وہ وزیراعظم عمران خان کی بجٹ کے بعد تقریر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنازعے کے تناظر میں ’ناموسِ صحابہ بل‘ کی مہم چلا رہے تھے۔سوشل میڈیا پر بلال کے قتل کی مذمت کی جا رہی ہے۔
نئی دہلی اسلام آباد (ملت ٹائمز)
پاکستان میں سوشل میڈیا پر سرگرم اور نوجوانوں کے درمیان مقبول سماجی کارکن بلال خان کے قتل کا واقعہ پیش آیاہے جس کی پاکستان ،ہندوستان سمیت متعدد ممالک میں مذمت کی جارہی ہے ۔ بی بی سی اردو کی رپوٹ کے مطابق اسلام آباد میں پولیس نے اتوار کی شب جاں بحق کئے جانے والے دائیں بازو کے خیالات کے حامی سوشل میڈیا کارکن بلال خان کے قتل کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
بلال کے والد عبداللہ کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق بلال کو اتوار کی رات کو تقریباً 9 بجے تھانہ کراچی کمپنی کی حدود میں سیکٹر جی نائن فور میں نامعلوم افراد نے خنجروں کے وار کر کے قتل کیا۔کراچی کمپنی تھانے کے محرر ایاز خان نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس اس قتل کی ہر پہلو سے تفتیش کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس سوشل میڈیا پر بلال کی سرگرمیوں سے بھی آگاہ ہے اور اس پہلو سے بھی مقدمے کی تفتیش کی جا رہی ہے۔بلال کے والد عبداللہ نے بتایاکہ ان کا بیٹا جو کہ اسلامی یونیورسٹی کا طالب علم تھا، اتوار کی رات اسلام آباد کے مضافاتی علاقے بھارہ کہو میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ موجود تھا۔ان کے مطابق ’بلال کو ایک فون کال آئی لیکن اس نے کہا کہ وہ مہمانوں کے ساتھ مصروف ہے بعد میں بات ہوتی ہے لیکن فون پر دوسری طرف اس کے دوست فوری آنے پر اصرار کر رہے تھے۔‘ان کے مطابق بلال دوستوں سے ملنے کے لیے اپنے چچا کو موٹرسائیکل پر اپنے ساتھ بٹھا کر لے گئے۔
بلال کے والد کا کہنا تھا کہ ’رات ساڑھے آٹھ بجے کا وقت تھا جب میرا بیٹا اور چھوٹا بھائی بھارہ کہو سے نکلے اور ٹھیک ساڑھے نو بجے یعنی ایک گھنٹے بعد مجھے کال موصول ہوئی کہ بلال کو کسی نے خنجر کے وار کر کے قتل کردیا ہے۔‘ان کے مطابق بلال کو ان کے چچا احتشام الحق کے ساتھ زخمی حالت میں پمز ہسپتال منتقل کیا گیا اور بلال کے دل پر گہرا زخم ان کی فوری موت کا سبب بنا جبکہ احتشام کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ان کے مطابق بلال کے چچا نے پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا ہے جبکہ پولیس نے بلال کا فون اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
احتشام الحق کے بیان کے مطابق انھیں جی نائن فور میں ایک نوجوان ملا اور ’بلال سے تعارف کے بعد وہ ہمیں آگے لے کر جا رہا تھا کہ قریب جھاڑیوں سے کچھ افراد نکلے اور خنجروں سے بلال پر حملہ آور ہو گئے۔‘
ایف آئی آر کے مطابق بلال کے جسم پر 17 وار کیے گئے۔ احتشام الحق کے مطابق جب انھوں نے اپنا تعارف کرایا تو پھر ان پر بھی حملہ کیا گیا۔ماضی میں آسیہ بی بی کی رہائی کے معاملے پر بھی وہ اس فیصلے کے خلاف پیغامات دیتے رہے اور حال ہی میں وہ وزیراعظم عمران خان کی بجٹ کے بعد تقریر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنازعے کے تناظر میں ’ناموسِ صحابہ بل‘ کی مہم چلا رہے تھے۔سوشل میڈیا پر بلال کے قتل کی مذمت کی جا رہی ہے۔ صارف بلال فاروقی نے لکھا کہ ایک نوجوان کا قتل افسوسناک ہے۔
ان کے مطابق وہ بلال کو اس وجہ سے جانتے ہیں کہ وہ ان کے ٹویٹس کے نیچے اختلافی تبصرے لکھتے تھے جن کا انھیں مکمل حق حاصل تھا۔
صحافی عمر علی نے بھی بلال کے قتل کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلال خان کے خیالات ان کے اور ان جیسے دیگر افراد سے بالکل متضاد تھے لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا اور ان کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے اور ان کے دوستوں کی جانب سے عائد الزامات کی مفصل تحقیقات ہونی چاہیے ۔
ہندوستان میں بھی سوشل میڈیا صارفین اس کی مذمت کررہے ہیں ۔ محمد فرقان غنی نے فیس بک پر لکھا :یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا !ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا!۔ ایک اور یوزر تابش سحر لکھتے ہیں : بیباک صحافی، عاشقِ صحابی، نظریں عقابی، زلفیں جلالی، چہرہ ہِلالی، زندہ دل نوجوان حق کی خدمت کے جرم میں م±ردہ دل درندوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔محمد بلال تم کامیاب ہوے۔فیصل شیخ نے فیس بک پر لکھا :میرے خون کو بیچنے والے زندہ ہیں، تابندہ ہیں!اس سے بڑھ کرمیرے ل±ہو کی، اور کہو تحقیر ہے کیا؟۔(بی بی سی اردو کے ان پٹ کے ساتھ)