مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے

ڈاکٹر یامین انصاری

 ڈر اس بات کا ہے کہ اگر قانون ہر ہاتھ کا کھلونا بن جائے گا تو پھر پولیس، عدالت اور انصاف صرف مذاق بن کر رہ جائیں گے

جس وقت حکومت ہندامریکی محکمہ خارجہ کی بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق رپورٹ کو خارج کررہی تھی، ٹھیک اسی وقت جھارکھنڈ میں مذہبی جنون پر سوار ایک بھیڑ اس رپورٹ پر اپنی مہر لگا رہی تھی۔ مذہبی نعروں کے درمیان ایک بے بس اور لا چار مسلم نوجوان تبریز انصاری کو محض چوری کے شک کی بنیاد پر کھمبے سے باندھ کر مارا پیٹا جا رہا تھا۔ نہیں، یہ چوری کے شک میں نہیں بلکہ اسے ہندستانی مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی تھی۔ اگر چوری کے شک میں مارا جاتا تو اس سے نام پوچھ کر اس کے مذہب کی شناخت نہیں کی جاتی، اگر صرف چوری کے الزام میں پیٹا جاتا تو اس سے ’جے شری رام‘ اور جے ہنومان ‘ کے نعرے نہیں لگوائے جاتے، اگر چوری کا شک ہوتا تو مذہبی نعروں کے درمیان بھیڑ میں کھڑا ہر شخص تماشائی نہیں ہوتا۔ یہاں تو ’نئے ہندستان‘ میں پروان چڑھنے والی نام نہاد دیش بھکتی کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا، یہ تو مذہبی جنون کی لہر پر سوار ہو کر مسند اقتدار تک پہنچنے والوں کی خاموش حمایت کا نتیجہ تھا، یہ نفرت کی سیاست کا انجام تھا، بلکہ کہیں نہ کہیں ’بھیڑ کے انصاف‘ کو قانونی شکل دے دینے کا انجام تھا کہ کبھی بھی اور کہیں بھی اسی طرح ایک بھیڑ جمع ہوگی اور کسی کو گؤرکشا کے نام پر، کسی کو لو جہاد کے نام پر، کسی کو چھیڑ چھاڑ کے نام پر اور کسی کو چوری کا الزام لگا کر قتل کر دے گی، کیوں کہ ’نئے ہندستان ‘ میں اس طرح کے واقعات ایک دو نہیں، دس بیس نہیں، بلکہ اب یہ واقعات معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ بظاہر ماب لنچنگ کے ان واقعات کا شکار براہ راست مرد ہوئے ہیں، لیکن جنونی بھیڑ کے ہاتھوں مرنے والا مرد کسی خاتون کا شوہر ہوگا، کسی ماں کا بیٹا ہوگا، کسی بہن کا بھائی ہوگا، کسی کے بڑھاپے کا سہارا ہوگا۔آخر خواتین سے ہمدردری کا ڈھونگ کرنے والے سیاستدانوں کو ان متاثرہ خواتین کے درد کا احساس کیوں نہیں ہے، ان سے کوئی ہمدردی کیوں نہیں ہے، ان کی آہ و بکا وہ کیوں نہیں سن پاتے ہیں؟ انہیں اگر واقعی مسلم خواتین سے ہمدردی ہوتی تو اقتدار میں بیٹھے یہ لوگ اس جنونی بھیڑ کو قابو کرنے کی کوشش کرتے، جو خود ہی عدالت اور خود ہی قانون بن کر سرعام لوگوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ کر رہی ہے۔

