مسلمان مجاہدین آزادی: ہیں عام ہمارے افسانے دیوار چمن سے زنداں تک 

 نثار احمد

آج وطن عزیز آزادی کا 73واں جشن منا رہا ہے،آج ہی کے دن اگست 1947 کو ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا اور دنیا کے جغرافیے میں ہندوستان کو اک آزاد ملک کے طور پر جگہ ملی،لیکن اہل ہند کو اس آزادی کی بھاری قیمت چکانی پڑی تھی، بہت سے لوگوں نے اس آزادی کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دیں،سینکڑوں لوگ پھانسی کے پھندے پر جھول گئے،ہزاروں کو جیل کی کال کوٹھری میں محبوس کر دیا گیا اور تب جا کر یہ ملک آزاد ہوا_ 

آزادی کی اس لڑائی میں مسلمان ہر طرح سے پیش پیش تھے لیکن یے ہماری ستم ظریفی ہے یا یوں کہہ لیں کہ تاریخ نویسوں کی تنگ نظری نے ہمارے مجاہدین آزادی کو حاشیے پر دھکیل دیا، جو لوگ معتبر تاریخ داں سمجھے جاتے ہیں انہوں نے اکّا دکّا کہیں کہیں کسی فردِ واحد کا ذکر کیا ہے،لیکِن ان دو چند ناموں کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے نام ہیں جنہوں نے آزادی کے جدّ و جہد میں کارہائے نمایاں انجام دیے،اور بہتوں نے اپنی جان کی قربانی بھی دے دی، ہماری یے بد قسمتی ہے کہ نہ تو ہم تاریخ جاننا چاہتے ہیں اور نہ پڑھنا چاہتے ہیں،جن لوگوں کا آزادی میں رتّی برابر بھی رول نہیں تھی بلکہ ٹھیک اُس کے اُلٹ انہوں نے انگریزوں سے معافی مانگی ان کی غلامی قبول کی آج وہ تاریخ کے صفحات میں مجاہد گردانے جا رہے ہیں،اور جنہوں نے اس وطن کے لیے اپنی جان تک قربان کر دی،اپنی پوری زندگی دشمنوں سے لڑتے ہوئے گزار دی،قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا آج تاریخ کے صفحات کے حاشیے میں بھی اُنکا نام نہیں ہے_ 

زندہ قومیں اپنی تاریخ فراموش نہیں کرتیں،اپنے اجداد کے کارنامے انہیں یاد ہوتے ہیں، باضمیر لوگ ان سے سبق حاصل کرتے ہیں،اپنے اجداد کے کارناموں کو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کرتے ہیں، ہمیں بھی یہی کرنا چاہیے،آج ہم میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جو اپنے بزرگوں کی قربانی سے واقفیت رکھتے ہیں،یا ان کے کارناموں کو جاننے میں دلچسپی ہے؟ بہت مشکل سے دو چار بزرگوں کے نام ہم جانتے ہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تاریخ پڑھیں،پڑھائیں،یاد رکھیں اور محفوظ کریں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخ نویسی اور تاریخ دانی کے لیے آسمان سے اب کوئی فرشتہ نہیں آئیگا،یہ کام مجھے کرنا ہوگا, آپ کو کرنا ہوگا،ہم سب کو کرنا ہوگا،اور یہی ان اکابرین کے لیے سچّا خراج عقیدت ہوگا_ 

آزادی کی کہانی: 

