مدرسہ ڈسکورس:امریکی سازش اور پیروپیگنڈہ!

آج بھی ہم ان سے بحث کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔ اپنے علم اور دلائل پر مکمل بھروسہ ہے۔ وہ مجھے اسلامی عقائد اور افکار کے خلاف کسی بھی دلیل سے قائل نہیں کرسکتے ہیں۔ ہاں! ہم اپنے اندر یہ حوصلہ رکھتے ہیں کہ سامنے والے کو اپنے دلائل سے قائل کرلیں گے
خبر در خبر (616)
شمس تبریز قاسمی
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب سمینار ہال سے باہر نکل کر آئے۔ میں ساتھ تھا اور کسی مسئلے پر مولانا سے گفتگو کررہاتھا۔ کچھ ہی دیر میں مولانا فہیم اختر ندوی وہاں پہونچے اور مولاناس ے کہاکہ میرے وہاٹس ایپ پر ایک تحریر آئی ہے جس میں مدرسہ ڈسکور س کے بارے میں اس طرح کہا گیا ہے اور آپ کی شرکت پر اعتراض کیاگیا ہے۔ مولانا نے اسے یکسر نظر انداز کردیا۔وہاں کچھ اور دارالعلوم دیوبند کے علمائ پہونچ گئے جنہوں نے مولانا کی آمد کو سراہا اور کہاکہ آپ جیسے لوگوں کا ایسے اسٹیج پر آنا ضروری ہے اور وقت کا تقاضا ہے۔
یہ بات 23 جولائی کی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سی آئی ٹی ہال میں جامعہ کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز اور انسٹی ٹیوٹ آف ریلجیس اینڈ سوشل تھاٹس کے اشتراک سے مدرسہ ڈسکورسز انڈیا کے زیر اہتمام اسلامی فکر کو درپیش چیلنجز اور فضلائ مدارس کا رول “پر ایک سمینار تھا۔ صدارت کا فریضہ معروف اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع صاحب انجام دے رہے تھے۔ وہاں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی بھی تشریف فرمات ھے۔ جامعہ کی وی سی پروفیسر نجمہ اختر نے اپنے افتتاحی خطاب میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی شرکت پر نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کل تک ہم نیچے بیٹھ کر مولانا رحمانی سے استفادہ کررہے تھے۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ آج ان کے ساتھ اسٹیج شیئر کرنے کا موقع ملاہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے تقریبا 40 منٹ پر مشتمل اپنا کلیدی خطاب پیش کیا۔ میں نے دیکھا کہ پروفیسر نجمہ اختر بہت ہی توجہ سے سن رہی ہیں۔ ان کے بغل میں بیٹھے جامعہ کے ایک پروفیسر صاحب نے کئی مرتبہ کچھ کہا اور ہرمرتبہ انہوں نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے منع کیا۔ مولانا کا خطاب مکمل ہونے کے بعد انہوں نے تقریر کی تعریف کی۔ انا?نسر نے اگلے مہمان کے طور پر پروفیسر ابراہیم موسی کو مدعو کیا۔ ادھر جامعہ کی وی سی صاحبہ وہاں سے دوسری میٹنگ کیلئے چلی گئیں۔