ہم امریکی رپورٹ کو تو خارج کر سکتے ہیں، لیکن کیا اس تلخ حقیقت کو جھٹلا سکتے ہیں کہ آج ملک کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جہاں مذہب کی بنیاد پر اور مذہب کے نام پر لوگوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا ہو، انھیں مارا پیٹا نہیں جاتا ہو، یہاں تک کہ ان کی جان لے لی جاتی ہے۔اس حقیقت کو بھی ہم نہیں جھٹلا سکتے کہ ان واقعات کو حکمراں طبقہ کی کہیں در پردہ اور کہیں براہ راست حمایت حاصل ہے۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ قانون اپنا کام کرے گا، قصورواروں کو بخشا نہیں جائے گا، مظلوموں کو انصاف ملے گا۔ وہیں دوسری جانب حکمراں طبقہ اور حکومت میں شامل لوگ انہی قصورواروں کا استقبال کرتے ہیں، انہیں گلے میں ہار پہناتے ہیں۔ یہ دوہرا معار آخر کیسے ملک کو مذہبی جنون سے نجات دلائے گا؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ آخر اس رپورٹ میں کیا کہا گیا ہے۔

بین الاقوامی مذہبی آزادی پر امریکہ کی وزارت خارجہ کے ذریعے جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں ہندوستان میں ہجومی تشدداوراقلیتوں بالخصوص مسلمانوںکی قانونی حیثیت کے حوالے سے حکومت پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ امریکی وزیرخارجہ کے ذریعے ہر سال امریکی کانگریس میں پیش کی جاتی ہے۔ بین الاقوامی مذہبی آزادی پرمبنی رپورٹ برائے ۲۰۱۸ء میں ہندوستان سے متعلق باب میں ہجومی تشدد ، اقلیتوں کی قانونی حیثیت کی بنیادو ں پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔اپنی رپورٹ میں امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیونے بتایا ہےکہ ہندوستان میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے مسلمانوں کی مذہبی روایات اور مسلم اداروں کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے اور مسلم تعلیمی اداروں کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا ہوا ہے۔رپورٹ میں کئی شہروں کے نام تبدیل کئے جانے پر بھی حکومت کو نشانے پر لیاگیا ہے۔

اس رپورٹ میں الٰہ آباد کا نام پریاگ راج کئے جانے کا خصوصی تذکرہ کیا گیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی اس رپورٹ  میں ہندوستان کی حکومت کو گؤ رکشکوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کیلئے قانون کے کٹہرے میں کھڑا نہ کرنے کیلئے بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیاہے کہ ہندوستان میں  اقلیتوں کے خلاف مذہبی منافرت پر مبنی حملے، فساد ، امیتاز اور ان کے مذہبی حقوق کو محدود کئے جانے کی اطلاعات ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیاہے کہ بی جے پی کے سینئر لیڈران اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیتے رہے ہیں۔ اس میں جموں و کشمیر کی ۸؍سالہ آصفہ کا بھی ذکر ہے جسے مندر میں  اجتماعی عصمت دری کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

