سوشل میڈیا پر مدارس کے فضلاءدو حصوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ۔ ایک طبقہ وہ ہے جو مولانا سلمان ندوی اوردارالعلوم ندوہ کے ہر ایک اقدام کی حمایت کرتاہے اور تنقید کرنے والوں کی مخالفت کرتاہے ۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو جمعیت اور دیوبند سے وابستہ شخصیات کے ہر اقدام کی تائید کرتے ہوئے ان لوگوں کی کلاس لیتاہے جوان پر تنقید کرتاہے
نئی دہلی (ملت ٹائمز)
جمعیت علماءہند کے جنرل سکریٹری قائد ملت حضرت مولانا محمود اسعد مدنی دامت برکاتہم ان دنوں مسلسل سرخیوں میں ہے ۔ کشمیر بحران اور اورنگزیب عالمگیر رحمة اللہ علیہ پر اپنے بیان کے بعد وہ سوشل میڈیا پر ان دنوں شرٹ پینٹ پہننے کی وجہ سے ٹرول ہورہے ہیں ۔ان کی ایک تصویر تیزی سے وائرل ہورہی ہے جس میں بیگنی رنگ کی شرٹ ،پینٹ اور ٹائی لگائے ہوئے اسکاﺅٹ ٹریننگ سینٹر میں نظر آرہے ہیں ۔
(واضح رہے کہ اس تصویر میں جس کو لوگ ٹائی کہہ رہے ہیں جمیعت کے ذمہ داران اسے ایک علامتی رومال بتارہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ،اسکاؤٹ کی اصطلاح میں اس رومال کو اسکارف “Scarf” اور اسے روکنے کے لئے جو پلاسٹک لگائی جاتی ہے اسے ووبیل “Wobble” کہا جاتا ہے۔:یہ پیراگراف ایڈٹ کیاگيا ہے)
جمیعت علماءہند(م) نے ایک سال قبل جمعیت یو تھ کلب قائم کیاہے جس کا ڈریس کورڈ بیگنی رنگ کا شرٹ اور پینٹ ہے ۔ اس کے تحت نوجوان طلبہ کو ڈیفنس کی ٹریننگ دی جاتی ہے ۔ بنیادی مقصد اپنی جملہ صلاحیت کو ملک ،سوسائٹی اور معاشرہ کیلئے قابل استعمال بناناہے ۔ ایسی ہی ایک ٹریننگ ان دنوں مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں ہورہی ہے جہاں تقریبا 60 سے زائد علماءاس میںشرکت کررہے ہیں جس میں حضرت مولانا محمود اسعد مدنی جنرل سکریٹری جمعیت علماءہند ۔ حضرت مولاناحکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعیت علماءہند سمیت متعدد اکابر اور علماءشریک ہیں اور ڈریس کوڈ پہنے ہوئے ہیں ۔
اسکاوٹ ٹریننگ سینٹر کی یہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس پر یوزرس متعدد طرح کے کمنٹ کررہے ہیں ۔کچھ یوزرس مولانا محمود مدنی کے اس اقدام کو سراہ رہے ہیں ۔ اپنے تبصرہ میں لکھ رہے ہیں کہ حضرت مولانا نے جرات سے کام لیتے ہوئے یہ ثابت کردیاہے کہ اسلام کسی لباس کا محتاج نہیں ہے ۔ جب جس طرح کے لباس کی ضرورت پڑے اسے پہننا چاہیئے ۔
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=2463123750431517&set=a.130042297073019&type=3&theater
کچھ لوگ لکھتے ہیں کہ یہ غلط فہمی حضرت مولانا نے دور کردی ہے کہ شرٹ پینٹ کافروں کا لباس ہے ۔ مولانا کو اللہ تعالی جزائے خیر دے کہ انہوں نے ایک غلط فہمی کا ازالہ کیاہے ۔خورشید احمد لکھتے ہیں ”جب اسلام آیا تو دنیا کے بہت کم خطوں میں سلے ہوئے کپڑے پہننے کا رواج تھا لوگ کپڑے پہنتے نہیں لپیٹتے یا باندھتے تھے مسلمانوں نے سلنے کا فن عراق سے لیا اور پوری دنیا میں پھیلا دیا خود ہمارے ہندوستان میں بھی کپڑے کی سلائی مسلمانوں نے متعارف کرائی۔اس حساب سے ہر طرح کے لباس ہمارے ہونے چاہئے اگر وہ سترپوشی کے لائق ہوں لیکن افسوس اس میں بھی اسلامی اور غیر اسلامی کی بحث چلتی رہتی ہے“۔