سوشل میڈیا پر ایک گروہ نے ہنگامہ برپاکر رکھا ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز کی فنڈنگ ایک عیسائی یونیورسیٹی کررہی ہے اور اس کے پس پردہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف گہری سازش ہے۔ جو لوگ اس سے وابستہ ہیں وہ سب کے سب عیسائی اور یہودی ایجنٹ ہیں اور مولانا رحمانی نے وہاں جاکر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ فتنہ کو بڑھاوا ملاہے اور اب مولانا کا استعمال کرکے یہ بآسانی اپنے فتنہ کو وسعت دیں گے۔ ایک صاحب نے پہلے فیس بک پر یہ پوسٹ لکھی اور اس کے بعد تنقید کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کسی نے مدرسہ ڈسکورسز کو اسلام کے خلاف سازش قرار دیا تو کسی نے فتنہ بتایا جب کہ کچھ نے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی شرکت پر سنگین اعتراض کیا۔ کسی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ پر عیسائی ایجنڈا کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا۔ کسی نے وہاں کے شعبہ اسلامیات کو ہی اسلامیات کے خلاف بتایا۔ یہ وہی گروہ ہے جو اس سے قبل بھی اس طرح کے معاملے پر غیر ضروی ہنگامہ کرچکاہے۔ آپ کو یاد ہوگا! دار العلوم دیوبند میں جب اچانک اندریش کمار کے پہونچے پر مہتمم مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب نے ملاقات کی تو اس وقت بھی اسی طرح کا غیر ضروری ہنگامہ کیاگیاتھا۔ حالیہ دنوں میں جنہوں نے اس بحث کی شروعات کی ہے وہ موقع بہ موقع اس طرح کا شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں۔
ملت ٹائمز کے بارے میں اپنے حلقہ احباب کے درمیان بتاتے ہیں کہ آر ایس ایس سے اس کی فنڈنگ ہوتی ہے اور اس مفروضہ کی بنیاد پر متعدد مرتبہ ہنگامہ بھی برپا کراچکے ہیں۔ ایک مرتبہ وہ ملت ٹائمز کے نام نوٹس بھی بھیج چکے ہیں جس میں انہوں نے ملت ٹائمز پر دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے سی بی آئی اور این آئی اے سمیت متعدد تحقیقی ایجنسیوں سے انکوائر ی کا مطالبہ کیا اور حکومت سے اپیل کی کہ وہ ملت ٹائمز کو بند کرائے، اس سے ملک کی داخلہ سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ بہر حال یہ بات پرانی ہے اور اسی وقت ملت ٹائمز کے لیگل ایڈوائز نے نوٹس کا جواب دے دیاتھا۔
سوشل میڈیا پرجو لوگ تنقید کررہے ہیں ان میں کئی ایک ہمارے دوست بھی ہیں۔ ان میں سے پانچ سے ہم نے فون کرکے پوچھاکہ مدرسہ ڈسکورسز کیا ہے تو انہوں نے بتایا۔۔۔امریکہ میں عیسائیوں کی نوٹر ڈریم یونیورسیٹی ہے۔ اس نے اپنے یہاں مدرسہ ڈسکورسز نام سے ایک شعبہ قائم کیا ہے جس میں وہ ہر سال ہندوستان اور پاکستان کے مدارس سے کچھ مخصوص طلبہ کو لیکر جاتے ہیں اور دوسال تک انہیں پڑھاتے ہیں۔ ان کا نصاب اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف ہے۔ رفتہ رفتہ وہاں جانے والے طلبہ ان کے افکار ونظریات سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ اس کا مقصد اسلام کو فکری طور پر نقصان پہونچانا اور مسلمانوں میں سے ہی مسلمانوں کے درمیان غدار پیدا کرناہے۔ یہ معلومات ان لوگوں نے دی جو اس پر تنقید کررہے ہیں۔