جنگ آزادی کی ابتدا کب ہوئی اس میں کلام ہے،تاریخ نویس اس کو اپنے اپنے نظریے کے اعتبار سے اس کو دیکھتے ہیں، عام مؤرخین کی رائے یہ ہے کہ آزادی کی پہلی لڑائی 1857 میں ہوئی، جسے ہندوستانی تاریخ میں قیامت صغریٰ کے نام سے جانا جاتا ہے،لیکِن اس سے ایک صدی قبل سے ہی انگریزوں سے رگڑا شروع ہو گیا تھا، 1754 میں نواب سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان فورٹ ولیم پر حملہ کر کے انگریزوں کو دھول چٹا چکے تھے، اسے انگریزوں کے خلاف پہلی مسلم اور منظّم جنگ قرار دیا جا سکتا ہے، علی وردی خان کی موت کے بعد 1757 میں نواب سراج الدولہ کا سامنا اپنے ہی دار السلطنت مرشد آباد میں انگریزوں سے ہوا جس میں نواب سراج الدولہ شہید ہو گئے، 1757 ہی میں پلاسی میں اور 1762 میں بکسر میں ہندوستانی افواج کو منہ کی کھانی پڑی،اس کے بعد بہار،بنگال اور اڑیسہ پر پوری طرح سے انگریزوں کا قبضہ ہو گیا _ 

سلطان حیدر علی (1782) اور ان کے صاحبزادے سلطان ٹیپو کے بغیر جنگ آزادی کی تاریخ ادھوری ہے، سلطان حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چار جنگیں کیں، 1792 میں دوسری جنگ ہوئی جس میں اپنوں کی غدّاری کی وجہ سے سلطان کو معاہدہ پر مجبور ہونا پڑا، تین کروڑ روپے،نصف علاقہ اور دو شہزادوں کو کو بطورِ یرغمال انگریزوں کے حوالے کرنا پڑا_ 

ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:

سب سے پہلا شخص جسکو اس خطرے کا احساس ہوا وہ میسور کا بلند ہمت اور غیور فرمانروا فتح علی خان ٹیپو سلطان تھا،جس نے اپنی بالغ نظری اور غیر معمولی ذہانت سے یہ بات محسوس کر لی کہ انگریز اسی طرح ایک ایک صوبہ ایک ایک ریاست ہضم کرتے رہینگے اور اگر کوئی منظّم طاقت ان کے مقابلے میں نہ آئی تو آخر کار یہ پورا ملک انکا لقمہ تر بن جائیگا،چنانچہ انہوں نے انگریزوں سے جنگ کا فیصلہ کیا،اور اپنے پورے ساز و سامان وسائل اور فوجی تیاریوں کے ساتھ ان کے مقابلے میں آ گئے_

ٹیپو نے ہندوستانی راجاؤں مہاراجا وں اور دیگر نواب و سلاطین کو انگریزوں کے خلاف جنگ لڑنے پر آمادہ کر لیا،سلطان ترکی اور دیگر حکمرانوں سے خط و کتابت کیا،انگریز ہار جاتے مگر جنوب کے امراء انگریز کے ساتھ مل گئے،آخر کار 1799 میں دکن کے سرنگا پٹنم میں میں سلطان ٹیپو کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف مشہور رن ہوا جس میں سلطان ٹیپو شہید ہو گئے،ٹیپو کا مشہور قول تھا’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے، سلطان نے اسے سچ کر دکھایا،جنرل ہارس کو جب ٹیپو کی شہادت کی خبر ملی تو وہ دوڑتا ہوا آیا اور سلطان کی نعش پر کھڑا ہو کر اس نے یہ جملہ کئی بار دہرایا’ آج سے ہندوستان ہمارا ہے_

بحوالہ، ہندوستانی مسلمان _ ۱۳۷ 

شاہ ولی اللہ اور تحریک آزادی: 

آہستہ آہستہ انگریز ہندوستان پر حاوی ہو رہے تھے،مغلیہ سلطنت کا چراغ بجھنے ہی والا تھا،ٹیپو کی شہادت کے بعد جنوبی ہند میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا قبضہ ہو گیا تھا اسی زمانے میں دہلی میں ایک تحریک وجود میں آئی جس کے بانی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تھے،اُن کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز دہلوی نے اپنے والد کی تحریک کو آگے بڑھایا، شاہ عبدالعزیز دہلوی نے ہی 1803 میں ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا مشہور فتویٰ دیا جو انگریزوں کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان تھا_ 

لبریشن مومنٹ: 

