جب چشمِ فلک اشکبار ہوئی

احتشام الحق، مظاھری، کبیر نگری

تاریخ عالم کی ورق گردانی کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ھے کہ صفحۂ دہر پر لرزہ بر اندام کردینے والے بے شمار واقعات پیش آئے ،نوع انسانی کو حواس باختہ بنادینے والے ان گنت حادثات ظہور پزیر ہوئے سینۂ گیتی پر آلام و مصائب کی موسلا دھار بارشیں ھوئیں ، چمن ہستی پر ابرِ غم کی گھنگھور گھٹاؤں نے بارہا خوں چکانیاں کیں، سرور و کیف کے شاداب شگوفوں کو سموم غم کی تلخیابیوں نے جھلسا دیا ، حوادثاتِ دوراں کی مصائب یاری نے دلوں سے صبر و سکون کو مفقود کردیا ، جہانِ مسرت میں بہت سارے انقلابات آئے ، مسکراہٹوں اور قہقہوں کی محفلوں میں اچانک نالۂ فغاں نے ارتعاش پیدا کیا، ہمالۂ سرورو نشاط کی فلک بوس چوٹیوں پر کلفت و اضطراب کے سیاہ بادل منڈلائے،
الغرض،،، متعدد انواع، ومختلف اقسام ، کے حوادث منصۂ شہود پر ظہور پزیر ہوئے ، اور رنج و الم کی بہت ساری داستانیں دہرائی گئیں ،،
لیکن ،،گردش ایام کی ساری انقلاب آفرینیاں چمن ہستی پر باد خزاں کی بہار سوختہ شعلہ باریاں ، الحاح و زاری کی دلسوز نوحہ خوانیاں آہوں اور سسکیوں کی حشر خیزیاں، بے شمار حسرتوں کی حرماں نصیبیاں ، اور حزن و الم کہ ساری داستانیں ، اس دل سوز و جان گداز حادثہ کے سامنے ہیچ ہیں ، جس کی رونمائی پر خوشانِ مشیت سوگوار ہوگئی تھی ، قصرِ سماوی ماتم کدہ بن گیا تھا ، مکینانِ افلاک حواس باختہ ہوگئے تھے ، ،،،، ایسا درد ناک و رقت خیز حادثہ جسے فلسفۂ احساس و خرد کائناتِ حوادث کا سب سے بڑا المیہ قرار دینے پر مجبور ھے ،،،،،