کچھ یوزرس مولانا کے اس لباس پر طنز بھی کس رہے ہیں ۔ فیس بک پر ایک یوزنے لکھتے ہیں کہ اب ندویوں کے پینٹ شرط پہننے پر دیوبند کے علماءبرابھلا نہیں کہیں گے ۔ایک اور یوزرلکھتے ہیں” کیا حضرت محمودصاحب بٹالین کشمیر کو اکھنڈ بھارت کا حصہ بنانے میں جہاد کے لیے کوچ کرنے کی تیاری کر رہی ہے جو بھارتی فوج کو جہادی کمک پہنچ سکے جسکی کمی کی وجہ سے اب تک بھارتی فوج کشمیر کو اکھنڈ بھارت کا حصہ بنانے میں ناکام رہی ہے؟؟؟؟۔ایک اور نے لکھاہے ۔واہ اب ان لوگوں کو بھی پینٹ شرٹ پہننے کا دل کررہا ہے بوڑھاپے میں جوانی کا مزہ۔سوشل میڈیا پراپنے متنازع تبصرہ کیلئے مشہور مولانا عمران صدیقی ندوی لکھتے ہیں” پینٹ شرٹ کے جائز ہونے کی خوشی میں آج ہم نے اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر ممبئی کا مشہور “زم زم پلاو¿” اپنے ہاتھ سے بنایا اور پورے گھر والوں کی دعوت کی۔نوٹ: ہمارے اکابر نے پینٹ شرٹ کو عملا پہن کر ہماری خوشی دوبالا کر دی ۔ان کا ایک اور کمنٹ ہے ”چلو اچھا ہوا اب کوئی ندویوں کو پینٹ شرٹ پہننے کا طعن نہیں مارے گا“
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=2555943247784768&set=pcb.2555943411118085&type=3&theater
دیوبند سے تعلق رکھنے والے عاطف سہیل صدیقی لکھتے ہیں”بھائی وہ کوئی دیوبند کے ترجمان نہیں ہیں کہ انکے پینٹ شرٹ پہن نے کو دیوبند کی تائید حاصل ہوگئی۔ لہذا ندوی حضرات پینٹ شرٹ پہن کر اگر گھومیں گے تو طعنہ ملنا برقرار رہیگا“۔۔اس موقع پر کچھ یوزرس دارالعلوم دیوبند کا وہ فتوی بھی شیئر کررہے ہیں جس میں کہاگیاہے کہ ٹائی غیروں کا لباس ہے اور اسے نہیں پہننا چاہیئے ۔
واضح رہے کہ ان دنوں سوشل میڈیا پر مدارس کے فضلاءدو حصوں میں تقسیم ہوچکے ہیں ۔ ایک طبقہ وہ ہے جو مولانا سلمان ندوی اوردارالعلوم ندوہ کے ہر ایک اقدام کی حمایت کرتاہے اور تنقید کرنے والوں کی مخالفت کرتاہے ۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو جمعیت اور دیوبند سے وابستہ شخصیات کے ہر اقدام کی تائید کرتے ہوئے ان لوگوں کی کلاس لیتاہے جوان پر تنقید کرتاہے ۔ اس دوران کچھ ایسے بھی نوجوان فضلاءہیں جو اکابرین کے بیانوں کی گول مول تشریح کرکے اسے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ تنازع ختم ہوجائے ۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شروع میں جب یہ تصویر سوشل میڈیا پرپوسٹ ہوئی تو اسے فوٹوشاپ بتاکر مستردکردیاگیااور بتایاگیا کہ حضرت مولانا محمود مدنی صاحب کے خلاف یہ گھٹیا سازش رچی گئی ہے ۔ ان کے مخالفین نے بدنام کرنے کیلئے ایڈٹ کرکے فوٹو ریلیز کیا ہے تاہم بعد میں خود جمعیت کے افراد نے اس کی تصدیق کی ۔ جمعیت علما ءہند کے میڈیا انچار اور کالم نگار مولانا عظیم اللہ صدیقی قاسمی نے بھی اپنے فیس بک اکاﺅنٹ سے یہ تصویر شیئر کی ۔