں ۔ نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں ہوتی ہے کہ وہ کرنا نہیں چاہتے ہیں بلکہ وہ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن پارٹی روک دیتی ہے ۔پارٹی سے بغاوت کی ان میں ہمت نہیں ہوتی ہے ۔ا ن کے پاس کوئی متباد ل نہیں ہوتاہے ۔ بعد میں ایسے لوگوں کو پارٹی نکال کر باہر کردیتی ہے اور ناکارہ ہوجاتے ہیں ،پھر نہ تو قوم میں ان کی کوئی اہمیت ہوتی ہے اور نہ ہی سماج میں ۔یہ سب اس لئے ہوتاہے کہ ہم دوسروں کی لیڈر شپ پر بھروسہ کرتے ہیں ۔اپنی قیادت پر اعتماد نہیں کرتے ہیں ۔
جمہوریت میں مخلوط حکومت سب سے اہم ہوتی ہے۔سیکولرزم کی مضبوطی اور جمہوریت کی کامیابی کیلئے مخلوط حکومت ضروری ہے۔ علاقائی پارٹیوں نے اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے ہندوستان میں ترقی کی ہے۔ اپنی کمیونٹی کے ووٹس کی بنیاد پر پارٹی قائم کی ہے اور سرکار پر دباو¿ ڈال کر اپنی کمیونٹی کے فلاح و بہبود کا کام کیاہے۔ تازہ مثال مدھیہ پردیش کی ہے جہاں کانگریس کی حکومت کو بی ایس پی کے دو امیدواروں کی حمایت حاصل ہے۔ یہ حمایت نہ ملنے کی صورت میں کانگریس وہاں اکثریت ثابت کرنے میں ناکام ہوجائے گی۔ بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کی تشکیل کے فوراً بعد کانگریس سے مطالبہ کیاکہ دلتوں پر درج تمام مقدمات واپس لئے جائیں ورنہ ہم حمایت واپس لے لیں گے۔ کانگریس کی کمل ناتھ حکومت کو یہ دباو¿ قبول کرتے ہوئے مقدمہ واپس لینا پڑا کیوں کہ اگر وہ اس پر عمل نہیں کرتے تو حکومت برقرار نہیں رہ پاتی۔ دلتوں کو یہ کامیابی اس لئے ملی کہ ان کی علاحدہ پارٹی تھی کانگریس کے ٹکٹ پر انہوں نے جیت حاصل نہیں کی تھی۔ کانگریس میں رہتے ہوئے دس ایم ایل اے بھی اپنی پارٹی سے یہ مطالبہ منظور نہیں کراسکتے تھے۔
گذشتہ پندرہ بیس سالوں کے دوران ہندوستان کے کچھ علاقوں میں مسلم رہنماو¿ں نے اپنی سیاسی پارٹی تشکیل دیکر علاقائی سطح پر ایک پہچان بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ سماجی، رفاہی اور دیگر کاموں کی وجہ سے اب وہ عوام میں مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ ایسی پارٹیوں کی فہرست میں آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ سر فہرست ہے جو آسام میں ایک مرتبہ اپوزیشن پارٹی کا روال ادا کرچکی ہے۔ 2014 کے لوک سبھا میں آسام کی 14 سیٹوں میں سے 3 سیٹوں پر جیت حاصل کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ کانگریس بھی تین ٹکٹ پر ہی محدود رہی اور ا ب آسام میں کانگریس اور یو ڈی ایف کی حیثیت برابر ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی ) بھی بہت مضبوط ہوچکی ہے۔ بطور خاص کرناٹک ، کیرالا ، ٹمل ناڈو اور راجستھان میں زمینی سطح پر یہ پارٹی مضبوط ہوچکی ہے۔ احتجاجی سیاست اور زمین سے جڑے مسائل کو اٹھانے کیلئے ایس ڈی پی آئی سب سے متحرک پارٹی مانی جاتی ہے۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا بھی رفتہ رفتہ عوام میں پہچان بنارہی ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اب حیدر آباد سے نکل کر ہندوستان کے مختلف علاقوں میں مضبوط ہوچکی ہے۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کے ساتھ ایم آئی ایم کی حکومت قابل تقلید مثال ہے اور ہندوستان کے مسلمانوں کو اب اسے سامنے رکھتے ہوئے اپنی سیاسی پالیسی طے کرنے کی ضرروت ہے۔
مسلم قیادت والی ان پارٹیوں کا ایجنڈا ہے کہ ہم کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کا حصہ بننے کے بجائے اپنی پارٹی کی شناخت کے ساتھ اتحاد کریں۔ ان کے ٹکٹ سے مسلم امیدوار اتارنے کے بجائے اپنی پارٹی کے ٹکٹ پر امیدوار اتاریں اور سیکولر پارٹیاں ہمارے ساتھ اتحاد کرے۔ حکومت میں ہم حصہ دار رہیں نہ کے احسان مند رہیں۔
کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کو یہ نظریہ اور ایجنڈا منظور نہیں ہے۔ پانچ فیصد ہوکر یہ لوگ 17 فیصد مسلمانوں کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں اور جب کوئی مسلم ایسی کوشش کرتاہے تو سبھی متحدہوکر اسے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کیلئے وہ کسی بھی حدتک جانے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔
عام انتخابات 2019 کی مثال ہمارے سامنے ہیں جہاں کانگریس اور دیگر علاقائی سیکولر پارٹیوں نے متعدد نوزائیدہ اور غیر اثر رسوخ والی پارٹیوں کو اپنے اتحاد میں شامل کرلیاہے۔صرف اور صرف ان پارٹیوں کو نظر انداز کیا ہے جس کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ بہار میں جتنا مکیش سہنی اور مانجھی کی پارٹی کا اثر رسوخ ہے اس سے دس گنا زیادہ ایس ڈی پی آئی کا کرناٹک ، تمل ناڈو ، کیرالا اور راجستھان میں اثر رسوخ ہے لیکن اسے کانگریس نے اتحاد میں شامل نہیں کیا۔ یو ڈی ایف کے آسام میں تین ایم پی ہیں اس کے باوجود کانگریس نے ان کی پیشکش کو ٹھکرادیااور تمام سیٹوں پر اپنا امیدوار اتار دیا ۔ مہاگٹھبندھن نے کئی پارٹیوں کو اتحاد میں شامل کیا ہے ، کئی پارٹیوں کیلئے ایک سیٹ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے، صرف ایم آئی ایم کو نظر انداز کیا ہے جو گذشتہ چار سالوں سے بہار کے سیمانچل میں فعال ہے اور اس کے ٹکٹ پر کشن گنج لوک سبھا میں اختر الایمان مضبوط امیدوار بن چکے ہیں۔ کانگریس اور آر جے ڈی اگر چاہتی تو کم ازکم یہاں پر اپنے امیدوار کو اتار نے سے روک سکتی تھی۔ ان کی یہ قربانی بھی اہم ہے کہ 2014 میں انہوں نے جدیو کے ٹکٹ پر میدان میں آنے کے باوجود دعویداری واپس لے لی اور کانگریس کی حمایت کرکے مولانا اسرارالحق قاسمی رحمة اللہ علیہ کی جیت میں اپنا کردار اداکیا۔
ہندوستان میں 50 سے زائد ایم پی صرف مسلم ووٹس کی بنیاد پر منتخب ہوسکتے ہیں اور ایک نظریہ اور آئیڈیا لوجی کے تحت یہ کامیابی مل جاتی ہے تو یادرکھیئے کوئی بھی حکومت اس سے تعاون لئے بغیر نہیں بن پائے گی اور جب حکومت میں ہماری حصہ داری ہوگی تو ہماری بات سنی جائے گی ۔ ہمارا دباﺅ قبول کیا جائے گا ۔ ورنہ اگر ہماری قوم کا کوئی فرد وزیر اعظم بھی بن جائے گا تو اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ نہیں لے پائے گا ۔ پارٹی ٹائم لائن کی مخالفت کی جرات اس میں کبھی نہیں آپائے گی ۔متعدد ریاستوں میں 70 سے 120ایم ایل اے صرف مسلم ووٹ کی بنیاد پرجیت حاصل کرسکتے ہیں اور اگر کسی بھی ریاست میں ہمیں اتنی بڑی کامیابی مل جاتی ہے تو وہاں ہمارے اتحاد کے بغیر حکومت نہیں بن سکتی ہے ۔
ملت ٹائمز نے اس موضوع پر مسلسل لکھاہے ۔ ایسی پارٹیوں کی سرگرمیوں کو ملت ٹائمز میں خصوصیت کے ساتھ جگہ دی جاتی ہے ۔اسی درد اور جذبہ کے پیش نظر ہم نے آج کا یہ کانکلیو منعقد کیاہے ۔ ہم یہ کانکلیو دو ماہ پہلے منعقد کرنا چاہ رہے تھے لیکن کچھ ضروی مصروفیات کی وجہ سے ممکن نہیں ہوسکا ۔
ہم نے تقریبا سبھی ملی جماعتوں کے قائدین کو یہاں مدعو کیا ۔انہیں دعوت لیکن ان میں سے کئی نے کوئی توجہ نہیں دی ،کئی نے کچھ مصلحت کی بنیاد پر معذرت کرلی لیکن ہمارا عزم پختہ ہے ۔یہ تحریک ہم جاری رکھیں گے اور ملٹ ٹائمز کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے درمیان سیاسی شعور بیدار کرتے رہیں گے ۔یہ کانکلیوشروعات ہے ۔آئندہ دنوں میں مزید منظم انداز میں ہم کام کریں گے ۔سترسالوں میں ہم نے کسی کو جتانے اورکسی کو ہرانے کیلئے ووٹ دیا اب ہم خود کو جیتنے کیلئے ووٹ دیں گے ۔