مسلم سیاست کا امام — طیب اردوگان

احمد شہزاد قاسمی
ترکی نہ صرف اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کے اعتبار سے بلکہ اپنی سیاسی وثقافتی تاریخ کے اعتبار سے بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے
مسلما نوں کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں ترکی کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی پڑھے لکھے شخص سے مخفی نہیں ہے ،یہ علاقہ صدیوں تک پورے عالمِ اسلام کا پایہءتخت اور اسلامی تہذیب وتمدن کا مرکز رہا ہے ،ترکی کا مشہور شہر استبنبول (قسطنطنیہ) دوبرِ اعظم یوروپ اور ایشیا میں بٹاہوا ہے یہ شہر گیارہ سو سال تک سلطنتِ روما کا پایہءتخت رہا ہے جو اپنے عہدِ عروج میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت تھی اور اسکی تہذیب دنیا پر چھائی ہوئی تھی ،عیسائیوں کے مشرقی کلیسا کا مرکز ی شہر بھی یہی تھا جس کے سربراہ کو بطریرک (patriarch) کہا جاتا تھا ،یہ بیک وقت بازنطینی سلطنت اور عیسائی مذہب دونوں کا اہم ترین مرکز بن گیاتھا
خلافتِ عثمانیہ کا دارالحکومت ہونے کی وجہ سے پورے عالمِ اسلام کا مرکز رہااس لئےے اسلام کے علاوہ عیسائیت میں بھی اس شہر کو بڑی زبردست اہمیت حاصل ہے اور اسکی یہی اہمیت تھی جس کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شہر پر جہاد کرنے والے لشکر کو مغفرت کی بشارت دی تھی ۔ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے تو چہرہ مبارک تبسم سے کھلا ہوا تھا وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فر مایا میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر (روم) کے شہر (قسطنطنیہ) پر جہاد کریگا اسکی مغفرت کی بشارت دی گئی ہے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو آپ نے اپنے بیٹے یزید کی سر کر دگی میں پر پہلا حملہ کیا اس حملہ میں بہت سے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعہن شامل تھے جن میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی داخل ہیں یہ مسلمانوں کی طرف سے قسطنطنیہ کا پہلا محاصرہ تھا جو کافی مدت تک جاری رہا اور حضرت ابو ایوب انصاری اسی محاصرہ کے دوران بیمار ہو کر وفات پاگئے اور قسطنطنیہ کی دیوار کے نیچے مدفون ہوئے ، بہر صورت اس محاصرہ میں قسطنطنیہ فتح نہ ہو سکا اور لشکر واپس آگیا
اس سعادت کو حاصل کر نے کے لئے بہت سے مسلمان حکمرانوں نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا جن میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ہشام بن عبد الملک مہدی عباسی ہارون رشید وغیرہ شامل ہیں بالآخر اللہ تعالی نے فتح قسطنطنیہ کی سعادت خاندان آل عثمان کے ساتویں نوجوان خلیفہ سلطان محمد فاتح(چھٹی صدی ہجری) کی قسمت میں لکھی تھی
خطہءقسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار
مہدءامت کی سطوت کا نشانِ پائیدار صورتِ خاکِ حرم یہ سر زمیں بھی پاک ہے
آستانِ مسند آرائے شہ لو لاک ہے
نکہتِ گل کی طرح پاکیزہ ہے اسکی ہوا
تربتِ ایوب انصاری سے آتی ہے صدا
اے مسلماں! ملتِ اسلام کادل ہے یہ شہر
سینکڑوں صد یوں کی کشت وخوں کا حاصل ہے یہ شہر
دورِ جدید کے ترکی کا بانی کمال اتا ترک کو بتایا جتاہے انیسویں صدی کے آخر میں جب خلافت نیم جان ہو کر رہ گئی تو مغربی تہذیب سے بری طرح مرعوب کمال اتا ترک نے خلافت کو ختم کر کے ملک کو ایک لادی ی ریاست میں تبدیل کردیا
