سیمانچل میں مجلس کی کامیابی ایک نئی شروعات

عبد القادر، ممبئی 

جمہوریت بھی اپنے آپ میں بے مثال ہے، تاریخ کے کچھ پنوں کو پلٹ کے دیکھا جائے تو قوم اور سماج جب حکومت کی حصہ داری کا عہد کر لے اور اپنی جدوجہد میں ڈٹے رہے تو وہ وقت بھی آتا ہے جب کرناٹک میں حکومت بنانے کا شرف ایک ایسی پارٹی کو ملتا ہے، جو کچھ سیٹوں تک ہی محدود تھی۔ جی ہاں! میں بات کر رہا ہوں کمارسمی کی جن کی سیٹوں کم ہونے کے باوجود وہ وزیراعلی کے عہدے تک پہنچ گئے۔

   کچھ ایسا ہی ہوتا دکھ رہا ہے بہار کی سیاست میں۔ کشن گنج کی عوام نے جو سیاسی مہارت کا نمونہ دکھایا ہے۔ وہ یقیناً قابل تعریف ہے اور مبارک باد کے مستحق بھی ہیں۔ پورے ہندوستان کی کشن گنج کی سیاسی ہلچل پے کڑی نظر تھی کیوں کہ ماہرین اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اگر مسلم قیادت سیمانچل میں اٹھ گئی تواس کے نتیجے پورے ہندوستان میں دیکھنے کو ملے گا۔ اور یہ سچائی کسی سے چھپی نہیں ہےکہ سبھی پارٹیوں کی ایک ہی کوشش تھی کہ مسلم قیادت کو یہاں سے اٹھنے نہ دیا جائے اور اس کے لئے کبھی افواہوں کا بازار گرم کئے گئے تو، تو کبھی غریب عوام کے درمیان پیسوں کا کھیل کھیلا گیا۔ مگر کشن گنج کی عوام نےاس مرتبہ اشارہ دے دیا ہےکہ ہمارے سیاسی ارادے بلند ہیں۔ اب ہم حصہ داری چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کشن گنج کی عوام نے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک پیغام دیا ہے کہ اب اپ نام و نہاد سیکولر پارٹیوں کہ چنگل سے باہر نکلے۔ جو ووٹ آپ کا لیتی ہے مگر آپ کا نام لینے میں بھی ان کو ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔

     بظاہر تو یہ دکھنےمیں صرف ایک سیٹ ہے مگر اس کے نتائج آنے والے بہار اسمبلی الیکشن میں دکھیں گے اور یہ بات ایک معمولی سیاسی سماج رکھنے والا انسان بھی مانتا ہے کہ اب مستقبل میں بہار کی قسمت کا فیصلہ سیمانچل کی عوام کے بغیر نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ سیمانچل میں 30 – 40اسمبلی کی سیٹوں پے مسلمانوں کے ووٹرس غیر معمولی تعداد میں ہیں اور یہی بات سیاسی گلیوں سے لے کر چائے کی دکانوں پر اور بڑے چھوٹے میڈیا ہاؤس میں بھی ہو رہی کہ اب اسدالدین اویسی ایک بڑی پاری کھیلنے کی طرف نکل چکے ہیں۔اس جیت کے لئے کشن گنج کی عوام کا ایک بار پھر سے تہ دل سے شکریہ اور مبارک باد۔