علمی ، فکری، اجتہادی، تدریسی، انتظامی اور میدانِ حدیث وفقہ کی عبقری شخصیت حضرت مولانا زبیر احمد قاسمیؒ

مرتب:مفتی شمس تبریز قاسمی ، ایڈیٹر ملت ٹائمز
ناشر :ابنائے قدیم اشرف العلوم، کنہواں(دہلی)
صفحات:۶۰۲
قیمت:۰۰۲
تبصرہ نگار: فیصل نذیر، پی ایچ ڈی اسکالر، جامعہ ملیہ اسلامیہ،سینٹرل یونیورسٹی دہلی
فرانسیسی حکمراں نیپولین (۹۶۷۱-۱۲۸۱ئ)کا قول ہے :
The more i bocome old, more my teachers become young.
یعنی میں جتنا بوڑھا ہوتا گیا ، میرے استاذ میری نظر میں اتنے ہی جوان اور اسمارٹ ہوتے گئے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک انسان کو بچپن میں اپنے مشفق استاذوں سے بڑی شکایتیں ہوتی ہے مگر جیسے جیسے وہی طالب حقیقی زندگی میں قدم رکھتا ہے ویسے ہی اسے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ میری استاذ کتنی اچھی بات کہتے تھے ، ان باتوں پر اگر میں عمل کرلئے ہوتا تومیرا آج بہتر ہوتا ۔
استاذ محترم مولانا زبیر احمد( ؒ سابق ناظم اشرف العلوم کنہواں،سیتامڑھی بہار)کے سلسلے میں یہ بات صد فی صد درست کہی جاسکتی ہے ، استاذ محترم سے صد سالہ جلسے کے موقع پر جب بات چیت ہوئی تو حضرت مجھے بیس سال قبل والے استاذ سے زیادہ خوبصورت معلوم ہورہے تھے، وہ نحیف جسم مجھے مزید تواناں نظر آرہات©ھا ، اور حکمت ودانائی سے پر آپ کی تقریر کو میں انہماک وہمہ تن گوش ہو کر سن رہا تھا ، کیوں کہ میرے استاذ مجھے اب مزید حسین نظر آرہے ت©ھے۔
موجودہ دور کے تشویش ناک حالات میں میرے استاذ مجھے مزید آئیدیل نظر آتے ہیں، آج جب کہ ہر کس وناکس فیس بک اور واٹس اَپ پر اپنے مذہب کے بجائے مسلک کی ترویج کر رہا ہے ، بزرگانِ دین کو سب وشتم کر رہا ہے، تو میں اپنے استاذ مرحوم زبیر احمد ؒ کے حالاتِ وشب وروز پر نظر ڈالتا ہوں تو یادداشت بتاتی ہے کہ چھ سال کے طویل عرصے میں ،میں نے ناظم صاحب کو کسی مسلک ومذہب کے خلاف بولتے یا اشارہ کرتے یا تحقیر کرتے، یا اپنے مسلک کی برتری کے احساس میں کبھی نہیں دیکھا۔ حالانکہ کنہواں گاو¿ں میں بریلوی بھائیوں کا بھی اہم اور وسیع وعریض وقدیم ادارہ ہے ، مگر آج تک کوئی چشمک اور نا اتفاقی کی خبر سننے میں نہیں آئی، اور میرا استاذِمحترم کے اسی رویے پر عمل ہے۔
مولانا کے قریبی رشتہ دار اور مسلم پرسنل لابورڈ کے رکن مفتی اعجاز ارشد قاسمی نے ملت ٹائمز کی طرف سے منعقدتعزیتی نشست میں بتایا کہ ناظم صاحب کے پاس ایک شخص آکر کہنے لگاکہ فلاں آدمی اجمیر شریف جارہاہے ، اسے روکیے، ناظم صاحب نے فرمایا:
جانے دو، اس میں کیا حرج ہے۔
وہ شخص حیران ہوکر بولا: ناظم صاحب آپ کیسی بات کر رہے ہیں!!! حدیث میں ہے”لاتشد الرحال Êلا Êلی ثلثة مساجد:المسجد الحرام ،ومسجدی ہذا،والمسجد الÉقصی۔
کہ صرف مسجد نبوی، مسجدِحرام اور مسجد اقصی کا ہی سفر کیا جاسکتا ہے۔
ناظم صاحب مرحوم نے بڑی بے نیازی سے جواب دیا: امام ابن تیمیہ ؒ یہ حدیث نہ جانے کہاں سے ذکر کرتے ہیں، ان سے ہی پوچھ لو۔
غرضیکہ احناف کے اتنے بڑے عالم وفقیہ ہونے کے باوجود مسلکی تعصب وتنگ نظری ذرہ برابر نہیں تھی۔
کبھی ذاتی طور پر میں نے انہیں حکومت کے خلاف بولتے ہوئے نہیں سنا، بلکہ الیکشن کے وقت کوئی بھی سیاسی رہنما آجائے تو آپ سب سے خندہ پیشانی سے ملتے تھے، میں نے ایک بار ایک سیاسی لیڈر جو اکثر مدرسہ آتے تھے ، ناظم صاحب کو ان سے یہ کہتے ہوئے بھی سناکہ مدرسہ میں طلبہ زیادہ ہیں اگر آپ ایک جنریٹر کا انتظام فرمادیں تو طلبہ کو بڑی راحت ہوگی۔ یہ بات آپ کے نظر ونظریہ کی مکمل عکاسی کرتی ہے کہ یہ ممبر ِ پارلیمنٹ ہمارا ہے ، یہ ملک ہمارا ہے، ہم اس ملک کے رہنے والے ہیں تو ہمیں مکمل حق ہے اپنے نمائندوں سے مدرسہ کی ضروریات رکھنے کا۔یہ بات ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمارے اکابروں میں ہندوستان اور ہندوستانیت کتنی رچی بسی ہوئی تھی۔یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر سرحد پر تعنیات پولس فورس کے لوگ آتے ، پرچم کشائی میں حصہ لیتے، چائے پیتے۔غرضیکہ ان ہزاروں پولس والوں کے اندر جو اکثر کچھ مہینوں میں تبدیل بھی ہوتے رہتے ہیں اور ہندستان کے دیگر علاقوں ان کا تعین ہوتا ہے، اشرف العلوم نے اور خاص کر ناظم صاحب نے مسلمانوں اورمدارس کے تئی ایک مثبت اور دوستانہ رویہ پیدا کیا ہے، بقول مظفر رزمی:
قریب آو¿ تو شاید سمجھ میں آجائے
یہ فاصلے تو غلط فہمیاں بڑھاتے ہیں
غرضیکہ میں بہت مشکور وممنون ہوں میرے قابل دوست اور ملت ٹائمز کے بانی ومدیر کا کہ انہوں نے مولانا زبیر احمد قاسمیؒ کے انتقال کے بعد کئی تعزیتی نشستوں کا انعقاد کروایا، اور فوری طور پر اس کتاب کو ترتیب دیا، علماءکرام سے فوراً مضامین طلب کیا اور انہیں شب بیداری کر کے ترتیب وتزئین کے مرحلے سے گذارا۔ اس کتاب میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مفتی ثناءالہدی قاسمی،استاذ محترم حافظ نسیم قاسمی، مولانا بدر الحسن قاسمی ،مفتی مجتبی حسن،عزیزالرحمن قاسمی،ڈاکٹرمصطفی ندوی،مولانا غفران ساجد کے بہت ہی محبت وخلوص سے بھرے علمی مضامین شامل ہیں۔
ان کے علاوہ رفیق محترم جناب ابوالخیرصاحب ، نایاب حسن، سیف الاسلام مدنی اور احمد علی ندوی وغیرہ کے مضامین ناظم صاحب کے روشن دورِ نظامت اور فنا فی العلم ہونے کی کیفیت سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں ناظم صاحب کی رحلت پر مشاہیر واکابرین کے تعزیتی پیغامات بھی نقل کئے گئے ہیں۔ کتاب میں اشرف العلوم کے موجودہ ناظم اور سابق صدر مدرالمدرسین حضرت مولانا محمد اظہار الحق مظاہری کا مقدمہ بھی شامل ہے جنہوں نے مولانا مرحوم کی زندگی کا خوبصورت نقشہ کھینچتے ہوئے 27 سالہ رفاقت اور ایک ساتھ کام کرنے کا بحسن وخوبی تذکرہ کیا ہے ۔
غرضیکہ یہ کتاب ناظم صاحب ؒ پر ایک جامع انسائکلوپیڈیا ہے، کتاب کی طباعت وصفحات عمدہ ہیں۔ میں دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں شمس تبریز صاحب کو کہ انہوں ایک حقیقی طالبِ علم ہونے کا حق ادا کیا، اور مولانا کی زندگی کو تاریخ کے صفحات میں قید کردیا۔فجزاہ اللہ احسن الجزا

SHARE