کاروان اردو  قطرکےزیر اہتمام معروف شاعر مقصود انور مقصود کے مجموعہ کلام  ‘آسماں تو ہی بتا’  کی تقریب رسم اجرا

دوحہ(پریس ریلیز)

19  ستمبر 2019  کی رات  ،دوحہ  قطر کی ادب دوست اورسخن فہم شخصیات کا ایک منتخب اجتماع کاروان اردو قطر کی دعوت پر قلب شہر کے ایک ہوٹل  ‘بیسٹ ویسٹرن پلس’  کے کشادہ ہال میں منعقد ہوا۔  تقریب کا مقصد سہ رخی تھا، چنانچہ سب سے پہلے قطر میں ایک لمبی مدت سے مقیم شہر آہن جمشید پور سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر  جناب مقصود انور مقصود کے اولین مجموعہ کلام  ‘آسماں تو ہی بتا ‘  کی رسم اجرا عمل میں آئی،  جس کے معا بعد کاروان اردو  قطرکے سالانہ عالمی مشاعرہ 2019 ‘جشن شہپر رسول’   کی ڈی وی ڈی ریلیز کی گئی  اور پھر محفل شعر و سخن کا آغاز ہوا جس کا سلسلہ رات دیر گئے تک جاری رہا۔

 

تقریب کی صدارت کاروان اردو قطر کے چیرمین جناب عظیم عباس نے فرمائی جبکہ مہمان خصوصی کی نشست کو جناب ایم ایس بخاری نے رونق بخشی، مہمان اعزازی کی حیثیت سے جناب مقصود انور مقصوداسٹیج پر تشریف رکھتے تھے ،اور نظامت کے فرائض کاروان اردو قطر کے جنرل سکریٹری جناب شاہد خاں نے انجام دئے۔

پروگرام کا باقاعدہ آغاز  جناب قاری عبد السلام نے تلاوت کلام پاک سے کیا ، جس کے بعد کاروان اردو قطر کے بانی صدر جناب عتیق انظر نے خطبہ استقبالیہ پیش فرمایا۔ سید شکیل احمد ،  عبید طاہر اور ڈاکٹر عطاء الرحمن ندوی صاحبان نے جناب مقصود انور کے فکرو فن اور شعری محاسن پر اپنے اپنے مضامین اور مقالات پیش کئے۔ ہر مضمون نگار نے  صاحب اعزاز کی شعری کائنات کے مختلف اور مابہ الامتیاز پہلؤوں پر اپنے اپنے انداز میں روشنی ڈالی ، تقریبا تمام مضمون نگار اور مبصرین کا اس پر اتفاق رہا کہ مقصود انورمقصود کے کلام میں بلند آہنگی ، فکری پختگی، اور مثبت احتجاج کے عناصر  بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں ، ان کےاسلوب نگارش اور طرز پیشکش میں حفیظ میرٹھی کی یہ نصیحت کارفرما  نظر آتی ہے:

اب کھل کے کہو بات تو کچھ بات بنے گی

یہ دور اشارات و کنایات نہیں ہے

مضامین و مقالات کا سلسلہ مکمل ہونے کے بعد اسٹیج پر تشریف فرما اور ہال میں موجود معززین کے ہاتھوں   ‘آسماں تو ہی بتا’  کی رسم اجرا  ورونمائی عمل میں آئی اور صاحب اعزاز جناب مقصود انورمقصودکو دعوت دی گئی کہ وہ  اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار فرمائیں، اور سامعین کو اپنے منتخب کلام سے بھی محظوظ کریں۔  موصوف نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا آبائی تعلق شہر جمشید پور سے ہے، صحافت سے  عملی زندگی کا آغاز کیا  اور جلد ہی حالات کے بہاؤ نے قطر پہونچا دیا ، یہاں مقیم ہونے کے بعد جب صحافت کا سلسلہ  موقوف ہو گیا تو اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کےلئے شعرگوئی کا وسیلہ اختیار کیا، شاعری میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسے محض حسن و عشق اور گل و بلبل کی حکایتوں تک محدود نہیں رہنا چاہئے ، بلکہ روزمرہ زندگی کے حالات و حوادث اور ان کے آثار و نتائج کو بھی اس روزنامچے میں جگہ ملنی چاہئے، طبعی طور پر میرا احساس غم جاناں کی بہ نسبت غم دوران کے مضامین سے زیادہ تاثر پذیر ہوتا ہے اور انہیں کا برملا اور بے باک اظہار میری شعر گوئی کی اولین ترجیح ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ غم جاناں کے توشہ سے میری متاع شعرو سخن بالکل خالی ہو البتہ اسےبھی میں نے اپنے مزاج کی رعایت سے برتنے کی کوشش کی ہے ۔  میں اپنی اب تک کی فکری ریاضت کا ثمرہ ‘آسماں تو ہی بتا’کے ذریعہ اپنے دوستوں اور قدردانوں کو نذر کرتا ہوں ،  اپنے مدعا کی تفہیم اور اپنے پیغام کی ترسیل میں  کہاں تک کامیاب رہا ہوں اس کا فیصلہ تو باذوق قارئین کی بصیرت ہی کرے گی ، البتہ میری کوشش تو یہی رہی ہے کہ : 

