عرفان ا لحق
اگر یہ کہا جائے کہ آپA نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے تو یہ بہت کم بات ہو گی کیونکہ جو کچھ آپA پر تئیس سالوں میں اُترا ہے آپA نے اِس خطبے میں سمو دیا ہے۔ اور ہم جوں جوں اس میں آگے بڑھتے ہیں، ہر قدم پر کوئی نہ کوئی اللہ تعالیٰ کا اور اللہ تعالیٰ کے رسولA کا حکم موجود ہوتا ہے۔ خطبے میں تو ایک ایک order کے لیے کم از کم ایک لیکچر درکار ہوتا ہے تاکہ مختصر ترین بات اس پہ کر دی جائے، اس پہ وضاحتیں دے دی جائیں لوگوں کو اور یہ سمجھا دیا جائے کہ اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسولA کیا چاہتے ہیں۔ الفاظِ مبارک یہ تھے کہ ’’اپنے رب کی عبادت کرو‘‘ تو عبادت پہ لیکچر ہوا۔ ’’پانچ وقت کی نماز ادا کرو‘‘ تو ایک لیکچر نماز پہ ہوا۔ ’’رمضان کے روزے رکھو‘‘ ایک لیکچر روزوں کے حوالے سے ہو گیا، حالانکہ وہ انتہائی مختصر رہا۔ اور پھر یہ تھا کہ ’’زکوٰۃ ادا کرو۔‘‘ آج بات زکوٰۃ کے حوالے سے ہو گی۔ زکوٰۃ کس کو دینی چاہیے، کس کو نہیں دینی چاہیے، کس چیز پہ کتنی ہے اور کس چیز پہ کتنی نہیں ہے۔۔۔۔۔؟ یہ ہمارا موضوؤ گفتگونہ کبھی رہا اور نہ آج ہے، یہ تو فقہا کا کام ہے اور مختلف فقہا کے مطابق اس کی شرائط مختلف ہیں۔
ہمارا تو موضوع گفتگو شروع سے یہ رہا ہے کہ جتنے بھی پروردگارِعالم کے احکامات ہیں یا جو اراکانِ دین ہیں، یا صفتِ ایمان ہے، یا اللہ تعالیٰ کے رسولA کا اتباع ہے، اس کے پیچھے جو رُوح ہوتی ہے، جو مقصود ہوتا ہے، اُس پہ بات کرنی ہوتی ہے۔ ہم نے اس کے فقہی مسائل پہ نہ کبھی بات کی اور نہ ہی یہ موضوع گفتگو رہا۔ اصل میں تمام کی تمام عبادات جو اسلام میں ہیں، جو orders اللہ تعالیٰ نے دئیے ہیں، یہ ایک سلسلہ ہے۔ اگر ہم کبھی اس کو غور سے دیکھیں تو یہ ایک تسلسل کا نام ہے۔ جس وقت رسولِ اکرمA نے تبلیغ دین شروع فرمائی۔۔۔۔۔۔۔ اب یہاں سے ایک تسلسل شروع ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔ تو آپA نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ کو ایک مانو، اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور بتوں کی پوجا چھوڑ دو۔‘‘ بہت سے لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور ہدایت دی، وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ اب بتوں کی پوجا تو انہوں نے چھوڑ دی مگر دوسری طرف history یہ بتاتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کے اس وقت تک انسان یقیناًکسی کی پوجا کرتا چلا آیا ہے۔ پہلے خدائے واحد کی کرتا تھا، پھر بگاڑ پیدا ہوا تو کسی نے سورج کی پوجا شروع کر دی، کسی نے چاند کی پوجا شروع کر دی، کسی نے برگد کے درخت کی پوجا شروع کر دی، کسی نے ہاتھی کی پوجا شروع کر دی، کسی نے آگ کی پوجا شروع کر دی اور کسی نے بت پوجنے شروع کر دئیے۔ بہرحال پوجا کا کام جاری و ساری رہا۔ خود مکہ میں تین سو سال تک بت پوجے گئے ہیں۔ کم و بیش تین سو سال کعبۃ اللہ میں بت موجود رہے ہیں۔ تو پوجا تو بہرحال انسان کو کرنی تھی۔ اب ان کے لیے یہ سوال تھا کہ اے اللہ تعالیٰ کے حبیبA! جب ہم نے ان کی پوجا چھوڑنی ہے اور ایک اللہ تعالیٰ کی کرنی ہے تو کیسے کرنی ہے؟ وہ کیسے کریں؟ تب اللہ تعالیٰ کے رسولA نے انہیں نماز سکھائی کہ ایک اللہ تعالیٰ کی پوجا اس طرح کرنی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ نماز جو ہے وہ کافر اور مسلم کے درمیان فرق کرنے والی واحد چیز ہے۔ جو تفریق کرتی ہے ایک کافر میں اور مسلمان میں، وہ نماز ہی ہے کیونکہ جب وہ نماز پڑھتا ہے، اس کا جو خاص طریقۂ کار ہے، قیام ہے، رکوع ہے، سجود ہے، اس سے پتا لگتا ہے کہ یہ خدائے واحد کو ماننے والا ہے۔ یہ شرک کرنے والا نہیں ہے۔ یہ بتوں کی پوجا کرنے والا نہیں ہے۔ تو اس طرح نماز وجود میں آئی۔ نماز کا order وجود میں آیا، وہ اس بات سے آیا کہ بتوں کی پوجا تو ان کو معلوم تھا صدیوں سے کہ ہم کیسے کرتے رہے ہیں مگر ایک اللہ تعالیٰ کو ہم نے کس طرح پوجنا ہے؟ تو جو اللہ تعالیٰ کے حبیبA نے انہیں بتایا، وہ تھی نماز۔ تو جو پہلا order تھا اللہ تعالیٰ کو لاشریک ماننے کے بعد اسلام کا، وہ نماز تھی اور نماز کا order جب مسلمانوں کو ملا تو اس کے بعد مسلمانوں نے نمازیں پڑھنی شروع کر دیں۔۔۔۔۔۔۔ دارِ ارقم میں جا کے نمازیں پڑھتے تھے۔ تو کفار بڑے پریشان ہوئے کہ یہ گروہ مضبوط ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اُنہوں نے تنگ کرنا شروع کر دیا، ایذا دینی شروع کر دی۔ مالی طور پہ ان کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ قرض لیتے تو واپس نہ کرتے، مزدوری پوری نہ دیتے۔ تو رسولِ اکرمA نے ان سے فرمایا کہ ’’تم لوگ ہجرت کرو یہاں سے۔‘‘ پہلے کچھ لوگوں کو حبشہ بھیجا، مگر پھر مدینہ کا رختِ سفر باندھا۔ لوگوں نے مدینہ جانا شروع کر دیا۔ وہاں اکٹھے ہونا شروع ہو گئے۔
اب اصل بات یہ تھی کہ دوسرا order جو ملا وہ ہجرت کا تھا کہ اپنے دین کو بچانے کے لیے آپ نے ہجرت کرنی ہے۔ یہ دوسرا order تھا اسلام کا۔ تو لوگ جب مدینہ پہنچنا شروع ہو گئے اور جب رسولِ اکرمA مدینہ تشریف لے گئے تو آپA کے جاتے ہی بنیادی طور پر ایک اسلامی حکومت قائم ہو گئی۔ اب جب کفارِ مکہ نے دیکھا کہ یہ تو ایک پورا گروہ بن گیا ہے اور حکومت بن گئی ہے تو انہوں نے آس پاس کے جو وہاں یہودی تھے یا مشرکین تھے اُن سے کہا کہ اِن کا ناطقہ بند کرو، یہ تو قوت پکڑ رہے ہیں۔ تو اُن کے خلاف قریشِ مکہ نے اور یہودیوں نے اور دیگر جو قریب کے غیر مسلم قبائل تھے، اُنہوں نے ریشہ دوانیاں شروع کیں۔ جب انہوں نے ریشہ دوانیاں شروع کیں تو ایک سال اس میں گزر چکا تھا۔ اب دو ہجری آگیا (یہ اللہ تعالیٰ کے پروگرام کا حصہ ہے، تسلسل ہے) روزہ فرض کر دیا اللہ تعالیٰ نے۔ اب روزے آئے۔۔۔۔۔۔۔ چونکہ روزہ بنیادی طور پہ جہاد بالنفس ہے، تزکیہ نفس کے لیے ہے، ضبطِ نفس کے لیے ہے جس میں بھوک برداشت کرنی ہے، پیاس برداشت کرنی ہے، نیند برداشت کرنی ہے، غصہ برداشت کرنا ہے۔ تو مالک نے روزہ اس لیے فرض کیا کہ پروردگارِعالم مسلمانوں سے جہاد بالسیف شروع کروانے والا تھا، تلوار کا جہاد شروع کروانے والا تھا۔ تو مالک نے پہلے انہیں جہاد بالنفس شروع کروایا کہ ایسا نہ ہو جب میں انہیں جہاد بالسیف کا order دوں تو یہ مخالفین کواپنی ذاتی اَنا کی وجہ سے قتل کرنا شروع دیں اور یہ برباد ہو جائیں۔ جہاد کی رُوح نہ فنا ہو جائے۔ تو اللہ تعالیٰ نے پہلے دو ہجری میں روزے کے احکامات واضح کیے مسلمانوں پر۔ دو ہجری میں ان پر یہ قانون لاگو کیا گیا۔ ساتھ ہی پروردگارِعالم نے دو ہجری میں ہی جہاد کا پہلا حکم نازل فرمایا کہ جو ’’تمہیں تنگ کرتے ہیں، تم سے لڑتے ہیں، اُن سے تم لڑو۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پروگرام کا حصہ تھا کہ پہلے جہاد بالنفس کروایا جائے۔ اس کے لیے روزے فرض کیے اور پھر اُسی سال دو ہجری میں ہی جہاد بالسیف اللہ تعالیٰ نے شروع کروایا تاکہ پہلے ان میں ضبطِ نفس پیدا ہو جائے۔ یہ دشمن کو قتل کریں تو میرے لیے، اگر قید کریں تو میرے لیے، اگر چھوڑیں تو میرے لیے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے روزے فرض کیے اور اس کے بعد جہاد فرض کیا۔ یہ دونوں کام دو ہجری میں ہوئے اور دو ہجری سے لے کے آپ دیکھتے جائیں کہ آٹھ ہجری تک مسلمانوں کو مسلسل جہاد میں ہی مصروف رہنا پڑا۔ مگر ہلکے پھلکے معاملات، جو ایک مملکت وجود میں آچکی تھی، وہ انجام دیتی رہی مگر کوئی بڑا order نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا نہ آپA نے pass on کیا۔ جب آٹھ ہجری میں مکہ فتح ہوا، غزوۂ حنین ہو گیا، غزوۂ موتہ ہو چکا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب مسلمان جو ہیں، ان کو مرکز مل گیا ہے اور ان کی حکومت permanent ہو گئی ہے۔ اسی لیے تمام خطۂ عرب کے جتنے لوگ تھے، جو اس سے پہلے یہ سمجھتے تھے کہ پتا نہیں مسلمان رہیں گے یا نہیں رہیں گے، ان کی حکومت رہے گی یا نہیں رہے گی، اُنہیں یہ پتا لگ گیا کہ مرکز اِن کے پاس آگیا ہے۔ یہ permanent گورنمنٹ بن گئی ہے اور وہ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے۔ جتھوں کی شکل میں آتے اور بیعت ہوتے چلے جاتے۔ یہاں تک کہ عورتیں اتنی تعداد میں آتی تھیں کہ رسولِ اکرمA نے ایک لگن میں پانی لیا اور اس میں اپنے دستِ مبارک ڈبو دئیے اور فرمایا کہ ’’عورتیں اس میں ہاتھ ڈالتی جائیں اور باہر نکالتی جائیں، میری بیعت تصور ہوں گی۔‘‘ ہزاروں لوگ روزانہ مسلمان ہونا شروع ہو گئے۔