اس مومنٹ کا مقصد انگریزوں سے لڑنے کے لیے تمام برادرانِ وطن کو ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا،لیکن یہ بر وقت ہوتا ہوا نہیں دکھ رہا تھا، سید احمد رائے بریلوی اس کے صدر تھے،شاہ اسماعیل شہید اور مولوی عبدالحئی وغیرہ اس کے رکن تھے جو ہندوستان بھر میں گھوم گھوم کر انگریزوں کے خلاف لوگوں کو متحد کر رہے تھے، اسی ضمن میں بالا کوٹ نامی جگہ پر مشہور جنگ ہوئی،در اصل کچھ سکھ بادشاہ انگریز کے حمایتی تھے جس کی وجہ سے 1831 میں بالا کوٹ میں جنگ ہوئی جس میں شاہ اسماعیل اور سید احمد شہید اپنے ہزاروں رفقا کے ساتھ شہید ہو گئے،پر یہ تحریک برابر چلتی رہی_ 

1857 کی جنگ آزادی 

انگریز جیسے جیسے ہندوستان پر حاوی ہوتے گئے ویسے ویسے انکا ظلم o ستم بڑھتا گیا جس کے نتیجے میں 1857 جیسا اندوہناک واقعہ پیش آیا،اس آگ نے پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،حاجی امداد اللہ مہاجر مکی،مولانا رشید احمد گنگوہی،مولانا قاسم نانوتوی،حافظ ضامن شہید،مولانا منیر نانوتوی،مولانا فضل حق خیرآبادی،مولانا جعفر تھانیسری،رحمت اللہ کیرانوی،احمد اللہ شاہ مدراسی،مولانا عبد الحئی،ولایت علی عظیم آبادی اور عنایت علی عظیم آبادی جیسے علماء اور مجاہدین سر فہرست ہیں جنہوں نے انگریزوں سے لوہا لیا،علماء نے انگریزوں کے خلاف کئی فتوے صادر کیے اور لوگوں کو انگریزوں کے خلاف لڑائی پر ابھارا،یے حضرات بنفس نفیس خود بھی لڑائی میں شریک ہوئے،جس کے عوض میں بہت سے علماء کو انگریزوں کی عتاب کا شکار ہونا پڑا،بہت سے لوگوں کو جیل کی کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا،بہت سو کو کالا پانی کی سزا ہوئی،مولانا جعفر تھانیسری اپنی کتاب کالا پانی میں تحریر فرماتے ہیں: 

ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں،پیروں میں بیڑیاں،جسم پر جیل کا لباس اور کمر پر لوہے کی سلاخیں تھیں،انگریزوں نے ہم تین علماء کے لیے خاص لوہے کے قفس تیار کروائے،اور ہمیں ان میں ڈال دیا گیا،ان پنجروں میں چونچ دار سلاخیں بھی لگوائیں جس کی وجہ سے ہم نہ سہارا لے سکتے تھے اور نہ بیٹھ سکتے تھے،ہماری آنکھوں سے آنسو اور پیروں سے خون بہہ رہے تھے،غدر کے ملزمان انگریزوں کی نگاہ میں اتنے بڑے مجرم سمجھے گئے کہ 1857 میں پکڑے گئے لوگوں کو یا تو سر عام پھانسی دے دی گئی یا بہت سے لوگوں کو اسی جزیرہ انڈمان میں موت سے بد تر زندگی گزارنے کے لیے بھیج دیا گیا

کانگریس کی جہد آزادی اور مسلمان:

انگریزوں سے لڑائی لڑنے میں تمام طبقے کے لوگ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چل رہے تھے،برطانوی راج کے خلاف جد و جہد کرنے اور ہندوستانیوں کو اس سامراجیت سے نجات دلانے کے لیے 28 دسمبر 1885 کو انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آیا،ایلن اوکٹوین ہیوم، دادا بھائی نوروجی،ڈنشا واچا،ومیش چندر بنرجی،سریندر ناتھ بنرجی،منموہن گھوش اور ویلیم ویڈر برن اس میں پیش پیش تھے،بدرالدین طیّب جی اور رحمت اللہ سیانی بھی اس میں شریک تھے،بعد میں مولانا ابوالکلام آزاد جیسے دور ہیں رہنما بھی کانگریس سی وابستہ ہوئے جنہوں نے آزادی کی لڑائی میں اہم رول ادا کیا_ 

