ماہِ رمضان اور روح انسانی کی تربیت

عبید الکبیر

قرآن کریم کی تشریح کے مطابق اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک بندہ کی مقبولیت کا ترجیحی معیار تقوی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے نقطہ نظر سے حسب ونسب  رنگ ونسل سیم وذر اور منصب واقتدار کے بجائے اللہ کی بارگاہ میں برگزیدہ  آدمی وہ قرار پاتا ہے جو بلحاظ تقوی لوگوں کے مابین کسی امتیازی حیثیت کا حامل ہو ۔قرآن کریم میں جا بجا  خالق کائنات نے اپنے بندوں کو تقوی اختیار کرنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔ تقوی یا  پرہیز گاری جس چیز کا نام ہے اس کے حصول میں اسلام کا نظام عبادت قدم قدم پر نوع انسانی کی رہنمائی کرتا ہے۔اسلامی عبادات خواہ از قبیل صوم وصلوٰۃ ہوں یا حج و زکوٰۃ سب کے سب اپنی روح کے لحاظ سے انسانی سرشت میں پرہیز گاری کی اسپرٹ کو تازہ کرتے ہیں ۔ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن روزہ بھی ہے جسے اللہ تباک وتعالی نے سال کے ایک خاص مہینے میں اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے۔قرآن کریم میں روزہ کی فرضیت کی غایت تقوی کو قرار دیا گیا ہے۔قرآن کا بیان ہے “(اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم پر روزے فرض کر دیے گئے ، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔ البقرہ 183 )”۔اس میں شک نہیں کہ اسلام کی جملہ تعلیمات  نوع انسانی کو شاہ راہ عدل (سراط مستقیم )پر کاربند کرنےاور عالم انسانیت کو فوز وفلاح سے ہمکنار کرنے کی ضامن ہیں ۔ ہمارے روز مرّہ کے مشاہدے سے اس دعوی کی صداقت میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا کہ عقل کی کوتاہی ،جذبات کا تلون اور خواہشات کی پیروی اکثر آدمی کو اپنی منزل مقصود سے دور کردیتی ہے۔اسلامی نظام زندگی کی بے نظیر خوبی اور مایہ فخر یہ ہے کہ اس میں انسانی عقل کی بے ہنگم کاوشوں کا دخل نہیں ہے ۔ یہ نظام  تمام تر نقص وعیوب سے پاک اس بالاتر ہستی کا منتخب کردہ ہے جو پوری کائنات کا خالق اور موجد ہے ۔در اصل انسان روح اور جسم کےجس  مجموعے کا نام ہے ۔اس کے عین وجود میں خیر وشر بھلائی اور برائی دونوں چیزیں ودیعت کی گئیں ہیں ۔ انسانی جسم کے تقاضے کچھ ہیں جبکہ اس کی روح کا مطمح نظر اور منتہائے کمال کچھ اور ۔انسانی جسم خود پروری خود غرضی اور حرص و ہوا کی تکمیل میں مگن رہنا چاہتا ہے ،اور انسانی روح قربانی ،ایثار اور ضبط نفس میں آسودگی محسوس کرتی ہے۔ایک سلیم الطبع انسان کے لئے اس بدیہی حقیقت کا ادراک کوئی مشکل کام نہیں کہ انسانی اخلاق کی تعمیر اور نشو نما میں ضبط  نفس کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ سڑک پہ  سفرکرتے وقت  ہمارے ساتھ ہمارے جیسے اور بھی بہت سے  لوگ شریک سفرہوتے  ہیں ۔الگ الگ جہتوں میں سفر کرنے والے لوگوں میں سے ہر ایک  کی خواہش  ہوتی ہے کہ جلد از جلد اپنی اپنی منزل پہ پہنچ جائے ۔لیکن اگر ہم سب اس خواہش کی اندھا دھند پیروی میں کسی نضم وضبط کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھتے رہیں تو ایک عجیب قسم کی بے راہ روی کا معاملہ سامنے آئے گا ۔ ایک دوسرے کی حق تلفی ہو گی ،تصادم ہو گا اور بالآخر ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی منزل سےلازماً بھٹک جائیں گے۔اس ٹکراؤ سے بچنے کے لئے ہمیں ٹریفک کے کچھ ضابطوں کا پابند ہونا پڑتا ہے ۔