محمد اکرم ظفیر
مولانا ابوالکلام آزاد کا شمار دنیاکی ان چنندہ شخصیات میں ہوتا ہے جو صدیوں میں پیداہوتی ہے جو بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے، بیک وقت سیاست داں، مصنف، مقرر اور اسلامی اسکالر تھے۔ ہر سال گیارہ نومبر کو ان کے یوم پیدائش کے موقع پر ملک بھر میں پروگرام منعقد کرکے خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ ۸۸۸۱ءکو پاک سرزمین مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے محی الدین ابوالکلام آزادکی زندگی کا ہرحصہ تابندہ اور حیات مستعار کا ہرلمحہ درخشندہ ہے۔
الغرض ابوالکلام آزادکی شخصیت فطرت کا ایک حسین مجسمہ تھی۔ ان کے اندرجوصلاحتیں تھیں وہ دنیامیں بہت کم ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہیں۔کوئی ایسادائرہ اورحلقہ نہیں ہے جس سے ان کی یگانگی ابتداءسے ہی سب کے نزدیک نہ رہی ہو۔ ان کی نظرمیں ملک کے اندررواداری سب سے بڑی اہمیت کاحامل تھی۔ملک کی آزادی میں ان کی صحافتی کاوشوں سے کسی کوانکارنہیں ہے۔جب انہوں نے انگریزوں کے ظلم وتشددکے خلاف پوری قوم کوبیدارکرنے لئے جون ۲۱۹۱ءمیں ”الہلال“ نامی رسالہ کلکتہ سے نکالا۔جس میں انہوں نے انگریزوں کے خلاف لوگوں کو بیدار کیاجوانگریزوں کوراس نہیں آیااورضبط کرلیاگیا۔مگرمولاناکی رگوں میں دوڑتے خون نے قریب دوسال کے بعد”البلاغ“نامی رسالہ جاری کیااورہندوستانیوں کواس بات سے آگاہ کیاکہ ان کی صحافتی تحریک انگریزوں کے خلاف جدوجہدہے اس میں وہ تنہانہیں ہے بلکہ پوری قوم کے لوگ قدم سے قدم ملاکرکھڑے ہوئے ہیں۔جس سے مجاہدین آزادی کے اندرحوصلہ اور فکر و خیالات کو وسعت بخشی جس کے نتیجے میں ظالم وجابرحکمراں کے ناجائزقبضہ سے ملک کوآزادکرایا۔اس دوران انہوں نے ملک کے اندرسبھی مذاہب کے لوگوں، رہنماؤں کوایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کرنے کاکام کیا۔ مولانا آزاد نے اپنے عہدے وزارت میں جو علمی،سائنسی اور ٹیکنیکل ادارے قائم کئے،آج وہ عالمی سطح پر ہندوستان کی نمائندگی کررہے ہیں۔مولانا آزاد کی فکری وسعت اور دانشوری کے سلسلے میں یہ دعویٰ بالکل صحیح ہےکہ آج تک ہندوستان میں ان جیسا جہاں دیدہ،ہمہ گیر اور ہمہ جہت لیڈر پیدا نہیں ہوا۔وہ ذاتی اعتبارسے ایک ہی شخص تھے مگر ان کی حیثیتیں بے ثمار تھیں۔ملک کی آزادی کے وقت کچھ مفادپرست لیڈروں نے اسلامی جمہوری ملک کے نام پرپاکستان کامطالبہ کیاجس کی مولانانے پُرزورالفاظ میں مذمت کی۔ تقسیم کوروکنے کے لئے ہرممکن کوشش کی ،جب ملک تقسیم پردونوں فریق راضی ہوگئے اُس وقت مولانانے سب کومتنبہ کرتے ہوئے کہاکہ آنے والے وقت میں ہندوستان کواس کاخمیازہ برداشت کرنا پڑے گا اورپاکستان کے تعلق سے چند پیشن گوئیاں کیں جو سال ۱۷۹۱ءمیں ثابت ہوگئیں۔ تقسیم ملک کے وقت جب مسلمان اپنے آباؤ اجداد کی سرزمین کو چھوڑ کر پاکستان کوچ کررہے تھے اس وقت مولانا آزادنے جامع مسجددہلی کی سیڑھیوں سے جذباتی تقریرپیش کی جسے سننے کے بعدپاکستان جانے کاارادہ مسلمانوں نے ترک کردیا۔ ان کا خیال تھاکہ اگرمسلمان اپنی اس سرزمین کو چھوڑ کر چلیں جائیں گے تو ہندوستان کا مسلمان سماجی، سیاسی اور مالی طور پر کمزور ہوجائے گا۔ مولانا آزاد کی یہ ساری باتیں کچھ ہی سالوں کے بعدحقیقت میں تبدیل ہوگیا۔ مسجدوں کو ویران کر لاکھوں مسلمان پاکستان چلے گئے ، جس کی وجہ سے ہندوستان کا مسلمان ہر اعتبار سے کمزورہوگیا۔ سیاسی طور پر ان کا استحصال کیا جاتا رہا ہے۔ کاش کہ ملک تقسیم نہیں ہوتا۔
مولانا ابوالکلام آزاد اور ملک کے موجودہ مسلمانوں پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلمان تعلیمی، سیاسی، مالی، سماجی اعتبار سے سب سے نیچے پائیدان پر ہے پھربھی اس قوم کی بدقسمتی کہہ لیجئے کہ موجودہ وقت میں مسلمانوں کے پاس ایساکوئی لیڈرنہیں ہے جوملک کے مسلمانوں کو پسماندگی سے دورنکالے۔کوئی ایسی تنظیم یاجماعت نہیں ہے جوکلمہ شہادت کے نام پرملک کے مسلمانوں کومتحدکرسکے۔سیاسی طورپرایسی کوئی پارٹی یارہنمانہیں ہے جن کی ایک آوازپرگروہ بندطبقہ اتحادواتفاق کامظاہرہ کرسکیں۔کچھ سالوں سے ملک کے مسلمانوں کے اندرجوخوف پیداکیاگیاوہ دورہوتاہوانہیں دکھائی دے رہاہے بلکہ آئے دن اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔خلاصہ کلام یہ ہے مولانا جیسی شخصیت ہمارے درمیان دور دور تک دیکھائی نہیں دے رہا ہے،سب گروہ بندی میں مشغول ہے اور اپنی اپنی دکان چلارہے ہیں لیکن ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر حالات کا مقابلہ بآسانی کرسکتے ہیں۔ان سب مسائل کا حل صرف تعلیم ہی سے ہے۔اس لئے ضرورت ہے کہ اسلامی تعلیم دلانے کے بعد بچوں اور بچیوں کو ٹیکنیکل اور دنیا تعلیم ضرور دلائیں اس سے مولانا آزاد کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا اور یہی ہماری سچی خراج عقیدت ہوں گی۔