تحریک ریشمی رومال:

تحریک ریشمی رومال سیاسی اور تاریخی دونوں اعتبار سے نہایت اہمیت کی حامل ہے،تاریخ کی بیشتر کتابوں میں اسکا ذکر تو ملتا ہے،لیکِن جتنی اہمیت اسکو ملنی چاہیے تھی وہ نہیں مل سکی،تاریخ کے صفحات میں اس تحریک کے لیے مزید جگہ درکار تھے،آزادی کی لڑائی میں اس تحریک کا رول انتہائی اہم ہے،اس تحریک کے بانی شیخ الہند محمود حسن دیوبندی تھے،1912 میں عالمی جنگ چھڑ جانے کے بعد شیخ الہند مولانا محمود حسن نے محسوس کیا کہ یہی ہندوستان کی آزادی کا صحیح وقت ہے،لہٰذا انہوں نے مشرق وسطی کے سلاطین کے پاس ہندوستان کی آزادی کے لیے خطوط لکھے،جن میں انہوں نے ترکی،افغانستان،ایران اور وسطی خلافت عثمانیہ کے متحدہ طاقتوں سے ہندوستان کی آزادی گزارش کی، عبید اللہ سندھی کو افغانستان بھیجا،اور خود ترکی و دیگر ممالک کے سفر پر روانہ ہو گئے تاکہ مسلم حکمرانوں سے مدد لےکر ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کرا سکیں، اسی سلسلے میں مولانا محمود حسن کی اپنے رفقاء سے خط و کتابت زرد رنگ کے رومال میں ہوتی تھی،تاریخ میں یہ تحریک ریشمی رومال کے نام سے مشہور ہوئی،جو خطوط پکڑے گئے وہ آج بھی انڈیا آفس لائبریری لندن کے پولیٹیکل اور سیکریٹیریٹ شعبہ میں من و عن موجود ہیں_

جمعیت علمائے ہند: 

جمعیت علمائے ہند کا قیام 1919 میں عمل میں آیا،مسلما نوں کی فلاح اور ہندوستان کی آزادی ہی اس تحریک کا مقصد تھا،شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی،مولانا حسین احمد مدنی،عطاءاللہ شاہ بُخاری،مولانا ثناء اللہ امرتسری،مفتی کفایت اللہ دہلوی،مولانا محمد علی جوہر، شوکت علی گوہر،مولانا ابو المحاسن سجاد بہاری،مولانا احمد علی لاہوری،مولانا ابو الکلام آزاد،حفظ الرحمن سیہاروی،مولانا احمد سعید دہلوی اور مولانا سید محمد میاں دیوبندی جیسے حضرات اس تحریک سے وابستہ تھے_ اسی جمعیت نے انگریزی حکومت کو قبول نہ کرتے ہوئے ایک ایسا حکومتی ڈھانچہ تیار کیا تھا جس میں سراسر انگریزوں کی نافرمانی تھی،اور اس پہلی آزاد حکومت کا سربراہ راجہ مہندر پرتاپ کو بنایا گیا،ایسی ہے جمعیت کی تاریخ جسے مؤرخوں نے یکسر نظر انداز کر دیا_

خلافت تحریک: 

1919 میں مولانا محمد علی جوہر نے اس تحریک کی بنیاد ڈالی،اس تحریک کا مقصد ہندوستانی مسلمان اور برادرانِ وطن کو ایک پلیٹ فارم پر لانا تھا،مولانا محمد علی جوہر،گاندھی جی اور دیگر علماء نے پورے ملک کا دورہ کیا اور اتحاد و اتفاق کا پیغام دیا،اس تحریک نے ہندو مسلم کے بیچ کھائی کو پاٹنے میں اہم رول ادا کیا،اسی تحریک کے ذریعے عوام اور علماء ایک دوسرے کے قریب ہوئے،مولانا محمود حسن دیوبندی،عبد الباری فرنگی محلی،ثنا اللہ امرتسری،مفتی کفایت اللہ دہلوی،سید محمد فاخر،مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا احمد سعید جیسے بزرگ اس تحریک کے علمبردار تھے_