ہمیں ضبط سے کام لیتے ہوئے کہیں رکنا بھی پڑتا ہے اور کہیں دوسرے کو خود سے آگے نکل جانے کا موقع دینا پڑتا ہے تاکہ اجتماعی طور پر ہمارے سفر کا بنیادی مقصد متاثر نہ ہو۔اس سادہ سے مثال کو ہم زندگی کے مختلف معاملات پر منطبق کرکے بقائے باہم کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ حرص و طمع اور خود غرضی کے اسیر انسان کو ضبط نفس  کی یہ  مشق کیسے کرائی   جائے ۔ظاہر ہے کہ اگر اس نازک سوال کو محض ہماری طبعی تقاضوں کے رحم وکرم پہ چھوڑ دیا جائے تو ہم اس نتیجہ تک بہر حال نہیں پہنچ سکتے جس تک پہنچنا مجموعی طور پر ہمارے لئے ضروری ہے۔چنانچہ عقلی طور پر یہ بات بالکل مسلم ہے کہ نوع انسانی کو ایک ایسے نظام کی ہمہ وقت ضرورت ہے جس کی پیروی  کر کے انسانی معاشرہ ایک دوسرے پر ظلم وتعدی کئے بغیر پھل پھول سکے۔اس پہلو سے اگر غور کیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان کا مہینہ اس قسم کی تربیت کے لئے انتہائی سازگار ہے۔روزہ نام ہی ہے کھانے پینے اور جنسی خواہش کی تکمیل سے گریز کرنے کا ۔جب صبح سے شام تک ایک بندہ  کسی نگرانی کے بغیر محض اپنے معبود کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی طبعی تقاضوں کی تکمیل سے گریزاں رہتا ہے تو اس سے زندگی کے دیگر معاملات میں راست بازی کی توقع کی جا سکتی ہے ۔روزہ کے ذریعہ انسان سفلی جذبات اور سطحی مقاصد سے بلند ہو کر غم خواری اور ہمدردی جیسے  اخلاقی فضائل سے متصف ہوتا ہے ۔ اس سے دوسروں کی بھوک پیاس کا اندازہ ہوتا ہے جواحتساب نفس میں معاون اور تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے۔بلا شبہ روح انسانی کی تربیت ایک بلند پایہ اخلاقی مقصد ہے جس کی ضرورت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں ۔ یہ وہ معما  ہے جسے مذہب کی رہنمائی کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا ۔آج کی مادہ پرست دنیا میں علم و آگہی کی ہزارہا طلعت وتابش کے با وجود اخلاقی زوال نوع انسانی کے لئے ایک ناسور بن چکا ہے۔آج کے زوال پذیر انسانی معاشرہ میں خواہشات کی تکمیل ہی گویا انسانی آبادی کا منتہائے مقصود ہے ۔خصوصاً جنسی اور اقتصادی مرغوبات نے انسان کو جیسے دیوانہ بنا دیا ہے جس کے نتیجہ میں جرائم کی نت نئی شکلیں سامنے آتی ہیں ۔ روزہ انسان کی جنسی خواہشات کو منضبط کرنے میں بھی معاون ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے “اے نوجوانوں کی جماعت، جو کوئی تم میں شادی کی طاقت رکھتا ہے وہ شادی کرلے کیونکہ یہ نگاہوں کو پست رکھتی اور شرمگاہ کی حفاظت کرتی ہے، اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتا ہے تو اسے چاہیے کے وہ روزہ رہے کیونکہ یہ ڈھال ہے” (صحیح بخاری و صحیح مسلم ، بروایت عبد اللہ بن مسعودؓ)۔الغرض انسانی وجود میں جو تین مضبوط محرکات ودیعت کئے گئے ہیں یعنی بھوک ،پیاس اور جنسی خواہش ،روزہ میں انسان خود کو ان چیزوں سے باز رکھتا ہے۔روزہ کے فوائد میں یہ نکتہ بطور خاص شامل ہے کہ یہ انسان کے اندر ضبط اور ایثار کے پاکیزہ اخلاقی اقدار کو بیدار کرنے کا موثر ذریعہ ہے۔روزہ اور اجتناب منکرات گو یا لازم وملزوم ہیں چنانچہ ایک حدیث میں آپ ؑ نے ادرشاد فرمایا کہ”جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹی بات اور غلط کام نہ چھوڑے تو اللہ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ (گناہوں کو چھوڑے بغیر) محض کھانا پینا چھوڑ دے۔”(صحیح بخاری)

SHARE