تو اصل بات یہ تھی کہ اُنہوں نے اس بات کو recognize کر لیا تھا، یہ تسلیم کر لیا تھا، یہ مان لیا تھا کہ مملکتِ اسلامیہ اب وجود میں آچکی ہے کیونکہ تمام حجاز میں اور تمام عرب میں لوگوں کو یہ بالکل یقین تھا کہ اصل حکومت اُس کے پاس ہو گی جس کے پاس مکہ ہو گا کیونکہ مکہ ہی وہاں بنیاد تھا، مذہب کی بھی اور تجارت کی بھی۔ دونوں بنیادیں مکہ فراہم کرتا تھا۔ تو جب مکہ فتح ہوا تو اسلامی مملکت مستقل بنیادوں پر اور صحیح معنوں میں قائم ہو گئی۔ اب کمال کی بات یہ ہے کہ جب اسلامی مملکت قائم ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔ کہ نماز اس میں پہلے سے موجود ہے، روزے آگئے ہیں، جہاد آگیا ہے۔ مملکت اسلامی، معاشرہ اسلامی، مگر ابھی معاشرہ فلاحی اسلامی نہیں بنا۔۔۔۔۔۔۔ فلاحی اسلامی معاشرہ پیدا نہیں ہوا، تو رب العزت نے نو ہجری میں جب یہ سارے معاملات ہو چکے، لوگ جوق در جوق مسلمان ہوئے تو نو ہجری میں زکوٰۃ فرض کی۔ زکوٰۃ کی بنیاد یہ ہوئی کہ اسلامی مملکت اور اسلامی معاشرے کو فلاحی بنانے کے لیے زکوٰۃ ضروری ہے۔ تو زکوٰۃ وہ basic چیز ہے جو ایک معاشرے کو فلاحی بناتی ہے۔ پورا اسلامی معاشرہ موجود ہے اور اس کے leader رسولِ اکرمA ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کے کاغذوں میں ابھی وہ اسلامی معاشرہ ہے، فلاحی معاشرہ نہیں ہے۔ تو تب نو ہجری میں پروردگارِعالم نے زکوٰۃ کے orders پاس کیے۔ تو زکوٰۃ بنیاد رکھتی ہے معاشرے کو فلاحی بنانے کی۔ یہ پروگرام ہے معاشرے کو فلاحی بنانے کا اور ساتھ ہی مملکتِ اسلامیہ میں جو غیر مسلم رہتے تھے اُن کے لیے جزیہ نافذ کیا۔ زکوٰۃ کے orders اور جزیہ کے orders بین بین۔۔۔۔۔۔ اس لیے کہ زکوٰۃ غیر مسلموں پر لاگو نہیں تھی، مسلمانوں پر لاگو تھی۔ غیر مسلموں کے لیے جزیہ رکھا کہ تم جزیہ دو گے تو ہم تمہارا تحفظ کریں گے اور مسلمانوں کے لیے جزیہ نہیں تھا کیونکہ مسلمان تو خود جہاد کرتے تھے۔ غیر مسلموں کے لیے جہاد فرض نہیں تھا، ان کے لیے جزیہ رکھ دیا تاکہ جو رقوم اُن سے ملیں، وہ ان کی فلاح پر خرچ ہوں۔
اور اس میں کمال کی بات یہ ہے کہ جب رسولِ اکرمA نے فرمایا کہ ’’یہ تمہارے امیروں سے لی جائے گی اور تمہارے ناداروں پر خرچ کی جائے گی‘‘ تو یہاں ’’لینے‘‘ کی بات کی آپA نے ’’دینے‘‘ کی بات نہیں کی۔ مملکت کے بسنے والوں کو، مسلمانوں کو، ان کی will پر نہیں چھوڑا کہ مرضی ہے دو، مرضی ہے نہ دو۔ ’’لی جائے گی‘‘ یعنی وصول کی جائے گی یعنی یہ state کی ذمہ داری تھی۔ اس کے کاموں میں سے ایک کام تھا کہ تو نے زکوٰۃ لینی ہے اور جو اس کی proper مدیں ہیں اُن میں خرچ کرنی ہے۔ اس کے بغیر معاشرہ ٹھیک ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر انسانی will پر اسے چھوڑ دیا جاتا تو ہرگز ہرگز لوگ زکوٰۃ نہ دیتے اور سب سے پہلے جو عامل آپA نے مقرر فرمائے زکوٰۃ کی وصولی کے لیے وہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ آپA نے ان کو یمن بھیجا۔ زکوٰۃ کی جو بنیاد ہے، وہ معاشرے کو فلاحی بنانے کی ہے۔ اب اس کے لیے اور orders ملتے ہیں کہ اب فلاحی کیسے بنے گا معاشرہ؟ جو قرآنِ حکیم کی سورتیں ہیں اور آیات ہیں۔ ویسے تو جو سورتیں زکوٰۃ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں، اس میں بتیس تو وہ ہیں کہ جن میں نماز کے ساتھ ذکر ہے زکوٰۃ کا۔ واقیموا الصلوۃ و اتوا الزکوۃ۔ بتیس آیات ہیں جن میں نماز کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی کا ذکر ہے البتہ کل بیاسی ہیں۔ بیاسی کے قریب آیات ہیں جن میں زکوٰۃ کے orders موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں زکوٰۃ کی بات کی ہے۔