اتاترک نے اسلامی قانون اور شریعت سے بے دخل کر کے وہاں سوئزر لینڈ کا دیوانی اٹلی کا فوجداری اور جرمنی کا تجارتی قانون نافذ کر دیا دینی تعلیم.ممنوع قرار دیدی گئی پردے کو خلافِ قانون قرار دیا گیا درسگاہوں میں مخلوط تعلیم کا سلسلہ شروع کیا گیا عربی رسم الخط اور عربی میں اذان دینے پر پابندی لگا دی گئی قوم کا لباس تبدیل کر دیا گیا ،ہیٹ کا ستعمال لازمی کر دیا گیا،
اتاترک کی ان تبدیلیوں کے پیچھے ترکی کو اسکے اسلامی ماضی سے کاٹ کر مغربی تہذیب کو مسلط کر نے کی ذہنیت کار فرماتھی لیکن طویل حکمرانی کے باوجود یہ ذہنیت اسے کوئی قابلِ ذکر فائدہ نہیں پہنچا سکی اور ترکی عوام اسکی اسلام مخالف روش سے بدظن ہوگئی
جسکے نتیجہ میں احیاءاسلا کی تحریکیں زور پکڑنے لگیں اور اسلام پسند پہلے بلدیاتی انتظامیہ اور پھر عام انتخابات کے ذریعہ مرکزی اقتدار پر فائز ہوگئے۔ چنانچہ 1960 میں عدنان میندریس اور 1997 میں نجم الدین اربکان کی اسلام پسند پارٹیاں اقتدار میں آئیں 2002 کے بعد سے عالم اسلام کے عظیم بے باک لیڈر رجب طیب اردوگان اقتدار میں ہے اور یہی وہ دورِ حکومت ہے جس میں ترکی نے بے پناہ معاشی ترقی کی ہے ۔رجب طیب نے اپنی انصاف پسندی حق گوئی مظلو موں کی داد رسی اور مسلم مسائل پر فکر انگیزی سے پورے عالمِ اسلام کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے ،کھربوں زبانیں اردوگان کی سلامتی وصحت کیے لئے دعا گو ہیں۔ طیب اردوگان اس وقت واحد مسلم لیڈر ہیں عالمی صہیونی طاقتوں کو دوٹوک جواب دیتے ہیں فلسطینیو ں کی حمایت وامداد مصری میں السیسی کی حکومت کو نکارنا عراق وشام کے بے پناہ مہا جرین کو پناہ دینا ترک صدر کی مقبولیت میں اضافہ کرتے ہیں ،اردوگان نے غزہ پر اسرائیل کی جانب سے عائد پابندیوں کو ختم کروانے کے لئے عالمی سطح پر آواز بلند کی
2008 میں ڈیوس عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر اسرائیل کے صدر کو فلسطین کےلئے جانے والے ظلم وستم اور ہلاکتوں کے با رے میں کھری کھری سنائی۔طیب اردوگان کی یہ اسلام پسندی اتاترک ذہنیت رکھنے والوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی اس لئے انہوں نے بغاوت کے ذریعہ ماضی کی طرح اسلام پسندوں کو ٹھکانے لگانا چاہا 1960 میں عدنان میندریس اور 1997 میں نجم الدین اربکان اسلام پسندی کی وجہ سے اپنی حکو.متوں کو فوجی بغاوتوں کی بھینٹ چھڑا چکے ہیں ۔
لیکن 16 جولاءکی بغا ت اور عوام کے ذریعہ اسکا ناکام ہو جانا ترکوں کی اس شجاعت وبہادری کی یاد دلاتی ہے جو ہماری تاریخ کا سنہرہ باب ہے جس پر ہر مسلمان بجا طور پہ فخر کر سکتاہے ،اس حسد تنگ دلی اور خوردہ بینی کے دور میں جہاں معمولی درجہ کا قائدانہ اور رہبرانہ رول بھی شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھا جا تاہے طیب اردوگان کی ایک اپیل پر نہتے عوام کا فوجی ٹینکوں سے ٹکرا جانا ان مخلصانہ اور اسلام پسندانہ اطوار کا کرشمہ ہے جنہیں مخلصانہ کے ساتھ دانشمندانہ بھی کہ سکتے ہیں ،اس وقت پورے عالمِ اسلام کی صورتِ حال ناگفتہ بہ ہے عرب بہاریہ کے نام پر مشرقِ وسطی میں جو جنگ شروع ہوئی تھی وہ بد ترین خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی ہے ،اس خانہ جنگی کو دور کرنے کے لئے اردوگان جیسی فکرو بصیرت وہاں کے حکمراں پیدا کریں ۔پورا عالمِ اسلام اردوگان کو اپنا سیاسی امام تسلیم کر کے انکی اقتدا میں عالمی مسلم سیاست کو اسلامیات کی راہ پر لگانے کے لئے از سرِ نو سفر کرے اور دنیا کو دکھا دے کہ اسلامی سیاست دھوکہ کا نام نہیں بلکہ عوام الناس کی خیر خواہی اور ملک کی بہتری سے عبارت ہے ۔(ملت ٹائمز)