سوڈان، لیبیا میں بدامنی اور مصر کی سرحدی سکیورٹی  

سونیا فرید 

سوڈان میں مظاہروں اور لیبیا میں فوجی کارروائی کے بعد مصر کی مغربی اور جنوبی سرحدوں پر عدم تحفظ کے حوالے سے خدشات بڑھتے جارہے ہیں۔ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں تھا کہ سوڈان کے معزول صدر عمر حسن البشیر اور لیبیا کی قومی فوج ( ایل این اے) کے کمانڈر خلیفہ حفتر نے ایسے وقت میں قاہرہ کا دورہ کیا تھا جب ان کے اپنے ملکوں میں کشیدگی عروج پر پہنچی ہوئی تھی۔ ان کا یہ دورہ اس بات کا مظہر تھا کہ مصر تب کس کے ساتھ کھڑا تھا۔

اس مرحلے پر یہ پیشین گوئی کرنا مشکل ہے کہ ان دونوں ملکوں میں بد امنی پھیلنے سے مصر کس حد تک متاثر ہوسکتا ہے ؟ مصر کے سوڈان اور لیبیا کے ساتھ موجودہ اتحاد کی پائیداری کو کسی پیمانے پر جانچنا بھی مشکل ہے۔

مصر کی جانب سے خلیفہ حفتر کی حمایت کوئی حیران کن امر نہیں ہے۔انھوں نے بنغازی میں 2014ء میں ’آپریشن عظمت‘ کے نام سے شروع کی گئی فوجی کارروائی کے بعد سے خود کو اسلامی جنگجوؤں کا شدید دشمن ظاہر کیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ صرف وہی داعش اور اس طرح کے دوسرے گروپوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روک لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سوں کے نزدیک 2015ء میں لیبیا میں داعش کے ہاتھوں اکیس قبطی مصری ورکروں کا اغوا اور بے دردی سے قتل دراصل خلیفہ حفتر کے لیے مصر کی حمایت کا ردعمل تھا۔ دوسری جانب طرابلس میں انتظامی اتھارٹی لیبیا کی قومی اتحاد کی حکومت کے وزیراعظم فایزالسراج خلیفہ حفتر کی دارالحکومت کی جانب فوجی چڑھائی کو ’بغاوت‘ قرار دیتے ہیں۔ان کے تحت حکومت کو اقوام متحدہ نے تسلیم کررکھا ہے۔

خلیفہ حفتر کو ایک مضبوط فوجی کمانڈر خیال کیا جاتا ہے اور ان کے زیرِ کمان فوج کو مختلف اتحادی ممالک کی جانب سے مالی اور لاجسٹیکل امداد مہیا ہورہی ہے۔ مصر کے نزدیک خلیفہ حفتر ہی واحد امید ہیں جو اس کی مغربی سرحد کو محفوظ بنا سکتے ہیں کیونکہ یہ سرحد غیر محفوظ ہی رہی ہے۔

مصر کے خلیفہ حفتر کے بارے میں مؤقف کا فرانس کے مؤقف سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ فرانس اس امید کے ساتھ ان کی حمایت کررہا ہے کہ ان کی جیت سے لیبیا میں ایک طرح کا استحکام آئے گا اور وہاں سے شمالی بحر متوسط کی جانب تارکین ِ وطن کے بہاؤ کو روک لگانے میں مدد ملے گی۔ مصر کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر خلیفہ حفتر اسلامی ملیشیاؤں کے قلع قمع میں ناکام رہتے ہیں تو اس سے اس کی قومی سلامتی کو خطرات لاحق رہیں گے اور جنگجو مغربی صحرا سے مصرمیں داخل ہوتے رہیں گے۔

جہاں تک سوڈان کا معاملہ ہے تو اس کی صورت حال تھوڑی سی مختلف ہے۔ عمر حسن البشیر اور مصر کے درمیان کئی ایک وجوہ کی بنا پر کوئی اچھے تعلقات استوار نہیں تھے۔ ان میں حلیب سنگم پر تنازع ، سوڈان کی جانب سے ایتھوپیا کی دریائے نیل پر نشاۃ ثانیہ ڈیم کی تعمیر کی حمایت اور سوڈان کے قطر اور ترکی سے قریبی تعلقات پر ان کے مراسم میں سرد مہری پائی جاتی تھی۔معزول بشیر حکومت اسلام پسندوں سے بھی ہمدردی رکھتی تھی اور اس نے سابق صدر محمد مرسی کی برطرفی کے بعد مصر سے راہ فرار اختیار کر جانے والے الاخوان المسلمون کے متعدد کارکنان کو پناہ دے رکھی تھی۔