تحریکِ عدم موالات: 

1920 عدم موالات کی تحریک شروع ہوئی،گاندھی جی اس کے رہنما تھے،انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ انگریزی حکومت سے کسی بھی قسم کا تعاون نہ کریں،ان سے لین دین بند کر دیں اور تمام طرح کی عدم رواداری کو روا رکھیں،مسلمانوں نے گاندھی جی کے اس قدم کو سراہا بلکہ ان کے شانا بشانہ ساتھ چلے، ایسے ہی انگریزوں کے خلاف ہر تخریبی کارروائی میں مسلمان ساتھ رہے،1925 میں کاکوری میں جو حادثہ ہوا اُن میں دس لوگوں میں ایک اہم نام اشفاق اللہ خان کا بھی تھا جنہیں انگریزی حکومت نے موت کی سزا دے دی تھی، 1930 میں ہوئے سول نافرمانی اور نمک آندولن،1946 میں ہندوستان چھوڑو تحریک میں غرض یہ کہ تمام تحریکات میں ہمارے بزرگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہندوستان کو آزاد کرانے میں اہم رول ادا کیا،ان تحریکوں کو جِلا بخشنے میں ہمارے اکابرین کسی سے پیچھے نہیں تھے،ان کے ذکر کے بغیر آزادی کی تاریخ ادھوری ہے، ہمارے دیگر اہم مجاہدین میں بیگم حضرت محل،نواب مظفر الدولہ،خان عبد الغفار خان، بدر الدین طیّب جی،بی امّاں،آصف علی،ارونا آصف علی،مولانا حسرت موہانی،حبیب الحمٰن لدھیانوی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو،مولانا مظہر الحق،منظور احمد اعجازی،منظور احسن اعجازی،پیر شہید علی،وارث علی،عبد القیوم انصاری،ڈاکٹر مختار احمد انصاری،ڈاکٹر ذاکر حسین،حکیم اجمل خان،بخت میاں انصاری،شہنواز خان،رفیع احمد قدوائی،عنایت اللہ خان مشرقی،مولانا آزاد سبحانی،مولوی محمد باقر،شیخ بھکاری،محبوب احمد،شفیع داؤد،علی امام،حسن امام،محمد بخش سمرو،شاہ زبیر،عبد الماجد دریا آبادی،بیبی عزیز الفاطمہ،مولانا محفوظ الرحمٰن نعیمی،رضیہ سلطان،حامد علی فاروقی،سید فرحان مولانا محفوظ الحسن رحمانی اور ڈاکٹر سید محمود جیسے لوگ شامل ہیں_ 

آپ اپنی تاریخ کو خود یاد رکھیے،سینہ بہ سينہ، صفحات در صفحات منتقل کیجیے، ان بےشمار گُمنام بزرگوں کی روح کو تسکین ملےگی، ورنہ یاد رکھیے آپ کی تاریخ بھی اچھوت بن جائیگی،پارلیمنٹ میں مولانا آزاد کی برسی پر صرف چند ممبران پارلیمنٹ نے اُنہیں یاد کیا،یہ آنے والے وقت کا عندیہ ہے،باقی بزرگوں کا جو حشر تاریخ نویسوں نے کیا ہے وہ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے، آپ خود اپنے تاریخی ورثے کو محفوظ کیجیے، آپ اپنے ماضی کی وجہ سے زندہ ہیں اور اگر بے حسی کا یہی عالم رہا تو اپنے حال کی وجہ سے ابدی موت مارے جائینگے،مستقبل کا ذکر ہی کیا کرنا؟؟

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی 

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا 

E Mail: nisar.qasmijmi@gmail.com