بابری مسجد کا متوقع فیصلہ ۔ ہندوستان کی سیاست یہاں سے نئی کروٹ لے گی

مسلمانوں کے وکلاءنے الزامات کی تردید کی ۔ ٹائٹل سوٹ پر دلیل پیش کی ،مسلمانوں کی ملکیت کے سلسلے میں ثبوت پیش کیا اور فریق مخالف کے گواہوں کے بیانات میں پائے جانے والے تضادسے بھی اپنے دعوی کو مضبوط بنایا
خبر در خبر (620)
شمس تبریز قاسمی
بابری مسجد ۔رام مند ر تنازع پر فیصلہ آجانے کے بعد ہندوستان کی سیاست ایک نئی کروٹ لے گی ۔ملک میں ایک نئی تاریخ رقم ہوگی ۔ فیصلہ کس کے حق میں آئے گا اور کس کے خلاف ہوگا یہ فیصلہ آنے کے بعد طے ہوگا لیکن یہی سب سے اہم ہے کہ سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس رنجن گگوئی اور ان کی پوری بینچ بابری مسجد ۔ رام مندر تنازع پر فیصلہ سنانے کی جرات کررہی ہے ۔
بابری مسجد رام مندر تنازع ہندوستان کی تاریخ کا سب سے طویل اور پرانا مقدمہ ہے ۔ 1855 میں ایک بڈھسٹ نجومی نے کہاتھاکہ بابری مسجد کے احاطے میں رام کی پیدائش ہوئی تھی اور یہیں سیتا کی رسوئی ہے ۔ اس کے چند سالوں بعد 1859 میں نو آبادیاتی انگریزحکومت نے مسجد کو دو حصوں میں تقسیم کردیا اور باہر کی جگہ پر ہندﺅں کو پوجاکر نے کی اجازت دے دی ۔ کئی مرتبہ ہندﺅوں نے مندر بنانے کا وہاں مطالبہ کیا جس ردکردیاگیا ۔ستمبر 1949 کی ایک رات وہاں چپکے سے مورتی رکھ دی گئی اور اسی کے بعد مسجد میں نماز پر پابندی عائد ہوگئی ۔ پورا احاطہ حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا ، راجیوگاندھی کے دور میں تالا کھل گیا ،ہندﺅں نے پوجا کرنا شروع کردیا اور بالآخر 6دسمبر 1992 میں مسجد شہید کردی گئی ۔انہدام مسجد کے مجرموں کے تعلق سے اب تک کوئی فیصلہ نہیں آسکا ہے ۔ عدلیہ میں شروع سے سب سے اہم مقدمہ ملکیت کا زیر سماعت ہے کہ بابری مسجد جہاں واقع ہے اس کی ملکیت کس کے پاس ہے ، کون اس کا مالک ہے، کس کا قبضہ رہاہے۔ 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیاتھا جس مسجد کی جگہ تین حصوں میں تقسیم کردی گئی تھی ۔ایک حصہ مسلمانوں کو دیاگیاتھا اور دو حصہ ہندﺅں کے دوفریق نرموہی اکھاڑا اور رام للا کو دیاگیا ۔ جس جگہ پر ہندﺅں نے 1989 میں رام کی جائے پیدائش کا دعوی کیاتھا وہ ہندﺅں کے حوالے کردیاگیاتھا ۔ یہ فیصلہ کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا اور معاملہ سپریم کورٹ پہونچا ۔ پہلے بھی کئی مرتبہ سماعت ہوئی تاہم تسلسل باقی نہیں رہ سکا ۔ موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا نے اسے سنجیدگی سے لیا اور حتمی فیصلہ کرنے کا منصوبہ بنایا ،پہلے انہوں نے اسی سال فروری میں ایک ثالثی کمیٹی تشکیل دی جہاں اتفاق رائے نہ ہونے کے بعد 6اگست 2019 سے روزانہ کی بنیاد پر انہوں نے مقدمہ کی سنوائی کی اور 18اکتوبر تک یہ سماعت چلتی رہی ۔ چھٹیوں کے علاوہ سبھی دن سماعت ہوئی اور اس طرح 40 دن کی سماعت کی بعد پانچ رکنی ججز کی بینچ نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ۔مسلم اور ہندو دونوں فریقوں نے پوری قوت کے ساتھ عدالتی جنگ میں حصہ لیا اور مضبوطی کے ساتھ اپنی دلیلیں پیش کی ۔ ہندو فریق کے وکلاءنے بنیادی طور پر آستھا کو اپنی بحث کا حصہ بنایا اور اسی بنیاد پر رام مندر کے حق میں فیصلہ دینے کا مطالبہ کیا ۔ ہندﺅوں کے کئی فریقوں میں شدید اختلاف بھی سامنے آیا ۔ ٹائٹل سوٹ پر ہندو فریق کوئی بھی ٹھوس دلیل پیش کرنے میں ناکام رہے ۔ رام مندر توڑ کر بابری مسجد بنانے کا دعوی بھی وہ ثابت نہیں کرسکے ۔ نرموہی اکھاڑ ا نے کہاکہ بابرنے مندر توڑ کرمسجد بنائی تھی جبکہ ایک اور فریق رام للا نے کہاکہ اورنگزیب نے مندر توڑ کر مسجد بنائی تھی ۔ ملکیت کا ڈوکومینٹ بھی کسی نے پیش نہیں کیا ،نرموہی اکھاڑ انے کہاکہ سبھی کاغذات جل چکے ہیں ،رام للا نے کہاکہ رام ابھی نابالغ ہے اس لئے وہ مالک نہیں ہوسکتے ۔

مسلمانوں کے وکلاءنے الزامات کی تردید کی ۔ ٹائٹل سوٹ پر دلیل پیش کی ،مسلمانوں کی ملکیت کے سلسلے میں ثبوت پیش کیا اور فریق مخالف کے گواہوں کے بیانات میں پائے جانے والے تضادسے بھی اپنے دعوی کو مضبوط بنایا ۔ اس معاملے میں کل 15 مقدمات ہیں جس میں آٹھ فریق مسلمانوں کی جانب سے ہیں اور 7 فریق ہندﺅوں کی جانب سے ،مسلمانوں کی طرف سات مقدمات کی پیروی آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے کی ہے جبکہ جمعیت علماءہند خود ایک فریق ہے اور اس نے اپنے مقدمہ کی پیروی بھی کی ہے ۔ مسلمانوں کی طرف سے کئی سارے وکیل تھے تاہم سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون نے سب سے زیادہ محنت کی اور فری میں بلاناغہ پوری ایمانداری ،جرات اور حق گوئی کے ساتھ پیرو کی ۔ا س کے علاوہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنویرایڈوکیٹ ظفر یا ب جیلانی اور سینئر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑہ نے بھی قابل ستائش بحث کی ۔ مجموعی طور پر سماعت کے دوران مسلمانوں کے وکلاءنے اپنے دلائل کو مضبوطی کے ساتھ پیش کیا ۔ فریق مخالف کے دعوی کو باطل ٹھہرایا ور متعدد طرح کے الزامات کو مسترد کیا ۔
موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا کی مدت اسی ماہ 17نومبر کو پوری ہورہی تھی اسی لئے یہ طے ماناجارہاتھاکہ ریٹائرمینٹ کی تاریخ سے پہلی کسی بھی دن فیصلہ آجائے اور بالآخر اب اس کا اعلان بھی ہوگیاہے ۔ کل9نومبر کو بابری مسجد مقدمہ کا فیصلہ آرہاہے ۔
فیصلہ سے قبل مسلم رہنما اور ملی تنظیموں نے بڑے پیمانے پر مسلمانوں سے فیصلہ قبول کرنے اور پرامن رہنے کی اپیل کی ۔متعدد میٹنگ طرح کی میٹنگ ہوئی ، مختار عباس نقوی کے گھر پر آر ایس ایس رہنما کے ساتھ قابل ذکر ملی شخصیات نے ملاقات کی ۔ انڈیا اسلامک کلچر سینٹر میں آر ایس ایس کے ساتھ مسلم دانشوران اور اردو ایڈیٹرس کی میٹنگ ہوئی اور بھی کئی جگہوں پر بات چیت ہوئی ۔ کچھ لوگوں نے پریس کانفرنس کرکے کہاکہ جو بھی فیصلہ آئے گا ہم اس کا احترام کریں گے ۔ بابری مسجد کے تعلق سے شروع سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ ،جمعیت علماءاور تمام مسلمانوں کا یہ موقف رہاہے کہ سپریم کورٹ سے جو بھی فیصلہ آئے گا اسے ہم تسلیم کریں گے۔ مسلمانوں کی یہ بھی روایت رہی ہے کہ کبھی بھی انہوں نے لاءاینڈ آرڈ کو ہاتھ میں نہیں لیا ۔ آئین کی مخالفت نہیں کی ہے ایسے میں بار بار مسلمانوں سر فیصلہ قبول کرنے کی اپیل اور ماحول پرامن بنانے کا مطالبہ سماج میں بہتر نہیں سمجھاجارہاہے ۔ جن قائدین نے اس طرح کی سرگرمیوں میں حصہ لیا ہے ان پر شدید الزامات بھی عائد ہورہے ہیں ۔ کہاجارہاہے کہ آر ایس ایس کے منصوبہ کا یہ حصہ تھاکہ ججز کو نفسیاتی طور پر اس بات کیلئے آمادہ کیاجائے کہ مسلمان فیصلہ قبول کرنے کیلئے تیار ہیں خواہ ان کے حق میں آئے یا خلاف آئے جبکہ ہندﺅوں کے خلاف اگر یہ فیصلہ آتاہے تو ہنگامہ برپا ہوجائے گا ۔ملک میں امن وسلامتی خطرے میں پڑے جائے گی ، اس لئے مسلم قائدین کو خاموش رہنا چاہیئے تھا بالخصوص ایسے مواقع پر آر ایس ایس رہنما سے ملاقات یا پریس کانفرنس کے انعقاد کا کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتاہے ۔
بہر حال انتظار کی گھڑیا ختم ہوچکی ہے ۔ کل 9نومبر کی صبح ساڑھے دس بجے ججز حضرات فیصلہ سنانا شروع کردیں گے ۔اگر فیصلہ ہمارے حق میں آتاہے تو ہم اللہ تعالی کی بارگاہ میں ہدیہ تشکر پیش کریں گے ۔ خلاف آتاہے تو صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں گے ۔امید یہی ہے کہ یہ فیصلہ ثبوت وشواہد کی بنیاد پر آئے گا اور ٹائٹل سوٹ کی بنیاد پر ہوگا۔