’’ مسلمان ممنوعہ جانور کی قربانی نہ کریں ‘‘ ایسی بے وقوفانہ تلقین کی کیا ضرورت ہے؟

ندیم عبدالقدیر

(فیچر ایڈیٹر ، اردو ٹائمز ممبئی)

پہلے ایک شگوفہ سے  سنئے۔ یہ شگوفہ اپنے وقت کے معروف پاکستانی مزاحیہ فنکار معین اختر کا ہے اور کافی مقبول ہے۔ لطیفہ کچھ یوں ہے کہ ’’ ایک بہت بڑے زمیندار صاحب تھے۔ اُنہیں کہیں باہر جانا تھا ۔ جانے سے پہلے انہوں نے تیاری کرلی لیکن ان کا مطلوبہ پائجامہ نہیں مل رہا تھا ۔  زمیندار صاحب کے ’ برادرِ نسبتی یعنی ’سالے صاحب‘  بھی ان کے ساتھ ہی حویلی میں رہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ میرا پائجامہ لے لیجئے یہ بالکل آپ کے پائجامے جیسا ہی ہے۔ زمیندار صاحب کی بیگم نے بھی اس بات کی وکالت کی ۔ زمیندار نے کہا کہ نہیں یہ تمہارا بھائی کم ظرف ہے یہ لوگوں کو کہتے پھرے گا کہ میں نے اِس کا پائجامہ پہنا ہوا ہے۔ بردارِ نسبتی نے کہا ’بالکل نہیں ، میں ایسا نہیں کہوں گا ‘ ۔ کافی تلاش کے بعد بھی مطلوبہ پائجامہ نہیں ملنے اور بیگم کے کافی اصرار پر آخر کار زمیندار صاحب مان گئے اور اپنے  برادرِ نسبتی کا پائجامہ پہن لیا۔ اب زمیندار اپنے سالے صاحب اور نوکر وں کے ساتھ بگھی پر حویلی سے نکلے اور ایک قصبے میں ایک پروگرام میں پہنچے۔ وہاں اُن کے  برادرِ نسبتی نے مجمع سے زمیندار کا تعارف کچھ اِس طرح کِیا۔  ’صاحبان یہ بہت بڑے زمیندار صاحب ہیں، ان کے پاس زمینیں ہیں ، جائیدادیں ہیں، مال و متاع ہے ، شان و شوکت ہے ، حویلی ہے ، نوکر چاکر ہیں، پیسہ ہے اور پیسہ ہی پیسہ ہے ، لیکن یہ پائجامہ میرا ہے ‘۔یہ سن کر زمیندار صاحب کو غصہ آگیا۔ جب وہ اس قصبے نکلے، تو اپنے  برادرِ نسبتی  پر خوب بھڑکے کہ تم ایک کم ظرف انسان ہو۔ میں نے تمہارا پائجامہ کیا پہن لیا تم نے اس کا بھی ذکر کرڈالا۔ یہ پائجامہ تم واپس لے لو۔ اس پر سالے صاحب نے کہا معاف کرنا ، اب ایسی غلطی نہیں ہوگی۔ اس کے بعد یہ لوگ ایک دوسرے قصبے میں پہنچے۔ وہاں لوگوں سے متعارف کرتے ہوئے برادرِ نسبی نے کہا ’’ صاحبان یہ بہت بڑے زمیندار صاحب ہیں، ان کے پاس زمینیں ہیں ، جائیدادیں ہیں، مال و متاع ہے ، شان و شوکت ہے ، حویلی ہے ، نوکر چاکر ہیں، پیسہ ہے اور پیسہ ہی پیسہ ہے ،  اور یہ پائجامہ بھی ان ہی کا ہے ‘۔اس قصبے سے نکل کر تو زمیندار صاحب بگولہ ہوگئے اور برادرِ نسبتی  کو کہا کہ اگر تو میرا سالا نہیں ہوتا تو تجھے گولی مار دیتا۔ سالے صاحب نے کہا ’ بھئی اب میں نے کیا غلط کِیا ، یہی تو کہا ہے کہ یہ پائجامہ بھی آپ کا ہے ، میرا کہاں بتایا ‘۔ زمیندار نے کہا ’ بے وقوف یہ کہنے کی آخر کیا ضرورت تھی۔ یہ سن کر لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوں گے کہ آخر پائجامہ کا ذکر کیوں کِیا گیا ہے ؟ ‘  اس کے بعد سالے صاحب نے معافی مانگی اور کہا کہ اگلی بار پائجامے کا کوئی ذکر نہیں ہوگا۔ اب یہ لوگ تیسرے قصبے میں پہنچے۔ یہاں سالے صاحب نے زمیندار صاحب کا تعارف کچھ اس طرح کِیا’’صاحبان یہ بہت بڑے زمیندار صاحب ہیں، ان کے پاس زمینیں ہیں ، جائیدادیں ہیں، مال و متاع ہے ، شان و شوکت ہے ، حویلی ہے ، نوکر چاکر ہیں، پیسہ ہے اور پیسہ ہی پیسہ ہے ، اور پائجامہ کا کوئی ذکر نہیں ‘۔ اس کے بعد زمیندار کا کیا حال ہوا ہوگا وہ سوچا جاسکتا ہے ۔

