اجودھیا معاملے میں ہندو فریقوں کے درمیان شدید اختلاف ۔نرموہی اکھاڑہ کے علاوہ کسی بھی ہندو کو رام مندر کے بارے میں بولنے کا حق نہیں ۔رام للا کی پٹیشن بھی ناقابل سماعت: وکیل

بحث کے دوران نرموہی اکھاڑہ کے وکیل نے سپریم کورٹ سے کہا کہ رام مندر معاملہ میںمقدمہ دائر کرنے کا حق صرف نرموہی اکھاڑہ کا ہی ہے کیونکہ وہی اس کےSHEBIT یعنی متولی ہونے کا حقیقی دعویدار ہے اور اسی کے قبضہ میں مورتی ہے ۔ دیگر ہندو فریق کو اس تعلق سے بولنے کا حق نہیں ہے اس ل
نئی دہلی (ملت ٹائمز)
اجودھیا تنازع معاملے میں ہندو فریقوں کے درمیان اختلاف سامنے آیاہے ۔نرموہی اکھاڑہ کے وکیل نے آج سپریم کورٹ میں کہاکہ رام مندر کا مقدمہ لڑنے کا حق صر ف نر موہی اکھاڑہ کو ہی حاصل ہے ۔ دیگر ہندو فریقوں کو مقدمہ لڑنے کا حق حاصل نہیں ہے ۔ رام للا کی پٹیشن بھی ناقابل سماعت ہے ۔
بابری مسجد ملکیت مقدمہ اور رام جنم بھومی تنازع معاملہ کی سپریم کورٹ میں سماعت گذشتہ دو ہفتوں سے مسلسل جاری ہے ۔ آج سماعت کا بارہواں دن تھا۔ بحث کے دوران نرموہی اکھاڑہ کے وکیل نے سپریم کورٹ سے کہا کہ رام مندر معاملہ میںمقدمہ دائر کرنے کا حق صرف نرموہی اکھاڑہ کا ہی ہے کیونکہ وہی اس کےSHEBIT یعنی متولی ہونے کا حقیقی دعویدار ہے اور اسی کے قبضہ میں مورتی ہے ۔ دیگر ہندو فریق کو اس تعلق سے بولنے کا حق نہیں ہے اس لئے رام للا کی جانب سے داخل کردہ اپیل قابل سماعت نہیں ہے،
مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹرراجیودھون عدالت سے کئی مرتبہ گزراش کرچکے ہیںکہ سب سے پہلے ہندوفریقین کے درمیان آپس میں جو تنازعہ ہے وہ اسے طے کرلیں اور اپنا حتمی موقف واضح کردیں اس کے بعد ہی ہم اپنی بحث کا آغاز کریںگے ۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اب اسی تناظرمیں بحث ہورہی ہے ۔ آج کی سماعت کے دوران اپنا دعوی ٰ پیش کرتے ہوئے نرموہی اکھاڑہ کے وکیل سینئر ایڈوکیٹ ایس کے جین نے عدالت کو بتایا کہ دستاویزات میں تحریر ہندو لفظ سے مراد نرموہی اکھاڑہ ہی ہے کیونکہ وہ اس متنازعہ اراضی کا متولی ہے اور رام چبوترا ہمیشہ سے ان کے قبضہ میں ہی تھا۔اس معاملہ کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس اے ایس بوبڑے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کو ایڈوکیٹ ایس کے جین نے مزید بتایا کہ صرف نرموہی اکھاڑہ کے پاس ہی دستاویزات پر مشتمل ثبوت و شواہد ہیں جس کے مطابق ہندو یعنی کے نرموہی ہے ۔اسی درمیان جسٹس بوبڑے نے ایڈوکیٹ ایس کے جین سے دریافت کیا کہ وہ عدالت سے کیا چاہتے ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ وہ انتظامی امور کی ذمہ داری اور حق چاہتے ہیں نیز پوجا نرموہی اکھاڑہ کے ذریعہ ہی انجام دی جانی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ اس اراضی کا قبضہ رام للا اور رام للا کی نمائندگی کرنے والے کسی بھی شخص کو نہیں دینا چاہئے کیونکہ اس پوری اراضی پر صرف اور صرف نرموہی اکھاڑہ کا ہی حق ہے ۔ایڈوکیٹ ایس کے جین کی جانب سے عدالت میں پیش کئے گئے چند دستاویزات کا مطالعہ کرنے کے بعد جسٹس بوبڑے نے کہا کہ اس سے ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ وہ اس اراضی کے متولی ہیں جس کے جواب میں ایس کے جین نے کہا کہ ان کے پاس ان کے دعوے کو تقویت دینے کے لیئے سیکڑوں دستاویزات تھے لیکن 1982 میں ڈکیتی کے وقت وہ سب ضائع ہوگئے لیکن فیض آبادگزیٹیر میں ان سب دستاویزات کاذکر ہے جسٹس ایس اے بوبڑے نے ایڈوکیٹ ایس کے جین سے دریافت کیا کہ آیایہ درست ہے کہ چبوترے پر مورتی نصب تھی جسے بعد میںاندرونی صحن میں منتقل کیا گیا تھا ؟ ایس کے جین نے عدالت کو بتایاکہ تاریخی شواہد کے حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ 1528 میں متنازعہ عمار ت کی تعمیر ہوئی تھی لیکن اس بات کا کچھ بھی ثبوت نہیں ہے کہ اس وقت وہاں نماز ادا کی جاتی تھی نیز ایسا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے کہ نرموہی اکھاڑہ نے کبھی رام کی مورتی کے خلاف قدم اٹھایا ہویعنی کے وہ ہمیشہ سے ہی مورتی کے انتظامی امور انجام دیتے رہا ہے ۔آج نرموہی اکھاڑ ہ کے وکیل ایس کے جین کی بحث نا مکمل رہی جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی کل تک کے لیئے ملتوی کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے ہیں ۔

SHARE