یعنی جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ، غار حراءمیں بارِ رسالت کی اولین امانت ودیعت کئے جانے کے بعد ، کوہ فاراں کی نورانی چوٹی پر کھڑے ہوئے ، اللہ احد کا سب سے پہلا باطل شکن نقارہ ، بجا کر نوع انسانی خواب کفر و ضلالت سے بیدار کیا ، اور سلسلۂ دعوت و تبلیغ میں مہر و الفت محبت ولطافت، کی گل افشانیاں کرتے ھوئے ، صرف 23 سالہ عرصۂ مختصر میں باطل خداؤں کے چراغوں کو بجھا کر توحید کا جہاں تاب دیا جلا یا، سابقہ ملل و شرائع کو منسوخ کر کے ،، الیوم اکملت لکم دینکم ——- کا سرمدی دستور حیات پیش کیا ،،، ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کے ہاتھوں قصرِ دین کہ تکمیل ہو چکی، اور بالآخر، —- کل نفسٍ ذائقۃ الموت —– کے سرمدی اصول کےطابق ؛ محبوب یزداں ، فخرِ رسولاں ، پیغمبرِ آخر الزماں ، ملک الموت کے ذریعہ دارِ فانی سے عالم جاودانی کا سفر طے فرماکر واصلِ بحق ہوئے ،،،
تو اس وقت کے تصور سے روح کانپ جاتی ھے رگ و پے کی حرکت سلب ہوجاتی ھے، پلکوں پر آنسوں کے موتی بکھر جاتے ھیں ، عقل و خرد کے لطیف محل پر اداسیوں کے گھنے بادل سایہ فگن ہوجاتے ھیں ، غم فراق کے فرشِ حزیں پر تصورات کے تلوے زخمی ہونے لگتے ھیں ،، آرزووں کے شاداب پودوں کو سمومِ فراق کی تیزابیاں جھلسا دیتی ہیں ، ذہنی عشرت کدے کی بنیادیں متزلزل ہونے لگتی ہیں ،،،، زبانِ کائنات واحسرتا واحسرتا کا ورد کرنے لگتی ھے ،
الحاصل،،، مرگ رسول کی منظر کشی سے زبان تھر تھراتی ہے ، قلم لڑ کھڑاتا ھے ، دامنِ صفحات سمٹتا نظر آتا ھے ،جملے مہمل ہو جانا چاہتےھے ، حروف تہجی خبر غم کی ہئیتِ ترکیبی اختیار کرنے سے گریز کرتے ھیں ، ذخیرۂ الفاظ داستان رحلت کی تعبیر سے قاصر ھے ،
الغرض ،،، نوشتۂ ازلی کے مطابق حادثۂ جانکاہ وجود پزہر ہوہی چکا ،،،، تو بتکلف تمام دلِ احساس پر صبر و تحمل کا پتھر باندھ کر تاریخ نگار ،نوک قلم میں بحرِ الم کی سرخ روشنائی کا دھاگہ ڈال کر دامنِ قرطاس کی گداز تختی پرتسلسلِ سطور کی کشید کی ہوئی لکیر پر دست نگارش ، جبراً و کراہاً، بایں طور خامہ فرسائی ہوا ،،،،، کہ
ماہ ربیع الاول ، کی بارہویں شب بدرِ منیر کی خنک شعاوں سے آنکھ مچولیاں کرتی ھوئی گیسوئے سیاہ فام کی گرہوں میں ستاروں کی ضوفگن کرنوں کو باندھتی ھوئی ، گلشنِ وجود کے پودوں کی آبیاری اور نازک گلوں کی لطیف پنکھڑیوں میں موسم بہار کہ مٹھاس گھولتی ہوئی ،، صبح نو کے ساحل کہ طرف آہستہ آہستہ چل رہی تھی، چاند —— قدّرنٰاہٗ منازلَ —— کے محور پر تیز گام تھا ، تاروں کی شب تاب شمعیں مندمل ہونے لگی تھیں ، گلشنِ دنیا میں چہل پہل شروع ہوچکی تھی ، رات کی مسافت تمام ہورہی تھی ، غرض یہ کہ ،،،،،، قیامتِ کبریٰ کا منظر لئے ہوئے لرزتی کانپتی سحر طلوع ہوئی ، گھنے بادلوں کے اوٹ سے سورج رونما ہوا ، اور آناً فاناً صفحۂ دہر پر روشنی پھیل گئی ،، سورج کی جبینِ جہاں تاب پر رنج و غم کی تصویر کشید کی ہوئی تھی ، اس کی خو بار شعاؤں سے کسی سب سے بڑے المیہ کا سراغ مل رہا تھا ، اور جب وہ اپنے مقررہ مدار پر رقص کرتا ھوا وقت موعود پر ڈیرا ڈال چکا ، تو نوشتۂ ازلی کی فائل کھولی گئی ،،،،،، قضا و قدر کے قلم نے عالمِ برزخ میں داخلے کا اجازت نامہ لکھا ، ——— کل من علیھا فان———– کہ عدالت نے آخری فیصلہ سنایا ، اور ایک لخت گردش دوراں نے انگڑائیاں لیں نظمِ کونین میں انتشار بپا ہوا، چمن مسرت پر اداسی کا بادل منڈلایا ، —–احسن تقویم —- کے نوری قالب میں دست اجل نے ڈاکہ زنی کی،،، روح پر فتوح کو قفس عنسری سے نکال کر نہایت اعزازو احترام کے ساتھ جنتی ملبوسات میں لپیٹا، اور —– الموت جسرٌ —– کے حدِ فاصل کو پار کرکے ، —– یوصل الحبیب الی الحبیب —— کی منصبی خدمت بجا لانے کے بعد ،—– ثم دنیٰ فتدلّیٰ —– کا قابلِ دید منظر پیش کر کے اشتیاقِ مشیت کا دیرینہ تقاضہ پورا کیا، !!
پھر کیا تھا افرا تفری کا عالم بپا ہوا، چشم فلک اشک بار ہوگئی ، سینۂ گیتی کا دل دہل گیا ، خدائی سوگوار ہو گئی ، عرش اعظم کے ستون ہل گئے، قصر نیلگوں کی جبینِ پُر شکوہ پَر شکن ابھر آئی، انسانیت یتیم ہوگئی،، روحیں غمگساری کے لئے زمین پر اتر نے لگیں ، روئے ایام نے تابِ ضبط نہ لاکر شب تاریک کا لبادہ اوڑھ لیا ،،،،،،
اور ادھر رفیق اعلی کاشوق —- اُدُنُ مِنیّ —— لبریز ہورہا تھا ، بامِ عرش سے ——– اِ ئتُونی بہ استخلصہُ لنفسی —— کی صدائیں باز گشت گونج رہی تھی،، خالق سلسبیل ، —- شراباً طہورا —— کا دور چلانے والا تھا ، ، روح الامین کو ثرو تسنیم کے ساغر ومینا لئے کھڑے تھے،، حوریں جنتی بالاخانوں میں ——- الانتظار اشد من الموت —— کا وظیفہ دہرا رہی تھی ،،،، رضوانِ جنت نوری تنوں کے ہمراہ نوشہِ جنت کے استقبال کے لئے فرش راہ بنے ہوئے تھے ، فردوس اعلی کی ثمر افشاں ڈالیاں شیریں مزاج و خوشگوار تحفے لئے بوجھل ہورھی تھیں،،،، عروس جنت شبِ کن فکاں کے دولھا کو اپنی باہوں میں لے کر خفیف لوریاں دینا چاہتی تھیں ،،،،
حجرۂ عائشہ تماشہ گہِ عالم بنا ہو اتھا،، در یثرب پر فرشتوں کا ازدحام تھا،، خاکِ لحد کے زرات جلوۂ کہکشاں کا منظر پیش کررھے تھے ، جسد رسول کے انعکاسی شرارے سورج کی شعاعوں کو شرمارہے تھے،، کفن کے زر نگار ٹکڑے ردائے کبریائی سے اقتباسِ فیض کررھے تھے ،،،، مہاجرین و انصار نے —– رحماء بینھم ——– کا عملی نمونہ پیش کردکھا یا تھا ، تاآنکہ ،،،،، الائمۃ من القریش —— کے بمصداق ؛؛؛؛ ثانی اثنین اذھما فی غار ——- خلیفہ اول منتخب ہوچکے تھے ،،،