یہاں اس شگوفہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری بے شمار ملّی تنظیمیں بھی زمیندار کے ’ برادرِ نسبتی  کی طرح برتاؤ کرتی ہیں۔ ہماری ملّی تنظیمیں بقرعید کے موقع پر اپنے اشتہارات ، ہینڈ بل اور پمفلٹ میں قوم کوقربانی کے متعلق بہت سے نکات ذہن نشین کراتی ہیں ان میں سب سے پہلا مشورہ ہوتا ہے ’’ مسلمان ممنوعہ جانور قربانی سے پرہیز کریں ‘‘۔ ایک بہت بڑی ملی تنظیم کے بہت بڑے لیڈر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مسلمان ممنوعہ جانور سے قربانی سے پرہیز کریں۔ سیکولرزم کا بھوت ہمارے سروں پر اس قدر سوار ہے کہ ہم خود کو سیکولر ثابت کرنے کیلئے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر پوری قوم کو کٹہرے میں کھڑا کردیتے ہیں۔ دانشوری سے ہم اتنے دور   ہیں کہ ہمیں ادراک ہی نہیں ہوپاتا ہے کہ اس  جملہ کا کیا مطلب ہوسکتا ہے۔ ’ مسلمان گائے کی قربانی سے پرہیز کریں‘  یہ جملہ بھی اوپر بیان کئے گئے چٹکلے میں اس جملے کی طرح ہے کہ’ ’پائجامہ بھی ان کا ہے‘‘ یا ’’پائجامہ کا کوئی ذکر نہیں‘‘ ۔یہ جملہ عام ہندوؤں کے ذہنوں میں ان شکوک کو جنم دے سکتا ہے کہ آخر مسلم تنظیموں کو اپنی قوم کو گائے کی قربانی نہیں کرنے کی تلقین کی حاجت کیوں پیش آئی؟اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ مسلمان گائے کی قربانی کرتا ہے۔ یہ سوچ یا شک اپنے آپ میں کس قدر زہر ناک ہے ملک کے حالات کے مد نظر اسے آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے ۔ ممنوعہ جانور کی قربانی سے پرہیز کرنے کی تلقین کرنا ،اپنے ناکردہ  جرم کا علی الاعلان اجتماعی اعتراف ہے ۔اس لئے ملّی ، مذہبی اور دیگر تنظیموں کو چاہئے کہ وہ قوم پر تھوڑا رحم کریں اور اس قسم کے بے وقوفانہ اور خطرناک مشورے سے پرہیز کریں۔