اس میں ایک بہت بنیادی بات رہ جاتی ہے۔ بعض اوقات لوگوں کو غلط فہمی ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ جب یہ کہتا ہے کہ ’’تم مانگنے والوں کو بھی دو اور نہ مانگنے والوں کو بھی دو، چھپا کر بھی دو اور ظاہرہ بھی دو۔‘‘ اس کا زکوٰۃ سے تعلق نہیں ہے۔ زکوٰۃ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک اسلامی ریاست کی طرف سے پروردگارِعالم نے بطورِ خاص اسلامی ٹیکس عائد کر دیا ہو جو state نے آپ سے وصول کرنا ہی کرنا ہے۔ اگر آپ اُس کے نصاب پر پورے اُترتے ہیں، اُس کی شرائط پر پورے اُترتے ہیں تو اُس نے وصول کرنا ہی کرنا ہے۔ مانگنے والے کو دینا یا نہ دینا، چھپا کر دینا، ظاہرہ دینا، یہ آپ کی will پر ہے، آپ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے مگر زکوٰۃ کو آپ کی صوابدید پر اللہ تعالیٰ نے نہیں چھوڑا۔ یہ تو لازمی کر دیا ہے اور آپ دیکھیں کہ جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں لوگوں نے زکوٰۃ سے انکار کیا تو اُنہوں نے اُن کے خلاف جہاد کیا۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اُن کی سرکوبی کے لیے بھیجا کیونکہ یہ اتنی بڑی بنیاد تھی کہ اگر زکوٰۃ چھوڑ دی جاتی تو جو فلاح معاشرے میں جاری ہو چکی تھی اور جو فلاحی اسلامی معاشرے کا طرۂ امتیاز تھی، وہ ختم ہو جاتی، اس کا وجود ہی نہ رہتا۔ اب فلاحی معاشرہ اللہ تعالیٰ کسے قرار دیتا ہے؟ قرآن حکیم میں ہے:
’’اور نماز ادا کرتے رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو۔ اور جو بھلائی اپنے لیے آگے بھیج رکھو گے اس کو اللہ کے ہاں پا لو گے۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ (سورۂ بقرۃ، آیت نمبر 110 )
’’جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہے اُن کو ان کے کاموں کا صلہ اللہ کے ہاں ملے گا۔ اور قیامت کے دن اُن کو نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔‘‘ (سورۂ بقرۃ، آیت نمبر 277)
’’اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی ہم تیری طرف رجوع ہو چکے۔ فرمایا کہ جو میرا عذاب ہے اُسے تو جس پر چاہتا ہوں نازل کرتا ہوں اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے۔ میں اُس کو اُن لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو پرہیزگاری کرتے اور زکوٰۃ دیتے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
(سورۂ اعراف، آیت نمبر156)
’’اللہ کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور روزِ قیامت پر ایمان لاتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ یہی لوگ اُمید ہے کہ ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل ہوں گے۔‘‘ (سورۂ توبہ، آیت نمبر18)
’’صدقات یعنی زکوٰۃ و خیرات تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنانِ صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی تالیفِ قلب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کی مدد میں بھی یہ مال خرچ کرنا چاہیے۔ یہ حقوق اللہ کی طرف سے مقرر کر دئیے گئے ہیں اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
(سورۂ توبہ، آیت نمبر60)
اب سورہ توبہ آیت نمبر60 میں جن کو یہ پہنچانی ہے، زکوٰۃ ان کا ذکر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے۔ یہ بنیاد فراہم کرتا ہے کہ معاشرے کی کتنی بڑی فلاح اس میں موجود ہے کہ مفلسوں، محتاجوں، کارکنانِ زکوٰۃ، تالیفِ قلوب، غلاموں کا آزاد کروانا، مقروض کا قرض ادا کرنا، اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور مسافروں کی مدد کے لیے۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم اُن کو ملک میں دسترس دیں تو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘ (سورۂ الحج، آیت نمبر41)
’’بے شک ایمان والے فلاح پا گئے جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں اور جو بے ہودہ باتوں سے منہ موڑے رہتے ہیں اور جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔‘‘ (سورۂ المومنون، آیت نمبر 1 تا 4)
’’اور نماز پڑھتے رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور پیغمبر خدا کے فرمان پر چلتے رہو تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔‘‘ (سورۂ نور، آیت نمبر56)
’’اور جو تم سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں افزائش ہو تو اللہتعالیٰ کے نزدیک اس میں افزائش نہیں ہوتی اور جو تم زکوٰۃ دیتے ہو اور اُس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی طلب کرتے ہو تو وہ موجبِ برکت ہے۔ اور ایسے ہی لوگ اپنے مال کو دو چند کرنے والے ہیں۔‘‘ (سورۂ روم، آیت نمبر39)
’’تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ تم اور تمہارے ساتھ کے لوگ کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی تہائی رات قیام کیا کرتے ہیں۔ اور اللہ تو رات اور دن کا اندازہ رکھتا ہے۔ اس نے معلوم کیا کہ تم اس کو نباہ نہ سکو گے تو اُس نے تم پر مہربانی کی۔ پس جتنا آسانی سے ہو سکے اتنا قرآن پڑھ لیا کرو۔ اُس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں اور بعض اللہ کے فضل یعنی معاش کے تلاش میں ملک میں سفر کرتے ہیں اور بعض اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں۔ تو جتنا آسانی سے ہو سکے اتنا پڑھ لیا کرو۔ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اللہ کو نیک اور خلوصِ نیت سے قرض دیتے رہو۔ اور جو عمل نیک تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اس کو اللہ کے ہاں بہتر اور صلے میں بزرگ تر پاؤ گے اور اللہ سے بخشش مانگتے رہو۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (سورۂ مزمل، آیت نمبر20)
ان سب آیات میں ذکر ہے کہ زکوٰۃ کس کے لیے استعمال کرنی ہے؟ اب آپ مجھے بتائیں کہ کوئی معاشرہ جس میں مفلس موجود ہوں، بے شمار مقروض موجود ہوں، دُکھے دل والے موجود ہوں، بے شمار مستحق لوگ موجود ہوں اور ایسے لوگ جو دین کا علم حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکلے ہوئے ہیں، وہ موجود ہوں اور غریب موجود ہوں اور ان کی احتیاج پوری نہ ہو رہی ہو تو کیا آپ اس کو فلاحی معاشرہ کہہ سکتے ہیں؟ کسی قیمت پر نہیں کہہ سکتے۔ پیٹ بھر کر آپ کھا رہے ہیں اور آپ کے جو پڑوس میں غریب آپ کا بھائی رہتا ہے جو نادار ہے، اس کو پانی سے بھی روٹی میسر نہیں آتی تو یہ معاشرہ فلاحی کہلائے گا؟ آپ mineral water پی رہے ہیں اور ایک گاؤں میں رہنے والا جوہڑ کا پانی پی رہا ہے۔ اُسے پینے کا صاف پانی میسر نہیں آتا۔ وہ اتنی غربت میں ہے تو کیا یہ معاشرہ فلاحی کہلا سکتا ہے؟ یہ ایک ایسا tax ہے، ایک ایسا صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرض کر دیا مسلمان پر معاشرے کو فلاحی بنانے کے لیے کہ یہ حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ امیروں سے زکوٰۃ لے اور ناداروں میں بانٹے۔ اب نقصان کیا ہوا مسلمانوں کا؟ اتنا بڑا فلسفہ جہاں موجود ہو، جس نظریے کے ماننے والوں کے پاس اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا فلسفہ دے دیا۔۔۔۔۔۔ اور وہاں حالت یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ پیسہ بھی مسلمانوں کے پاس ہے، اور سب سے زیادہ غریب مسلمانوں میں ہیں۔ سب سے زیادہ غریب بھی مسلمانوں میں ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اور سب سے زیادہ پیسہ بھی مسلمانوں کے پاس ہے۔۔۔۔۔! اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ کسی بھی حکومت نے اس ذمہ داری کو اُٹھانے کی کوشش نہیں کی یعنی اس کے بارے میں گمان ہی نہیں کیا۔ جتنے مرضی آپ ادارے بنا لیں، جتنی مرضی ذاتی level پر آپ زکوٰۃ ادا کرتے رہیں، معاشرہ فلاحی نہیں بن سکتا، ہرگز نہیں بن سکتا اس لیے کہ انسان تو مال میں اتنا پھنسا ہوا ہے کہ پوری زکوٰۃ کبھی ادا ہی نہیں کرے گا۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جہاں جہاں اسلامی مملکت موجود ہے، وہ لوگوں سے پوری زکوٰۃ وصول کرے اور proper جگہ پر لگائے ورنہ آپ کے ہاں لوگ زکوٰۃ دیتے ہیں، اِدارے بنے ہوئے ہیں مگر ویسی ہی غربت ہے، ویسے ہی افلاس ہے، ویسے ہی نادار پھرتے ہیں، ویسے ہی لوگوں کو دوائیاں نہیں ملتیں، ویسے ہی علاج نہیں ملتا یعنی ہم نے بے شمار بھکاری تو پیدا کر دئیے ہیں، کیونکہ جو روح ہے زکوٰۃ کی اس کو ہم نے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی جو معاشرے کو فلاحی بنانے کے لیے ضروری تھی، جس کے لیے ذمہ داری تھی مملکتِ اسلامیہ کی کہ وہ زکوٰۃ collect کرتی اور ان جگہوں پر لگاتی۔
