ریویو پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ قابل ستائش !

خبر در خبر (622)
شمس تبریز قاسمی
بابری مسجد ۔ رام مندر تنازع پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی عرضی دائر کرنا آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کا ایک دانشمندانہ اور ضروری قدم ہے ۔ ملک کی تقریبا سبھی اہم جماعتوں نے بھی بورڈ کے اس اقدام سے اتفاق کیاہے ۔ ملک کے 95 وے فیصد مسلمانوں کی بھی تقریبا یہی رائے کہ نظر ثانی کی عرضی دائر ہونی چاہیئے ۔ملت ٹائمز کے فیس بک اور یوٹیوب پر اس حوالے سے متعدد سرے ہوئے ہیں جس میں تقریبا 94 فیصد سے زائد لوگوں کی رائے یہی رہی ہے کہ ریویو پٹیشن کی عرضی دائر ہونی چاہیئے ۔
تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو چاہتے ہیں کہ جو فیصلہ آیا ہے اس کے خلاف دوبارہ کورٹ نہیں جانا چاہیئے ۔ایسی فکر رکھنے والوں کا تعلق دو گروہ سے ہے ۔ ایک گروہ وہ ہے جو مسلمانوں اور امت مسلمہ کے تئیں مخلص ،خیر خواہ اور فکر مند ہے تاہم ہندوستان کی عدلیہ سے ان کا اعتماد او ربھروسہ اٹھ چکاہے اس لئے وہ مزید عدالتی کاروائی میں وقت لگانے کو مناسب نہیں سمجھتے ہیں ۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو حکومت وقت سے قریب ہے ۔ ان کے انکار کا تعلق آر ایس ایس ،بی جے پی اور حکومت کی خوشنودی اور اس کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے سے ہے ۔ انہیں لگتاہے کہ رویو پٹیشن دائر کرنے کی وجہ سے رام مندر تعمیر کا راستہ رک سکتاہے ۔انہوں نے آر ایس ایس کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جو محنتیں کی ہے اس میں رکاوٹ ہوسکتی ہے ۔
اجودھیا تنازع پر سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ کے فیصلہ کے بارے میں سپریم کورٹ کے سابق جج اشکو گانگلی ، مہاراشٹرا ہائی کورٹ کے سابق جج جی جے کولسے ،پٹنہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اقبال انصاری سمیت متعدد ماہرین قانون اور وکلاءسوال اٹھاچکے ہیں کہ اس میں کئی ساری خامیاں اور غلطیاں ہے ۔ انصاف اور حقائق پر مبنی نہیں ہے ۔ 1045 صفحات پر مشتمل فیصلہ کی کاپی پر کسی بھی جج کا دستخط نہیں ہے جبکہ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا ،ہمیشہ ججز کا دستخط ہوتاہے ،اختلافی نوٹ ہوتاہے ۔ ججز نے تسلیم کیاہے کہ 1528 میں میر باقی نے مسجد کی تعمیر کی تھی ۔ رام مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر نہیں ہوئی تھی ۔ 1949 میں مسجد کے اندر مندر کا رکھاجاناغلط تھا ۔1986 میں تالاکا کھولنا غلط اور 1992 میں بابری مسجد کی شہاد ت بھی آئین کی خلاف ورزی تھی ۔1528 سے 6دسمبر 1992 وہاں تک مسجد تھی ۔ 1857 سے 1949 تک نماز پڑھنے کا ثبوت ہے ۔ یہ تمام دلائل تسلیم کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے مسجد کی جگہ مندر بنانے کیلئے سونپ دی ہے اور مسلمانوں کو دوسر ی جگہ پانچ ایکڑ دینے کا فیصلہ کیاہے اور اس کیلئے انہوں نے بنیاد بنایاہے کہ اٹھارہویں صدی تک مسجد میں نماز پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتاہے جبکہ پوجا کا ثبوت ملتاہے اس لئے اس پر را م للا کا حق ہے۔ سپریم کورٹ کے اس گراﺅنڈ کی تقریبا سبھی ماہرین قانون نے سختی سے تردید کی ہے اوراسے آئین ،دستور اور انصاف کے خلاف قرار دیاہے ۔
ان تمام حقائق کے پیش نظر رویو پٹیشن دائر کرنا مسلمانوں کے حق میں مزید سود مند ثابت ہوگا ۔ عدالتوں سے جس طرح کے فیصلے آرہے ہیں وہ پوری دنیا کے سامنے ہے تاہم اسی عدالت اور ہندوستانی آئین نے نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے اور فیصلے سے عدم اتفاق ظاہر کرنے کا ہمیں اختیار دے رکھاہے اس لئے ایسے موقع پر اس کا بھر پور استعمال ہونا چاہیئے ۔ اس اقدام سے کم ازکم دنیا بھر میں یہ میسیج بھی چلاگیاہے کہ ہندوستان کے مسلمان سپریم کورٹ کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں اور وہ مان رہے ہیں کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ کچھ درباری علماءاور دانشوران کو بنیاد بناکر مین اسٹریم میڈیا اور حکومت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ اجودھیا فیصلہ سے سبھی مسلمان خوش ہیں ،یہ کسی کی ہار اور کسی کی جیت نہیں ہے ۔ریو ویو پٹیشن اس لئے بھی اہم ہے کہ اس سے ہماری جدوجہد آخری حدتک جاری رہے گی اور تاریخ میں یہ بات لکھی جائے گی کہ مسلمانوں نے بابری مسجد کیلئے پوری کوشش کی تھی ،بیچ راستے میں مایوس ہوکر انہوںنے بازیابی کی جدوجہد نہیں چھوڑی تھی ۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com