کورس کیسے شروع ہوا ،کیا پس منظر ہے کچھ معلوم نہیں ہے ان کے پاس صرف دلیل یہ ہے کہ امریکہ کی کیتھولک یونیورسیٹی کے تحت ہے اس لئے ہمارے خلاف گہری سازش ہے۔

https://www.facebook.com/millattimes/videos/342236630017486/

جو لوگ یہ کورس کررہے ہیں انہوں نے بتایاکہ یہ کورس آن لائن ہے۔ ہفتہ میں چند دن ڈیڑھ دو گھنٹے کی آن لائن کلاس ہوتی ہے۔ اسلامی افکار، فقہ، اور حالات حاضرہ سمیت کئی طرح کے موضوعات پر لیکچرز ہوتے ہیں۔ ایک لنک ہوتاہے جو تمام طلبہ کے پاس پہونچتاہے۔ سوال وجواب کا مکمل اختیار ملتاہے۔ یہ کورس کرنے والے امریکہ نہیں جاتے ہیں بلکہ ہندوستان میں ہی موجود ہوتے ہیں۔ یہاں انہیں کسی خاص جگہ پر اکٹھانہیں کیاجاتاہے بلکہ سبھی اپنی اپنی جگہ ہوتے ہیں اور وہیں سے لیکچر سنتے ہیں۔ جو سوال دل میں آتا ہے وہ کرتے ہیں۔
یہ کورس کرانے کا مقصد کیاہے؟نوٹرڈیم یونیورسیٹی نے اپنے ایک شعبہ میں اس کی اجازت کیوں دے رکھی ہے؟ امریکہ سے کسی خیر کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ یہ خدشات مستقل ایک موضوع ہیں جس پر ریسرچ اور غور وفکرکرنا ضروری ہے لیکن کیا محض ان خدشات کی بنیاد پر اسے ردکرنے اور فتنہ قرار دینے کا جواز پیدا ہوگیا ہے۔ فرض کرلیجئے یہ اسلام کے خلاف ایک سازش ہے۔ اس کا مقصد مسلمانوں کے افکار کو گمراہی کے دلدل میں پہونچانا ہے لیکن جو لوگ یہاں سے جارہے ہیں وہ دارالعلوم دیوبند اور دیگر اداروں کے فضلائ ہیں۔ کیا ان کی تعلیم وتربیت اتنی کمزور ہوئی ہے کہ وہ محض اپنے گھر میں چند لیکچرز سن کر اپنے مذہب سے بیزا ر ہوجائیں گے اور اپنی فکر کی جگہ کچھ اور مسلط کرلیں گے۔ کیا دارالعلوم دیوبند کے فضلائ میں اتنی قابلیت اور صلاحیت نہیں ہے کہ وہ کسی سے بحث کرسکیں اور غلط نظریات کی تردید کرسکیں اور سوالات کرسکیں اور یہ سب موقع ایسی جگہ پر ملتاہے جہاں کوئی نفسیاتی دبا? نہیں ہوتاہے، کوئی خوف نہیں ہوتاہے۔ جب آمنے سامنے کوئی بحث ہوتی ہے تو کبھی سامنے والے کے بڑے ہونے کا احساس ہوتاہے، اور کبھی کچھ اور خوف ہوتاہے۔ کبھی سوال کرنے میں ہچکچاہٹ ہوتی ہے لیکن آن لائن میں ایسا کوئی مسئلہ بھی نہیں ہے۔ ان سب کے باوجود اگر یہ کہا جاتاہے کہ یہ اسلام کے خلاف سازش ہے۔ اس کورس کا حصہ بننے سے مدارس کے فضلائ بھٹک جائیں گے تومیرا خیال ہے کہ ایسی بات کرنے والے دارالعلوم دیوبند اور ان اداروں کی توہین کررہے ہیں اور ان کی عظمت کو داغدار کررہے ہیں جن کا مقصد اسلام کے خلاف ہونے والی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنا اور باطل افکار ونظریات کو مستر د کرنا اور دلائل سے اپنے موقف کو دنیا کے سامنے پیش کرناہے۔ عقلمندی اور دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان کے مشن کو ناکام بنانے کیلئے ان کے ہی بچھائے ہوئے جال کا استعمال کریں۔ ماضی میں ہمارے اکابرین نے ایسا کیاہے اور آج بھی ہم کرسکتے ہیں۔ ہمارا مذہب، ہماری فکر اور ہمارا دین اتنا پختہ ہے کہ کسی کو بھی آسانی سے بہکایا نہیں جاسکتا ہے۔ یہ مذاکرات اور ڈائیلاگ کا دور ہے جس میں مناظرہ کی جگہ مباحثہ نے رواج پالیاہے۔
غالبا 2017 میں پہلی مرتبہ اس کورس کیلئے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں انٹر ویو ہوا تھا۔ بڑی تعداد میں طلبہ نے حصہ لیاتھا جس میں محدود لوگوں کا داخلہ ہوا۔ مولانا وارث مظہر ی ہندوستان میں اس کے ذمہ دار ہیں۔ وہ تنظیم ابنائے قدیم سے وابستہ ہیں۔ ماہنامہ ترجمان دارالعلوم کے ایڈیٹر ہیں اور جامعہ ہمدرد کے شعبہ اسلامیات میں اسسٹنٹ پروفیسر بھی ہیں۔ معروف عالم دین اور اسلامک فقہ اکیڈمی کے سکریٹری مولانا امین عثمانی اور دیگر اہم شخصیات اس کی پالیسی بنانے میں شروع سے شریک ہیں۔
یہ کورس کسی بھی ایک مدرسہ کیلئے خاص نہیں ہے۔ اس میں دیوبند، ندوہ، تیمیہ، فلاح، اشرفیہ، اصلاح سمیت کئی سارے مدرسہ کے طلبہ کی دلچسپی ہے۔ دار العلوم دیوبند سے فارغ ہمارے کئی دوستوں کابھی داخلہ ہوا تھا۔ ایک نے چند ماہ بعد چھوڑ دیا بقیہ شریک ہیں۔چھوڑنے والے نے بتایاکہ مجھے کچھ عجیب سے لگ رہاتھا اور وقت کی بھی کمی تھی۔ جن لوگوں نے اس کورس کو کیا انہیں امید تھی کہ اسے بہانے امریکہ جانے کا موقع مل جائے گا لیکن انہیں نیپال اور قطر کا دورہ کراکر انتظامیہ نے اکتفا ئ کرلیا۔ یہ سارے فضلائ دار العلوم کا نظریہ آج بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ ان کی دیوبند یت پر کوئی آنچ نہیں آئی ہے۔ آج بھی کوئی اسلام اور دار العلوم دیوبند کے بارے میں حقائق کے خلاف کچھ بولتاہے تو یہ ان کی کلاس لیتے ہیں اور مضبوطی سے اپنے دلائل پیش کرتے ہیں۔

مدرسہ ڈسکورسز اور اس میں مولانا رحمانی کی شرکت پر جو اعتراض کررہے ہیں ان سے درخواست ہے کہ آپ مولانا کا کلیدی خطبہ سنیئے۔ یہ کورس کیوں شروع ہوا، کیا مقصد ہے اس کی بھی تحقیق کیجئے!
پروفیسر ابراہیم موسی کا پورا خطاب موجود ہے اسے بھی سنیے۔ یہ کورس امریکہ کی نوٹر ڈیم یویونیورسیٹی کا پروجیکٹ ہے جس کے بانی اور ذمہ دار پروفیسر ابراہیم موسی ہیں۔ دار العلوم ندوة العلمائ کے فاضل ہیں اور دار العلوم دیوبند سے بھی وہ تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔
نظریات میں اختلاف ہونے کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہونا چاہیئے ہم فورا کسی کی کوششوں کو فتنہ قرار دے دیں اور ایسے لوگوں کو ملحد اور کافر بتادیں!