مقصود محبت کا دیا ایسا جلاؤ

آنکھوں سے ضیا کا ہو اثر دل کے مکاں تک

موقع کی مناسبت سے سامعین کی خدمت میں دو غزلیں حاضر ہیں :

حسینیت کا یزیدیت سے مقابلہ کچھ نیا نہیں ہے

لہو لہو ہورہی ہے دنیا کہاں کہاں کربلا نہیں ہے

میں تیری منشا سمجھ نہ پایا ، زمیں پہ جنت بنائی کیوں تھی

کسی کے خالی شکم پہ پتھر کسی کے تن پہ قبا نہیں ہے

وہ ذہن میں ہو کہ دل کے اندر ، کوئی خطا تو ضرور ہوگی

سبھی عذاب سکوت میں ہیں ، زباں ہے سب کی صدا نہیں ہے

 

دھوکہ دے گی منظر کی رعنائی بھی

زخمی ہوسکتی ہے تری بینائی بھی

اس میں سما جاتا ہے دنیا بھر کا غم‌

کتنی کشادہ ہے دل کی انگنائی بھی

اتنے دھماکے ٹکرائے ہیں کانوں سے

ڈر جاتا ہوں سن کر میں شہنائی بھی

جھوٹ تو بے غیرت ہے اس کی بات نہ کر

رسوا ہو جاتی ہے اب سچائی بھی

مت کیجیے مقصود اکیلے پن کا غم

بھیڑ سے اعلٰی ہوتی ہے تنہائی بھی

جناب مقصود انور مقصود کی پر مغز اور بھرپور گفتگو کے بعد کاروان اردو  قطرکے سالانہ عالمی مشاعرہ 2019 ‘جشن شہپر رسول’   کی ڈی وی ڈی ریلیز کی گئی ۔ تقریب کے مہمان خصوصی جناب ایم ایس بخاری نےبہت ہی  دلچسپ اور باغ و بہار انداز میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کے صاحب اعزاز جناب مقصود انور مقصودسے مختلف پروگراموں میں میری ملاقات تو کئی بار ہوئی ہے لیکن ان سے ان کی شاعری سننے کا اتفاق آج پہلی بار ہوا ہے، ان کے لہجہ میں بڑی توانائی اور شاعری میں کافی دم ہے، یہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے لیکن اس سے ان کی شخصیت اور شاعری کا مکمل تعارف حاصل ہو جاتا ہے، اہل بہار کے تعلق سے میں کہا کرتا ہوں کہ وہ بڑے  ہونہار ہوتے ہیں اور ان  میں غیر معمولی امکانات پائے جاتے ہیں، میرے اس اندازے اور دعوے کو جناب مقصود انور مقصود کی شکل میں آج ایک اور سند مل گئی ہے۔

تقریب کے صدر اور کاروان اردو قطر کے چیرمین جناب عظیم عباس نے اپنی صدارتی گفتگو میں مقصود انور مقصود کے شعری سفر کو ایک سنگ میل بتایا ، انہوں نے 2019 کے دوران قطر سے شائع ہونے والے شعری مجموعوں کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی اور بتایا کہ قطر جیسے مختصر آبادی رکھنے والے ملک میں امسال شائع ہونے والا یہ پانچواں شعری مجموعہ ہے ، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے اس چھوٹے سے ملک میں اردو سے لوگوں کی دلچسپی اور وابستگی کس حد پہونچی ہوئی ہے اور یہاں اس تعلق سے کتنا کام ہو رہا ہے۔  قطر میں ہر سال منعقد ہونے والے عالمی مشاعروں اور ادبی میلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ موسم سرما  شروع ہوتے ہی سالانہ مشاعروں اور ادبی میلوں کا یہ  سلسلہ ہر سال کی طرح  امسال بھی شروع ہونے ہی والا ہے۔  امید ہے کہ اردو والے اس سیزن کو انجوائے کریں گے اور اپنی زبان وتہذیب سے وابستگی کا بھرپور  اظہار کریں گے۔

 

محفل شعرو سخن میں دوحہ  قطرکے متعدد شعرا ء کرام نے اپنے کلام سے سامعین کے ذوق سخن کی آبیاری کی ، مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق بعض منتخب اور پسندیدہ اشعارقارئین کی خدمت میں حاضر ہیں:ـ

