حدیثِ رمضان المبارک (چھٹا روزہ )

عبد اللہ سلمان ریاض قاسمی
استقبال رمضان : خطبنارسول اللہﷺ فی اٰخر یوم من شعبان فقال یٰا یھا الناس قد اظلکم شھر عظیم مبارک شھر فیہ لیلۃ خیر من الف شھر(مشکوٰۃ ج ۱)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ کو ہمیں خطبہ دیا فرمایا کہ تمہارے اوپر ایک مہینہ آرہا ہے، بہت مبارک مہینہ ہے اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے یعنی شب قدر۔
حدیث مذکورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اہمیت کے ساتھ رمضان سے ایک دن پہلے صحابہ کو جمع فرما کر جن برکات کا ذکر کیا ہے یہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لئے عظیم سبق ہے تاکہ اس ماہ مبارک سے نفع اٹھا نے کے لئے انسان تیار ہو جائے۔
روزے کی نیت : نیت سے مراد دل کا ارادہ ہے، زبان سے ادائیگی ضروری نہیں ہے بلکہ جب دل میں خیال ہے کہ آج میرا روزہ ہے اور دن بھر روزے کے ممنوعات سے رکا رہا تو اس کا روزہ ہوگیا۔اور زبان سے بھی نیت اس طرح کر لیں۔شب میں بِصَومِ غدٍ نَوَیْتُ اور دن میں بِصَوْمِ الْیَومِ نَوَیْتُ۔ کہے ۔
روزے کی ابتداء: روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو دنیاکے تمام مذاہب میں کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتاہے۔ دنیا میں جتنے مذاہب اور امتیں آئیں سب میں روزے کا ثبوت ملتا ہے۔ یہودو نصاریٰ بھی روزے رکھتے تھے یونانیوں کے یہاں بھی روزہ رکھنے کا چلن تھا۔ ہندو دھرم، بدھ مذہب میں بھی بَرت (روزہ) مذہب کا رکن ہے۔
الغرض دنیا کے تمام مذاہب میں روزے کی فضیلت و اہمیت مسلم ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے نبی خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر قوم و مذہب میں روزے کا وجود کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتاہے۔
ہمارے روزے اور غیروں کے روزوں میں فرق یہ ہے کہ ہمارا روزہ تقویٰ اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد لَعَلَّکمْ تَتَّقُوْنَ سے اسلامی روزہ کی اصل غرض و غایت کی تصریح ہوگئی کہ اس سے مقصود تقویٰ کی عادت ڈالنا اور اُمت و افراد کو متقی بنانا ہے۔تقویٰ نفس کی ایک مستقل کیفیت کا نام ہے جس طرح مضر غذاؤں اور مضر عادتوں سے احتیاط رکھنے سے جسمانی صحت درست ہوجاتی ہے، اور مادّی لذّتوں سے لطف و انبساط کی صلاحیت زیاد ہ پیدا ہوجاتی ہے، بھوک خوب کھل کر لگنے لگتی ہے، خون صالح پیدا ہونے لگتا ہے، اسی طرح اس عالم میں تقویٰ اختیار کرلینے سے عالمِ آخرت کی لذتوں اور نعمتوں سے لطف اُٹھانے کی صلاحیت و استعداد انسان میں پوری طرح پیدا ہوکر رہتی ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں اسلامی روزہ کی افضلیت تمام دوسری قوموں کے گرے پڑے روزں پر علانیہ ثابت ہوتی ہے۔اور خیر مشرک قوموں کے ناقص ، ادھورے اور برائے نام روزوں کا تو ذکر ہی نہیں ، خود مسیحی اور یہودی روزوں کی حقیقت بس اتنی ہے کہ وہ یا تو کسی بلا کو دفع کرنے کے لئے رکھے جاتے ہیں یا کسی فوری اور مخصوص روحانی کیفیت کے حاصل کرنے کو، یہود کی قاموس اعظم جیوش انسائیکلوپیڈیا میں ہیکہ ْ قدیم زمانہ میں روزہ یا تو بطورعلامتِ ماتم کے رکھا جاتاتھا، اور یا جب کوئی خطرہ در پیش ہوتا تھا، اور یا پھر جب سالک اپنے میں قبولِ الہام کی استعداد پیدا کرنا چاہتا تھا ، (تلخیص از تفسیر ماجدی)
(ملت ٹائمز)