لیکن سوڈان میں عمر البشیر کے خلاف احتجاجی مظاہرے بظاہر دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا سبب بنے ہیں۔مصر نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ سوڈان کا استحکام اس کی ترجیح ہے اور وہ سوڈانی عوام کی منشا کی حمایت کرتا ہے۔مصر کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ سوڈان میں ذمے دار کون ہے۔ وزیر دفاع اور سابق نائب صدر عوض بن عوف ، جنھوں نے عمر البشیر کو معزول کیا تھا یا ا ن کے جانشین لیفٹیننٹ جنرل عبدالفتاح البرہان ۔ ہر دو صورتوں میں فوج کا اقتدار میں رہنا مصر کے بہترین مفاد ہے۔ اس سے نہ صرف مصر کی جنوبی سرحد محفوط ہوگی اور تارکینِ وطن کی شمال کی جانب آمد میں بھی کمی واقع آئے گی بلکہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں بھی ایک نئی جہت آئے گی۔

عمرالبشیر کے دورِ حکومت میں الاخوان المسلمون کے کارکنان کی سوڈان سے بے دخلی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں اور یہ اس بات کا اشارہ تھیں کہ وہ مصر کی جانب ہاتھ بڑھانا چاہتے ہیں ۔اب بعد از بشیر نئی عبوری حکومت اس بات کو عملی جامہ پہنا کر اسلام پسندوں کے مخالف سرکاری مؤقف اختیار کرسکتی ہے اور وہ ان ممالک سے بھی اظہارِ لاتعلقی کرسکتی ہے جو الاخوان المسلمون کی کھلم کھلا حمایت کرتے ہیں۔

خلیفہ حفتر مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے قریبی اتحادی ہوسکتے ہیں۔ اگر وہ فاتح کی حیثیت سے ابھرتے ہیں تو دونوں ممالک ہتھیاروں کی اسمگلنگ اور سرحد کے آرپار انتہا پسند جنگجوؤں کی آمد ورفت پر قابو پانے کے لیے بھی مل جل کر کام کریں گے۔ خلیفہ حفتر لیبیا کو مستحکم کرنے کے کسی موقع سے فائدہ اٹھا پاتے ہیں تو یہ مصر کے لیے بھی خود کو دہشت گردی کے خطرات سے محفوظ کرنے کا ایک موقع ہوگا۔

مصر ،لیبیا کے ذریعے اور اس کے ساتھ واقع اپنی اہم زمینی گذرگاہ کو بند کرکے مسلح گروپوں کا ناطقہ بند کرسکتا ہے۔ سوڈا ن کے ذریعے وہ عمر البشیر کے اتحادی ممالک قطر اور ترکی کو دھچکا پہنچا سکتا ہے کیونکہ معزول سوڈانی صدر کی کالعدم جماعت نیشنل کانگریس پارٹی تو خطے میں اسلام پسندوں کی آخری آماج گاہ رہی ہے۔

اگر مصرکے جنوبی اور مغربی ہمسایہ ممالک استحکام سے متعلق اسی طرح کا نقطہ نظر اور قومی سلامتی کی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں تو السیسی حکومت کو پھر یہ یقین دہانی کرائی جا سکتی ہے کہ اس کی سرزمین پر نہ تو مظاہروں اور نہ مسلح جدوجہد کو برآمد کیا جائے گا۔

تاہم مصر کے اسلام پسندوں کے استیصا ل اور فوج کو انچارج بنانے کے فارمولے کا سوڈان اور لیبیا میں بآسانی اطلاق نہیں کیا جاسکتا۔ان دونوں ممالک میں سیاسی پیچیدگی اور متعدد متحارب فریقوں کی موجودگی کے پیش نظر صورت حال یکسر مختلف ہے۔

جن فریقوں کا سوڈان کے سیاسی منظر نامے سے کوئی مفاد وابستہ ہے تو وہ اس بات کے بھی خواہاں ہیں کہ وہاں بہتر انداز میں انتقال اقتدار کا عمل پایہ تکمیل کوپہنچنا چاہیے۔البتہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ سوڈان میں متعلقہ فریق امن کے لیے کسی مفاہمت تک پہنچ جائیں گے لیکن لیبیا میں صورت حال قدرے پیچیدہ ہے۔ خلیفہ حفتر کے فوجیوں کے طرابلس پر قبضے سے نہ تو انھیں قانونی حیثیت حاصل ہوجائے گی اور نہ وہ اسلامی جنگجوؤں کے خلاف حتمی فتح حاصل کر پائیں گے۔

البتہ، یہ پیشین گوئی کرنا مشکل ہے کہ ان دونوں ممالک میں مستقبل قریب میں مکمل استحکام آجائے گا اور مصر کی سرحدیں مکمل طور پر محفوظ ہوجائیں گی۔