یاد رکھیے! یہ خلافت بنوعباسیہ اور خلافت عثمانیہ کا عہد نہیں ہے جس میں مسلمانوں کو پوری دنیا میں غلبہ حاصل تھا۔ آج سپر پاور دوسری قوم ہے۔ سرحدوں سے زیادہ افکار پر حملے ہورہے ہیں۔جس طرح ہمارے علمائ کرام اسلام پر ہونے والے اعتراض سے بے چین اور پریشان ہوتے ہیں اسی طرح دوسرے مسلمان بھی ہیں جو اس طرح کی کیفیات سے دوچار ہیں اور اس کے دفاع کیلئے اپنے انداز میں کوششیں کررہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے طریقہ کا رسے اختلاف ہوسکتاہے اور کرنا چاہیئے لیکن یہ مخالفت میں تبدیل نہیں ہونی چاہیئے۔ اس بنیاد پر کسی کو ملحد، امریکی ایجنٹ اور اسلام کا دشمن قرار دینا زیب نہیں دیتاہے اور نہ ہی مہذب قوموں میں ایسی کوئی روایت رہی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم کسی چیز کی تردید میں بہت جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے خطاب میں اس کا اہتمام کے ساتھ تذکرہ کیا اور دو مثال پیش کی۔ ایک یہ کہ آج سے پچاس سال قبل جب امریکہ چاند پر گیاتو ہمارے علمائ نے اس کا صاف لفظوں میں انکار کیا اور کہاکہ یہ ممکن نہیں ہے۔ دوسری مثال یہ کہ حدیث میں آیاہے کہ قرب قیامت میں یہودی فلسطین میں جمع ہوجائیں گے۔ لوگوں نے اس حدیث کو غلط ٹھہرایا کیوں کہ یہودی اس وقت یورپ اور پوری دنیا میں بھٹک رہے تھے لیکن آج سارے جمع ہیں۔
اسی دن شام کو پروفیسر اختر الواسع صاحب کا میرے پاس فون آیا۔ بات سمینار تک پہونچ گئی اور ہم نے کہاکہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی شرکت پر اعتراض کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کوئی شیر خوار بچہ نہیں ہیں جسے جو چاہے اچک لے۔ وہ ذی ہوش، عقلمند عالم ربانی ہیں۔ انہوں نے یہاں کوئی غلط بات نہیں کہی ہے۔ علم کلام اور اسلامی افکار پر جامع خطبہ پیش کیا ہے جس سے لوگوں کو سوچنے سمجھنے کیلئے رہنمائی ملی ہے۔ یہ علمائ کرام ہمارے رہنما اور قائد ہیں۔
یہ بات ہمیشہ ذہن نشیں رہنی چاہیئے کہ عسکری میدان ہو یا فکری محاذ جنگ میں کامیابی ہمیشہ انہیں ملتی ہے جو رسک لیتے ہیں۔ قلعہ بند ہوکر تحفظ حاصل کرنے کے بجائے میدان میں دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور دشمنوں کو اسی کی تدبیر سے مات دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اسلام دنیا کا واحد سچا مذہب ہے۔ اس کے افکار ونظریات میں بے پناہ قوت، وسعت اور صداقت ہے۔ دنیا کا کوئی بھی مفکر اور اسکالر اسلام کے ماننے والوں کو بھٹکانے میں کامیا ب نہ ہوا ہے اور نہ ہوسکتاہے۔ ہاں! گمراہی جن کا مقدر ہوچکی ہے وہ سات پردے میں رہنے کے باوجود بھی گمراہ ہوجائے گا۔ اس لئے اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کیجئے۔ جرات کا مظاہرہ کیجئے۔
2017 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس ایک اسکول میں پہلی مرتبہ پروفیسر ابراہیم موسی سے میر ی ملاقات ہوئی اور وہیں کسی مسئلے پر ان کے ساتھ بحث چھڑ گئی تقریبا ایک گھنٹے تک بحث ہوتی رہی۔ ان کے اپنے دلائل تھے میرے پاس اپنے دلائل تھے۔ درمیان میں کئی لوگوں نے آکر کہاکہ یہ صاحب اس کے ڈائریکٹر ہیں، ان سے بحث کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہم نے انہیں منع کیا اور گفتگو جاری رکھی۔ آج بھی ہم ان سے بحث کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔ اپنے علم اور دلائل پر مکمل بھروسہ ہے۔ وہ مجھے اسلامی عقائد اور افکار کے خلاف کسی بھی دلیل سے قائل نہیں کرسکتے ہیں۔ ہاں! ہم اپنے اندر یہ حوصلہ رکھتے ہیں کہ سامنے والے کو اپنے دلائل سے قائل کرلیں گے۔
stqasmi@gmail.com

SHARE