جب یہ کہا جاتا ہے کہ ’’تمہارے امیروں سے لی جائے گی اور تمہارے ناداروں پر خرچ کی جائے گی‘‘ تو یہاں سب سے بڑا مقصد یہ ہے، یہ بتانا مقصود ہے اُمتِ مسلمہ کو کہ تم سب ایک ہو۔ لفظ ’’تمہارے‘‘ استعمال ہوا ہے۔ اسی لیے زکوٰۃ واحد مد ہے صدقے کی جو آپ غیر مسلم کو نہیں دے سکتے۔ نہ ان سے وصول کی جائے گی، نہ ان کو دی جائے گی۔۔۔۔۔۔ اس سے وصول کیا جائے گا جزیہ، زکوٰۃ نہیں۔ زکوٰۃ صرف مسلمان پر لاگو ہے۔ خیرات غیر مسلم بھی کر سکتا ہے، خیرات غیر مسلم کو دی بھی جا سکتی ہے مگر زکوٰۃ صرف مسلم پر لاگو ہے اور مسلمان ہی کی اعانت کے لیے استعمال ہو گی کیونکہ مسلم معاشرے کو فلاحی بنانے کے لیے ہے، ساری دُنیا کے دُکھ دُور کرنے کے لیے نہیں۔ اُس کے لیے دوسرا راستہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ ڈھکے چھپے،ظاہری طور پر، مانگنے والے کو، نہ مانگنے والے کو جتنا چاہو دو۔ اس میں کسی مسلم اور غیر مسلم کی بھی قید نہیں ہے مگر زکوٰۃ کے لیے مسلمان ہونا شرط ہے۔ لینے والے کے لیے بھی کیونکہ بنیاد ہے اس میں اسلامی معاشرے کو فلاحی بنانا اور تم سب ایک وجود کا حصہ ہو۔ اپنے اندر سے تفرقہ نکال دو۔ کسی بھی بنیاد پر چاہے ذات کی بنیاد پر ہو، دولت کی بنیاد پر ہو، علم کی بنیاد پر ہو، زبان کی بنیاد پرہو، تفرقے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دو کیونکہ یہاں مشترکہ بات کی جا رہی ہے کہ ’’تمہارے امیروں سے لی جائے گی اور ناداروں پر خرچ کی جائے گی۔‘‘ یہ سمجھانا مقصود ہے کہ تم سب ایک ہو، ایک وجود کا حصہ ہو۔
پھر سب سے important بات زکوٰۃ کی تقسیم ہے۔ زکوٰۃ کے قانون کو لاگو کرنے سے مالک ایک بہت ہی ضروری بات آپ کو سمجھانا چاہ رہا ہے کہ میں نے سب کو ایک جیسا رزق نہیں بانٹ رکھا۔ تم میں امیر بھی رہیں گے ہمیشہ اور غریب بھی رہیں گے ہمیشہ۔ قرآن قیامت تک کے لیے موجود ہے۔ قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ کے orders موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ order دینا کہ زکوٰۃ ان لوگوں کو دی جائے گی اور نصاب پر دی جائے گی، اس کا مطلب ہے کہ دونوں گروہ ہمیشہ موجود رہیں گے۔ تو آپ کو یہ سمجھانا بھی اللہ تعالیٰ کا مقصود ہے کہ جو میں نے کسی کے نصیب بنائے ہیں، جو میں نے کسی کے مقدر میں رزق لکھا ہے اس پہ حسد مت کرو، اس کو تسلیم کر لو، اس کو مان لو، یہ میری مرضی سے ہے۔ اگر مساوات ہی ہوتی کہ سب کا ایک جیسا رزق ہوتا، سب کے پاس ایک جیسا مال ہوتا تو زکوٰۃ کے orders کی ضرورت نہیں تھی قرآن میں۔ جو لوگ مساوات کی اس طرح کی بات کرتے ہیں، وہ سمجھتے نہیں۔ زکوٰۃ کا اس طرح order دینا کہ جس کے پاس اِتنا اِتنا ہو، اُس نے یہ دینا ہے اور اِس اِس کو دینا ہے۔ جس کو دیا جائے گا وہ مد بھی بتا دی۔ اللہ تعالیٰ یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ نصیب میں نے بنائے ہیں، رزق کم اور زیادہ میں دینے والا ہوں، اس کو تسلیم کر لو، اس کو مان لو۔ یہ ایک دو دن کی بات نہیں ہے، ہمیشہ ایسا رہے گا۔ قیامت تک کے لیے میں نے نظام تمہیں دے دیا ہے۔
تو یہ بھی مالک زکوٰۃ کے orders میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہے، کیونکہ اسی میں دوسری بات جو آپ کو سمجھانا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ جن کو میں نے مال دیا ہے اُن کو شکر سے آزماؤں گا۔ تو شکر یہ ہے کہ جو تمہیں دیا گیا ہے اُس پہ اِتراؤ مت اور میری راہ میں خرچ کرو، اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کو خرچ کرو اور جن کو کم دیا ہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ نااہل ہیں یا نکمے ہیں یا اللہ تعالیٰ ان سے راضی نہیں ہے بلکہ ان کو صبر سے آزمانا چاہتا ہے اور وہ بڑے گروہ میں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے صالحین کو، پیغمبروں کو اور شہدأ کو صبر سے آزمایا۔ تو جن کو مال کم دیا ہے، ان کو تو اللہ تعالیٰ نے اس گروپ میں ڈال دیا ہے جن میں اس کے انبیاء علیہم السلام ہیں، جن میں اس کے صالحین ہیں، جن میں اس کے صدیقین ہیں، جن میں اس کے شہدأ ہیں۔ ان کو صبر سے آزمائے گا بڑے گروہ میں ڈال کر۔ تو یہاں دو گروہ بھی اللہ تعالیٰ نے بنا دئیے۔ ایک کو شکر سے آزمائے گا کہ میں نے تجھے دیا، تو اکڑا تو نہیں اس پر۔ اگر وہ اکڑے گا اور اس پر کِبر کرے گا اور اس پر فخر کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے شکر گزاروں میں سے نکل جائے گا، وہ امتحان میں فیل ہو گیا۔ اور اگر اس نے اکڑ نہیں دکھائی اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا، اس کی زکوٰۃ ادا کی، صدقہ و خیرات کیا، وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوا اور جس کو اللہ تعالیٰ نے مال کھلا نہیں دیا، کم دیا، گن کر دیا، قلیل دیا اور وہ بے صبرا ہوا، وہ بھی مارا گیا۔ وہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں، انبیاء علیہم السلام ہیں، صدیقین ہیں، شہدأ ہیں، صالحین ہیں، اُن کے گروہ سے نکل گیا۔ تو مالک اس ایک ہی order میں آپ کو یہ سمجھا رہا ہے کہ کُھلا دینے والا بھی میں ہوں اور نہ دینے والا بھی میں ہوں۔ اس بات کو تسلیم کر لو۔
کمال کی بات ہے جو میں اکثر پہلے بھی کہتا ہوں اللہ تعالیٰ کے انداز بھی کیا ہیں۔ میں اکثر یہ کہا کرتا ہوں اور زکوٰۃ کے ساتھ ایک خاص order ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی وضاحت کی ہے، سمجھا دیا ہے بات کو کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کی جائے وہ بڑھ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ جو چیز اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کی جائے وہ بڑھ جاتی ہے۔ آپ دیکھیں۔۔۔۔۔۔۔ مالک کو تو معلوم ہے کہ اب یہ زکوٰۃ دیں گے، اِن کا مال بڑھ جائے گا۔ جس نے یہ احکامات اُتارے ہیں، جس نے یہ قانون دیا ہے، اُس کو سب معلوم ہے۔ جب نو ہجری میں زکوٰۃ کے orders اللہ تعالیٰ دے رہا ہے اور زکوٰۃ کی فرضیت لاگو کر رہا ہے، اُسی نو ہجری کے اخیر میں اللہ تعالیٰ سود کی حرمت بھی قائم کروا رہا ہے کہ سود کو حرام کر رہا ہے۔ جس کا اعلان تصدیق کر رہا ہے آپ کو اس بات کی کہ جب اِنہوں نے میری راہ میں خرچ کرنا ہے تو اِن کے مال میں اضافہ ہو جائے گا۔ پھر انسان بنیادی طور پر خسارے میں ہے، لالچی ہے، تو بہت امکانات موجود ہیں کہ وہ سود دینا، لینا شروع کر دے گا۔ تو ساتھ ہی پھر اللہ تعالیٰ نے سود کی حرمت کا بھی قانون دے دیا۔
زکوٰۃ کے معنی ’’پاک کرنے‘‘ کے بھی ہیں اور ’’فربہ کرنے‘‘ کے بھی ہیں۔ جب آپ مال میں سے مال نکالتے ہیں تو اس کو آپ پاک کرتے ہیں اور فربہ کرنے کے اس لیے ہیں کہ جن کو آپ دیتے ہیں اُن کو مالی طور پر مستحکم کر کے اپنی سطح پر لاتے ہیں، اپنی برابری کی سطح پر لاتے ہیں۔ آج کل زکوٰۃ کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے، تمسخر اُڑایا جا رہا ہے اس کا، آج کل بھکاری پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اپنے ممنون پیدا کیے جا رہے ہیں۔ جناب ہمیں زکوٰۃ دیتے ہیں ہر سال۔ السلامُ علیکم جناب۔۔۔۔۔۔۔ السلامُ علیکم جناب۔ بھکاری پیدا کیے جا رہے ہیں۔ یہ state کا کام تھا کہ کسی ذاتی انسان کا کسی پر کوئی احسان نہ ہو۔ کس کی زکوٰۃ کس کو پہنچ رہی ہے، یہ حکومت کا کام تھا۔ اب تو ہم نے لوگوں کی عزتِ نفس کے سودے شروع کر دئیے ہیں۔ اُن کے جذبات مجروح کرتے ہیں۔ بندے کو تو پتا ہی نہیں ہونا چاہیے کہ اس کو کون دے رہا ہے؟ اسے یہ پتا ہو کہ میری حکومت میری نگہداشت کر رہی ہے۔ اس لیے حکومت کے ذمے تھا کہ عزتِ نفس محفوظ رہے، اُس کی جو لے رہا ہو۔ اب تو اُس کی عزتِ نفس ہی محفوظ نہیں ہے۔ وہ تو اپنے آپ کو حقیر سمجھتا ہے معاشرے میں چلتا پھرتا۔ لوگ اُس کا تمسخر اُڑاتے ہیں۔ اس کی غربت جو ہے وہ سارے زمانے پر عیاں ہو جاتی ہے، اس کا پردہ اُتر جاتا ہے، اس طریقے سے زکوٰۃ دی جاتی ہے۔ اسی لیے پروردگارِعالم نے یہ state کی ذمہ داری رکھی کہ جب حکومتِ وقت اس کی ذمہ داری پوری کر رہی ہوتی تو نہ اس کے جذبات مجروح ہوتے، نہ اس کی عزتِ نفس مجروح ہوتی۔ عزتِ نفس تو سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ تو آج ہم نے جو زکوٰۃ کا مذاق بنا دیا ہے، عزتِ نفس مجروح کر دیتے ہیں انسان کی۔ اس کی تو مقصدیت ہی فیل ہو گئی۔ تو یہ بھی ایک مقصد تھا لوگوں کو فربہ کرنا، موٹا کرنا، ان کو ساتھ ملانا اور مال کو پاک کرنا اور یہ بھی ایک مقصد تھا کہ لوگوں کو یہ سمجھانا کہ تم مال کی محبت کو اپنے دلوں سے نکال دو کیونکہ اگر انسان خرچ کرتا رہے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیتا رہے تو مال کی محبت میں گرفتار نہیں ہوتا اور اس کی گرفت سے نکل جائے تو آپ سمجھیں محفوظ ہو گیا۔ انسانوں کے دل سے مال کی محبت نکالنا بھی پروردگارِعالم کو مقصود تھا اور اس بات کی تصدیق تھی یہ کہ تم اللہ تعالیٰ سے کتنی محبت کرتے ہو۔
پروردگارِ عالم قربانی کے بغیر نہیں ملتا۔۔۔۔۔۔ صرف ذکر و اذکار سے نہیں ملتا، صرف نمازوں سے نہیں ملتا۔ جب تم یہ سمجھ لو گے کہ اللہ تعالیٰ قربانی سے ملتا ہے تو تمہاری سمجھ میں بڑی آسانی سے ساری بات آجائے گی۔ اللہ تعالیٰ یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ تم مجھے زیادہ پسند کرتے ہو یا میرے مقابلے میں دوسری جو چیز ہے اُسے۔ اب نیند آرہی ہے، رات کو گرم بستر ہے، لحاف میں آدمی دُبکا ہوا ہے اور رات کے تین بج گئے ہیں اور اگر اس پر اللہ تعالیٰ کی یاد غالب ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کو محبت ہے تو وہ گرم بستر کو چھوڑ دے گا، وضو کرے گا اور سجدے میں چلا جائے گا۔ تو اس نے قربانی دی اپنی نیند کی اور گرم بستر کی۔ اللہ تعالیٰ کو یہ ثابت کیا اس نے کہ اللہ تعالیٰ! تیری یاد مجھے اس بستر سے زیادہ عزیز ہے۔ تو اسی طرح تمام وہ چیزیں جو آپ چھوڑتے ہیں اللہ تعالیٰ کے لیے، دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کے لیے، یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی محبت زیادہ عزیز ہے اِن چیزوں کے مقابلے میں۔ تو جب ایک شخص خوش دلی سے زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو وہ اس بات کا ثبوت مہیا کرتا ہے اپنے اللہ تعالیٰ کو کہ یااللہ تعالیٰ! تیرا حکم، تیری فرماں برداری، تیری یاد اور تیری محبت مجھے زیادہ عزیز ہے اِس مال کے مقابلے میں۔ تو جب وہ اللہ تعالیٰ کے order کو مال پر ترجیح دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا مقرب ترین انسان ہوتا ہے، قریب ترین انسان ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ جس کو بھی ملا ہے، وہ یاد کے ساتھ ساتھ قربانی کرنے سے ملا ہے، sacrifice کرنے سے ملا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ جن کو سب سے زیادہ ملا ہے، وہ پیغمبر ہیں یا صدیقین ہیں یا شہدأ ہیں۔ وہ سب سے زیادہ قربانی کرتے ہیں۔ پیغمبروں سے ہر وقت قربانی مانگتا ہے، صدیقین سے ہر وقت قربانی مانگتا ہے، شہدأ سے تو ان کی جان بھی مانگ لیتا ہے۔ تو زکوٰۃ آپ کو یہ بنیاد بھی فراہم کر رہی ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ ہی کو نمبر one سمجھنا ہے، اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں مال کو کچھ نہیں سمجھنا۔
میں نے تو زکوٰۃ کی رُوح بیان کی ہے تاکہ آپ کی سمجھ میں یہ آجائے کہ زکوٰۃ بھی، جتنے اسلامی orders آئے ہیں، ایک تسلسل کے ساتھ اُن سے بالکل attached ہے اور رسول اللہA کے تبلیغ کے شروع کرنے سے لے کر اور زکوٰۃ کے اصول لاگو ہونے تک، یہ ایک تسلسل کا نام ہے اور اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا اسلامی فلاحی معاشرہ قائم کرنے کا مقصد موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں کیا کیا آپ کو سمجھانا اور سکھانا چاہتا ہے۔
میں نے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس کی رُوح کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور مجھے صحیح معنوں میں زکوٰۃ کے فلسفے کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جو اس کا صحیح اور اصل مقصد ہے وہ ہماری سمجھ میں آجائے اور ہم معاشرے کو بھکاری بنانے کی بجائے فلاحی بنانے کی طرف سفر شروع کریں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ قیامت کے قریب اللہ تعالیٰ کا ہم پر بڑا احسان ہے کہ government کی سختی نہ ہونے کے باوجود، government کی آنکھیں اس معاملے میں بند ہونے کے باوجود، ہم لوگ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے ہم پر ورنہ یہ حکومتِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ تمام مسلم ممالک کی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ زکوٰۃ وصول بھی کریں اور اس کو خرچ بھی کریں ترتیب کے مطابق۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور مجھے صحیح توفیق عطا فرمائے (آمین)۔
( منشور حق (خطبہ حجتہ ا لوداع)کتاب سے ماخوذ )