 

وہی جو آگے آگے تھا مری کشتی ڈبونے میں

وہی ساحل پہ سب سے پہلے غم خواری دکھاتا ہے

ابھی تم اس کے بارے میں نہ کوئی فیصلہ کرنا

وہ پہلی بار تو سب سے وفاداری دکھاتا ہے

عتیق انظر

اباحیت پسندی رفتہ رفتہ

دماغوں سے اجالے دھو رہی ہے

سدا سے بال مزدوری جہاں میں

جہاں کا بوجھ سارا ڈھو رہی ہے

شاد اکولوی

ہ کرنا دوستوں کی آزمائش

کہاں ان میں وفاداری ملے گی

محبت اپنی عظمت کھو چکی ہے

کہاں اب ناز برداری ملے گی

شوکت علی ناز

یہاں سے نکلوں تو پھر راستہ نظر آئے

ابھی تو الجھا ہوا روشنی کے جال میں ہوں

جانے والا سال تو پھر بھی جیسے تیسے بیت گیا

اس دنیا کو رکھنا مولی آنے والے سال میں خوش

عزیز نبیل

چھوڑ دے چھل کپٹ اور ادنی پن

اب تو عالی جناب ہے رے تو

سب کی چھت پر تجھے برسنا تھا

تو ہے سب کا، سحاب ہے رے تو

افتخار راغب

ستاروں سے کہو آہستہ بولیں

مری راتوں کی وحشت سو رہی ہے

زمانہ مصلحت پرور ہوا ہے

ضرورت آدمیت کھو رہی ہے

احمد اشفاق

ضبط غم، عزم، چمک، حوصلہ ، مضبوط امید

چشم تر نے بھی تری بوجھ اٹھائی کیا کیا

چاندنی، پھول، وفا، ریشم و خوشبو نایاب

یاد نے اس کی مجھے یاد دلائی کیا کیا

مظفر نایاب

(ایک نظم جسے بے حد سراہا گیا)

شام کے دھندلکے کے چڑھتے ہی 

جب دیا جل کے مسکراتا ہے 

تیری آنکھوں کی یاد آتی ہے 

صبح جب آسماں کے پردے سے 

نور کے سات رنگ لاتی 

تیری تصویر گنگناتی ہے 

اپنے کاندھے پہ جب شفق رکھ کے 

دن سمندر میں ڈوب جاتا ہے 

تو  مجھے اور یاد آتا ہے 

دودھیا بادلوں کے پربت پر

جب کوئی برق رقص کرتی ہے

مجھ کو ایسا خیال ہوتا ہے 

تو  سر آئنہ سنور تی ہے  

تیری باتوں میں رس جہانوں کا 

سایہ زلفوں کے سائبانون کا 

تیری  پلکوں کی رات رانی میں 

چاند جیسے ندی کے پانی میں 

تیرے  شانے پہ جو جھکاؤ سا ہے

شاخ گل پر زرا دباؤ سا ہے 

روپ تیرا بہاروں جیسا ہے 

پھول جگنو ستاروں جیسا ہے 

تتلیاں تجھ کو دیکھتی جب ہیں 

پھر وہ پھولوں پہ بیٹھتی کب ہیں

تجھ سے ہی کھیلتی وہ رہتی ہیں 

وہ تجھے پھول ہی سمجھتی ہیں

تیرا کتنا حسیں سراپا ہے 

دیکھنے سے تجھے  نشہ سا ہے 

ختم اب میرا امتحاں ہوجائے 

کاش تو مجھ پہ مہرباں ہوجائے 

ڈاکٹر شکیل احمد

میں کھلی کتاب ہوں پڑھ بھی لیجئےذرا

اپنی آنکھ سے مگر عینکیں اتار کے

شہر میں ہے خامشی تالے ہیں زبان پر

سارے کارنامے  ہیں جناب شہر یار کے

راشد عالم راشد

اس کی طلب میں جان بہ لب ہوجاتے ہیں

ہم بھی تماشہ یوں ہر شب کر لیتے ہیں

گمشدہ ہے قمیص یوسف بھی

چشم گریاں کی روشنی بھی گئی

ڈاکٹر وصی بستوی

اپنے کردار کی کرنی ہے حفاظت ہم کو

کوئی الزام لگادیں نہ زمانہ والے

شب کی تنہائی میں مانگا ہے خدا سے تجھ کو

میری آنکھوں سے مری نیند چرانے والے

راقم اعظمی

کسی کا فن تو کسی کا نصیب بولتا ہے

زمانہ سب کو پرکھتا ہے سب کو تولتا ہے

ظریف مہر بلوچ