امریکی رپورٹ کو ہم ایک طرف رکھ دیں، لیکن پچھلے چند برسوں میں جو واقعات دنیا بھر میں سرخیاں بنے، انہیں کس منہ سے نظر انداز کریں گے۔ نئی حکومت تشکیل ہونے کے فوراً بعد ؍ 2جون ۲۰۱۴ءکو پونہ میں محمد محسن شیخ اور پھر ۲۰۱۵ء میں دادری کے محمد اخلاق کے قتل سے لے کر پہلو خان، جنید اور ۱۸؍ جون ۲۰۱۹ء کو تبریز انصاری کے قتل تک گزشتہ پانچ سال میںماب لنچنگ کےتقریباً ڈیڑھ سو واقعات ہو چکے ہیں اور ان واقعات میں۲۰۱۵ء سے اب تک تقریباً ۷۵؍ لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں۔ ان میں دلتوں کے ساتھ ہوئے ظلم بھی شامل ہیں۔ لیکن صرف گؤ رکشا کے نام پر ہوئی ہجومی تشدد کی بات کریں تو سرکاری اعداد و شمار کہتے ہیں: ۲۰۱۴ء میں ایسے۳؍ معاملے آئے اور ان میں۱۱؍ افراد زخمی ہوئے۔ جبکہ ۲۰۱۵ء میں اچانک یہ تعداد بڑھ کر ۱۲؍ہو گئی۔ ان۱۲؍معاملات میں ۱۰؍ لوگوں کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر ڈالا گیا، جبکہ۴۸؍ لوگ زخمی ہوئے۔ ۲۰۱۶ء میں گؤرکشا کے نام پر غنڈہ گردی کی وارداتیں دوگنی ہو گئیں۔ جب اس طرح کے ۲۴؍ معاملات میں۸؍ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جبکہ ۵۸؍ لوگوں کو پیٹ پیٹ کر بری طرح زخمی کر دیا گیا۔ ۲۰۱۷ء میں تو گؤرکشا کے نام پر جیسے غنڈہ گردی کا لائسنس مل گیا اور یہ نام نہاد گؤ رکشک بے قابو ہو گئے۔ اس سال کل ۳۷؍ معاملے درج کئے گئے، جن میں۱۱؍افراد کی موت ہوئی، جبکہ ۱۵۲؍ لوگ زخمی ہوئے۔جولائی ۲۰۱۸ء تک ایسے ۹ معاملے سامنے آئے، جن میں پانچ افراد ہلاک اور ۱۶؍ افراد زخمی ہوئے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طورپر گؤ رکشا کے نام پر جولائی ۲۰۱۸ء تک کل ۸۵؍ واقعات رونما ہوئے، جن میں۳۴؍ افراد ہلاک ہوگئے اور۲۸۹؍ لوگوں کو نیم مردہ کر دیا گیا۔ دیگر اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۴ءسے لے کر ۲۰۱۸ء تک گؤرکشا کے نام پر ہوئے ۸۷؍ واقعات میں۵۰؍ فیصد شکار مسلمان ہوئے، جبکہ۲۰؍ فیصد معاملات میں شکار ہوئے لوگوں کا مذہب یا ذات معلوم نہیں ہو پائی۔ وہیں۱۱؍ فیصد دلتوں کو اس طرح کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ گؤرکشکوں نے ہندوؤں کو بھی نہیں چھوڑا۔ ۹؍ فیصد معاملات میں انہیں بھی شکار بنایا گیا، جبکہ قبائلی اور سکھوں کو بھی ایک فیصد معاملات میں شکار ہونا پڑا۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اتنی بھیڑ کہاں سے آتی ہے؟ انہیں کون اکٹھا کرتا ہے؟ پچھلے کچھ عرصہ کے دوران ملک میں ایسے کئی معاملے سرخیوں میں رہے جہاں بھیڑ کے ہاتھوں نہ جانے کتنے لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ایک ریسرچ کے دوران پایا گیا کہ پہلے لوگوں کو کسی مسئلہ پر زبردستی بھڑکایا اور اکسایا جاتا ہے اور پھر اس غصے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ آج سوشل میڈیا ایک ایسا ذریعہ بن گیاہے، جس کی مدد سے مختصر مدت میں ہی لوگوں کو ایک جگہ پر جمع کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کو مذہب کے نام پر، گؤرکشا کے نام پر، عزت و وقارکے نام پر اور دیش بھکتی کے نام پر اس قدر بھڑکایا جاتا ہے، کہ وہ بھیڑ کا حصہ بن جاتے ہیں۔  کہتے ہیں کہ بھیڑ کی کوئی شکل نہیں ہوتی۔ اس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور اسی بات کا فائدہ ہمیشہ ماب لنچنگ کرنے والی بھیڑ اٹھاتی ہے۔ اس بھیڑ کو جمع کون کرتا ہے؟ انہیں اکساتا – بھڑکاتا کون ہے؟ جواب ہم سب جانتے ہیں، لیکن پھر بھی سب خاموش ہیں۔ ڈر اس بات کا ہے کہ اگر قانون ہر ہاتھ کا کھلونا ہو جائے گا تو پھر پولیس، عدالت اور انصاف صرف مذاق بن کر رہ جائیں گے۔ ؎

اس لئے بقول شاعر

مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے

منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے

(مضمون نگار انقلاب دہلی کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں)

yameen@inquilab.com

 

 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں