مصری حکومت نے آبائی وطن میں محمد مرسی کی تدفین کیلئے نہیں دی اجازت ۔ شمالی قاہرہ میں ہوئی تجہیز وتکفین

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن اور محمد مرسی کا خاندان طویل عرصے سے یہ کہتا آیا ہے کہ مرسی کو ہائی بلڈ پریشر اور زیابیطس جیسے امراض کا علاج کروانے کے لیے مناسب طبی سہولیات مہیا نہیں کی گئیں اور انھیں مسلسل قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔
قاہرہ (ملت ٹائمز ایم این این )
مصر کی السیسی حکومت نے سابق صدر محمد مرسی کو ان کے آبائی وطن الشرقیہ میں تدفین کی اجازت نہیں دی جس کے بعد شمالی قاہر ہ میں ان کی تجہیز وتکفین عمل میں آئی ۔ ڈاکٹر محمد مرسی کے بیٹے احمد مرسی نے اپنے فیس بک پیج پر بتایاکہ آبائی وطن الشرقیہ میں تدفین کی اجازت نہ ملنے پر مصر کے سابق صدر محمد مرسی کی نمازہ جنازہ شمالی قاہر ہ میں ادا کی گئی جس میں خاندان کے افراد نے شرکت کی اور اخوان المسلمین کے سینئر رہنماﺅں کے ساتھ الوفا الوطن قبرستان میں تدفین عمل میں آئی ۔ احمد مرسی نے یہ وضاحت نہیں کی ہے کہ نمازجنازہ میں خاندان کے کتنے افراد کو شرکت کی اجازت دی گئی ہے تاہم اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر ایک مسیج وائرل ہورہاہے جس کے مطابق صرف دوبیٹے اور ان کے وکیل کو نمازہ جنازہ میں شرکت کی اجازت ملی ۔ مصر کی حکومت نے ڈاکٹر مرسی کی اہلیہ کو چہر ہ تک دیکھنے نہیں دیا ۔

قاہرہ کا ’الوفا والعمل‘ قبرستان جہاں سابق صدر محمد مرسی کی تدفین عمل میں آئی

احمد مرسی نے بتایاکہ توڑا جیل کے ہسپتال میں انہوں نے لاش کو غسل دیا ،جیل کی مسجد میں نمازجنازہ ادا کی اور اخوان المسلمین کے روحانی قبرستان الوفا الوطن میں تدفین عمل میں آئی ۔ احمد مرسی نے یہ بھی بتایاہے کہ ڈاکٹر مرسی کی موت عدالت میں سماعت کے دوران ہوئی ۔
دوسری جانب اخوان المسلمین نے محمد مرسی کی موت کو ’قتل‘ قرار دیتے ہوئے عام لوگوں سے محمد مرسی کے جنازے میں شریک ہونے کی اپیل کی تھی لیکن مصر حکومت نے پورے ملک میں ہائی الرٹ جاری کرکے کسی کو بھی جنازہ میں پہونچے سے روک دیا ۔ اخوان المسلمین نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے یہ بھی اپیل کی ہے کہ وہ اپنے ممالک میں مصری سفارت خانہ کے سامنے احتجاج کریں ۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکن اور محمد مرسی کا خاندان طویل عرصے سے یہ کہتا آیا ہے کہ مرسی کو ہائی بلڈ پریشر اور زیابیطس جیسے امراض کا علاج کروانے کے لیے مناسب طبی سہولیات مہیا نہیں کی گئیں اور انھیں مسلسل قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔

’الوفا والعمل‘ قبرستان کے اردگرد سیکوریٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے جہاں سابق صدر محمد مرسی کی تدفین ہوئی

محمد مرسی پیر کو قاہرہ کی ایک عدالت میں پیشی کے لیے آئے تھے۔ وہ قاہرہ میں فلسطینی جماعت حماس کے ساتھ رابطوں کے حوالے سے جاسوسی کے ایک مقدمے کی کارروائی کے دوران عدالت سے خطاب کرنے کے فوراً بعد گر گئے۔حکام کے مطابق محمد مرسی نے عدالت میں ایک ساو¿نڈ پروف پنجرے سے پانچ منٹ تک بات کی۔مصر کے سرکاری پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ ان کی موت کا اعلان مقامی وقت کے مطابق 4:50 پر کیا گیا۔
محمد مرسی کے خاندان نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ حکام نے بارہا انھیں ان تک رسائی دینے سے انکار کیا تھا اور وہ ان کی صحت کے حوالے سے بہت کم جانتے تھے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ محمد مرسی کو قید کے دوران صرف تین بار اپنے رشتے داروں سے ملنے کی اجازت دی گئی جبکہ انھیں ان کے وکیل اور ڈاکٹر سے ملنے نہیں دیا گیا۔
اخوان المسلمین کے سیاسی بازو دی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی نے محمد مرسی کی موت کو ’قتل’ قرار دیتے ہوئے لوگوں سے محمد مرسی کے جنازے میں شریک ہونے اور دنیا میں موجود مصر کے سفارت خانوں کے باہر مظاہرے کرنے کی اپیل کی ہے۔
’محمد مرسی کو ان کی گرفتاری کے دوران پانچ سال سے زیادہ عرصہ قیدِ تنہائی میں رکھا گیا، انھیں ادویات مہیا نہیں کی گئیں اور انھیں بری خوراک فراہم کی گئی۔ انھیں ڈاکٹروں اور وکلا سے ملنے نہیں دیا گیا یہاں تک کہ انھیں ان کے خاندان سے بات چیت بھی نہیں کرنے دی گئی۔ انھیں ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا گیا۔‘
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے محمد مرسی کی موت کا الزام مصر کے ’غاصبوں‘ پر عائد کیا جبکہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد ال ثانی نے نے ان کی موت پر ’گہرے دکھ‘ کا اظہار کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈپٹی ڈائریکٹر برائے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی امریکہ کا کہنا ہے ’مرسی کو چھ سال تک قیدِ تنہائی میں رکھا گیا جس نے ان کے دماغ اور جسمانی حالت پر قابلِ ذکر اثر ڈالا۔ انھیں موثر اور بھرپور طریقے سے باہر کی دنیا سے کاٹ دیا گیا۔‘ہیومن رائٹس واچ کی مشرقِ وسطیٰ کی ڈائریکٹر سارہ لی وٹسن نے محمد مرسی کی موت کو ’خوفناک لیکن مکمل طور پر قابلِ پیش گوئی‘ قرار دیا ہے۔
محمد مرسی سنہ 1951 میں ضلع شرقیا کے گاو¿ں ال ادوا میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے قاہرہ یونیورسٹی سے انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد امریکہ سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔اخوان المسلیمن نے سنہ 2012 میں صدارتی دوڑ کے اپنے پسندیدہ امیدوار کو مقابلہ چھوڑنے پر مجبور کیے جانے کے بعد محمد مرسی کو اپنا صدارتی امیدوار چنا۔محمد مرسی نے انتخاب میں کامیابی کے بعد تمام مصریوں کا صدر بننے کے عزم کا اظہار کیا۔ ان کے نقادوں کا الزام تھا کہ وہ اپنے وعدوں پر عمل کرنے میں ناکام رہے اور انھوں نے اسلام پسندوں کو سیاسی منظر نامے پر چھا جانے کے مواقعے فراہم کیے اور وہ ملکی معیشت کو اچھی طرح چلانے میں ناکام رہے۔
محمد مرسی کے اقتدار میں ایک سال مکمل ہونے پر لاکھوں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ مصر کی فوج نے 30 جون 2013 کو محمد مرسی کو برطرف کر کے انھیں جیل میں بند کر دیا تھا۔

SHARE