آخراً،،، جب جاں نثار صحابہ لرزتے کانپتے ہوٹھوں سے نعشِ مبارک کو غسل دیکر ، زر نگارملبوسات میں بصد اعزاز و احترام مستور کرکے اشکبار آنکھوں سے جمال انوری کا آخری دیدار کرچکے،، تو ایکا ایک ، مشیت کانپی،، بجلی کڑکی، دھرتی کا کلیجہ شق ہوا، اور ہدایت کا سورج کائنات کو غمزدہ اور حواس باختہ چھوڑ کر خلوت گاہِ عائشہ میں ہمیشہ کے لئے روپوش ہوگیا ،،،،
آہ،،، اول ماخلق اللہ نوری —– کا ستارہ ڈوب گیا جو —- اللہ نور السمٰوت والارض —- کے مرکز انوار سے منعکس ہوا تھا ،،، وہ نقش نورِ منور مٹ گیا جس کی نورانی کرنوں سے بھیک مانگ کر مہ و خورشید نے اپنے دئے جلائے تھے ، وہ نقوشِ قدم محو ہو گئے جنہوں نے غبارِ راہ کو فروغِ وادئِ سینا بخشا تھا ،،، وہ محسن اعظم پردہ پوش ہو گیا جس کی ہرہر روش —— وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعالمین —— کی روشن تفسیر تھی ،،، وہ مینارۂ عظمت سر نگوں ہوگیا جس کی حدِّ رفعت —— ورفعنا لک ذکرک ——- کی وسعتوں میں گم ہے ،،،، وہ محبوبِ خدا موت کی آغوش میں جا چھپا،،،،، جس کی شانِ گرامی میں —— لو لاک لما خلقت الافلاک —– ارشاد ہوا تھا ،،،،

فی الجملہ ،،،، ماہ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ بروز دوشنبہ بحرِ رحمت کا بچھڑا ہوا قطرہ تریسٹھ سالہ افتراق کے بعد اس کی رحمت آمیزموجوں میں دوبارہ جا ملا

اپنے پرائے کے لئے یکساں تھا مہرباں
افسوس ایسا رہبرِ فرزانہ کھو گیا

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں