محسن کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیتِ باپ

مفتی سہیل احمد قاسمی
بچے، اللہ رب العزت کی عظیم نعمت ،کائنات کا حسن ،دنیا کی رونق اور گلشن انسانیت کے مہکتے پھول ہیںجیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:۔
المال و البنون زینة الحیٰوة الدنیا و الباقیٰت الصٰلحٰت خیر عند ربک ثوابا و خیر املاً (سورہ کہف: ۶۴)
”مال اور اولاد دنیوی زندگی کی رونقیں ہیں اور باقی رہ جانے والی نیکیاں آپ کے رب کے پاس ثواب کے اعتبار سے بہتر اور امید لگائے جانے کے اعتبار سے اچھی ہے۔
الباقیات الصالحات کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں ، ان میں ایک نیک بچیاں بھی ہیں ۔
عبید بن عمر فرماتے ہیں کہ باقیات صالحات نیک لڑکیاں ہیں ، وہ اپنے والدین کے سب سے بڑا ذخیرئہ ثواب ہیں ۔
اختلف العلماءفی الباقیات الصالحات ھن عند اللہ لاٰبآئھن خیر ثواباً وّ خیر املاً فی الآخرة لمن احسن الیھن الخ (قرطبی جلد: ۱، صفحہ ۵۱۴ ، سورہ کہف )
اولاد کی خواہش انسان کی فطرت میں داخل ہے جو امر طبعی ہے ، صاحب اولاد بننے کی خواہش و تمنا ایک معمولی انسان سے لے کر بڑے سے بڑے برگزیدہ انسانوں اور نبیوں کے دلوں میں بھی رہی ہے ۔
چنانچہ عظیم المرتبت پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلسلے میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ آپ نے بارگاہ خداوندی میں نیک اور صالح فرزند کی دعا کی، حق سبحانہ و تعالیٰ نے ان کی دعا کو قبولیت کے شرف سے نوازتے ہوئے نیک اور دیند ار لڑکے کی بشارت دی اور اولاد صالح حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ۔
رب ھب لی من الصالحین ۔فبشرنٰہ بغلامٍ حلیم۔ (سورة الصٰفّٰت : ۱۰۱۔ ۳۱۱ )
حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد دوسری اولاد حضرت اسحاق علیہ السلام کی بشارت دی گئی ، ارشاد خداوندی ہے : ۔
” ابراہیم کو ہم نے بشارت دی اسحاق کی جو نیکو کار ہوگا ، نبی ہوگا اور برکت دی ہم نے اس پر اور اسحاق پر “
اولاد کی پیدائش پر حضرت ابراہیم علیہ السلام شکرگزار ہوئے ، جیسا کہ ارشاد ہے : ۔
”تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے مجھ کو بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا کئے“ ۔
الحمد للہ الذی وھب لی علیٰ الکبر اسمٰعیل و اسحٰق ان ربی لسمیع الدعاء(سورہ ابراہیم : ۹۳)
حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا کی :۔
رب ھب لی من لّدنک ذرّیّةً طیّبةً ۔ (سورہ آل عمران : ۸۳) ” اے میرے پروردگار ! تو اپنے پاس سے مجھے پاکباز اولاد عطا فرما “ ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے :
” جب انہوں نے چپکے چپکے اپنے رب سے دعا کی ،میرے پروردگار ! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں ، سر کے بال سفید ہو گئے ہیں ، میری بیوی بانجھ ہے ، لہٰذامجھ کو اپنی طرف سے ایک ایسا وارث عطا فرما دیجئے جو میرا جانشین اور خاندان یعقوب کا وارث ہو اور میرے پروردگار ! اس کو پسندیدہ شخص بنا دیجئے “ ۔ (سورہ مریم : ابتدائی چند آیتیں )
اولاد کی چاہت اور خواہش کو سنت انبیاءو صدیقین بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ حضرت امام قرطبیؒ ارشاد فرماتے ہیں :۔
دلت ھٰذہ الآیةعلیٰ طلب ولد وھی سنة المرسلین و الصدیقین۔ قال اللہ تعالیٰ : ”۔و لقد ارسلنا رسلاً من قبلک وجعلنا لھم ازواجاً وّ ذریّة“ ( قرطبی جلد: ۴، صفحہ : ۲۷)
”ہم نے آپ سے پہلے بھی کئی پیغمبر بھیجے ہیں ہم نے ان کو بھی بیویاں اور بچے عطاکئے “۔ ( سورہ رعد : ۸۳) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروںکو صاحب اولاد بنایا ہے،جتنے انبیاءگذرے ہیںان میں بعض کی متعدد بیویاں تھیں ،اور وہ صاحب اولاد تھے،اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صاحب اولاد تھے ،جیسا کہ ارشاد ہے ”جس طرح انبیاءسابقین کو اولاد کی نعمت دی گئی تھی اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیویاں اور اولاد عطاکی گئیں“۔(سورة رعد آیت :۸۳)
اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی چار صاحبزادیوں سے نوازااور صاحبزادے بھی چار ہوئے ،تین حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہاسے اورایک حضرت ماریہ قبطیہ سے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نسبی اعتبارسے ان صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کے علاوہ کسی کے باپ نہیں ہیں،لیکن روحانی اعتبار سے آپ پوری امت کے باپ ہیں،بلکہ امت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت ایک باپ سے بھی بڑھی ہوئی ہے،اور آپ کا احترام باپ سے کہیں بڑھ کر ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم روحانی مربی ہونے کی وجہ سے روحانی باپ کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ایک موقع پر مشرکین نے آپ کو طعنہ دیتے ہوئے ابتر یعنی مقطوع النسل کہا ،یعنی اولاد نرینہ آپ کو نہیں ہے،جس سے نسل آپ کی چلے اورآپ کے پیغام کو آگے بڑھائے ،وضاحت کر دی گئی کہ گرچہ نسبی اولاد نرینہ آپ کی نہیں ہے ،لیکن آپ کی رسالت ونبوت کے پیغام کوپھیلانے اور بڑھانے کے لئے نسبی اولاد کی ضرورت نہیں اس کے لئے روحانی اولاد بھی کا م کرتی ہے،چونکہ آپ رسول اللہ ہیں ،اور رسول امت کا روحانی باپ ہوتا ہے اس لئے آپ پوری امت کے روحانی باپ ہونے کی حیثیت سے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ کثیرالاولاد ہیں۔ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبین (سورة احزاب ۔۰۴)
حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ تحریر فرماتے ہیں:آیت کریمہ کا شان نزول اگرچہ ایک خاص واقعہ سے تعلق رکھتا ہے لیکن اپنے مفہوم ومعنیٰ کے لحاظ سے ہمہ گیر اور غیر موقت ہے،عربیت اور نقل وروایات دونوںلحاظ سے ایک ٹھوس حقیقت کا بیان ہے،اس آیت کے تین حصے ہیں ایک میں کہا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں،اس لئے کہ آپ کی اولاد ذکور حیات مستعار کو پہونچ چکی اور آپ صلبی بیٹا نہیں رکھتے ،اور اسلام میں لے پالک بے معنیٰ رسم ہے اور اس سے دوسرے کا بیٹاگود لینے سے بیٹا نہیں بن جاتا،اور اس کے احکام حاصل نہیں کر لیتا تو ایسی صورت میں زید رضی اللہ عنہ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا کہنا ہر طرح غلط ہے”ماکان محمد ابااحد من رجالکم۔“
مگر اس سے یہ احساس پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ جب آپ مردوں میں سے کسی کے صلبی باپ نہیں ہیںتو امت کے ساتھ کس طرح آپ کو شفقت پدری ہو سکتی ہے،یہ احساس اس لئے نہیں ہونا چاہئے کہ اگرچہ آپ امت کے صلبی باپ نہیں ہیںتو نہ ہوں مگر روحانی باپ تو ہیںجیسا کہ ہمیشہ انبیاءورسل اپنی اپنی امتوں کے روحانی باپ ہوتے ہیں،بلکہ روحانی باپ کارشتہ و رابطہ تو صلبی باپ سے بھی ہزارہادرجہ بڑھ چڑھ کر ہے ،کیونکہ وہ مادی اور روحانی دونوں تربیتوں کا کفیل ومربی ہے ،اس لئے دوسرے نبیوں اور رسولوں کی طرح آپ بھی خدا کے رسول ہیں”ولٰکن رسول اللہ“یہ آیت کا دوسرا حصہ ہے۔پھر اسی حد پر پہنچ کر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ امت کے لئے اس سے بلند وبالا یہ بشارت ہے کہ آپ سے قبل جس قدر بھی روحانی باپ انبیاءورسل گذرے ہیںعلی قدر مراتب ان میںامت کے لئے شفقت ورحمت کا جذبہ محدود رہا ،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے گذر جانے کے بعد دوسرا روحانی باپ نبی ورسول مبعوث ہو کر امت پر میری ہی طرح یا مجھ سے زیادہ شفقت وتربیت کا حق ادا کرنے والا ہے ،لیکن ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شان رفیع ہے کہ آپ صرف اللہ کے رسول ہی نہیں بلکہ آخر الانبیاءوالرسل ہیں جن کے بعد کسی نبی اور رسول کی بعثت کی ضرورت نہیںرہی ،اس لئے کہ دین کامل ہوگیا ،خدا کی نعمت پوری ہوگئی ،ایسی صورت میں تم اندازہ کر سکتے ہوکہ اس کی شفقت ورحمت کا کیا ٹھکانہ ہوگا ،جو مربی یہ سمجھتا ہو کہ اب اگلوں کی طرح اس کے بعد دوسرا کوئی مربی آنے والا نہیں ہے کہ امت پر اپنی رحمت نچھاور کرے ،اب تو رہتی دنیا تک اس کی آغوش تربیت وا رہے گی ،اور اسی کی نبوت ورسالت کا غیر منقطع سلسلہ جاری رہے گا ”وخاتم النبیین“(قصص القرآن ۴۳۹۳۔۴۹۳)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چہیتی چھوٹی بیٹی فاطمہ زہرہ ہیں ،جن کی والدہ عظیم ترین خاتون ام المو¿منین حضرت خدیجة الکبریٰ ہیں،جب تک وہ زندہ رہیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا نکاح نہیں فرمایا،حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بے حد تعریف وتحسین فرمایا کرتے تھے ،ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا:خدا کی قسم مجھے خدیجہ سے اچھی بیوی نہیں ملی ،وہ ایمان لائی جب سب لوگ کافر تھے ،انہوں نے میری تصدیق کی جب سبھوں نے مجھے جھٹلایا ،انہوں نے میری مدد کی جب میرا کوئی مددگار نہیں تھا،انہوں نے اپنا تمام زرومال مجھ پر قربان کر دیا جب دوسروں نے مجھے محروم رکھا ،اللہ نے مجھے ان کے بطن سے اولاد دی اور اولاد بھی ایسی جس میں فاطمہ جیسی بیٹی شامل ہے ،فاطمہ ہی کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل باقی رہی۔حکم خدا وندی سے فاطمہ کا نکاح حضرت علیؓ سے کیا گیا ،بہت سارے صحابہ کو مسجد میں جمع کیا اور آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ اپنی بیٹی فاطمہ کا نکاح علی بن ابی طالب سے کردوں ،ابھی جبرئیل امین میرے پاس اطلاع لے کر آئے تھے کہ اللہ رب العزت نے بیت المعمور میں فاطمہؓ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح اپنے خاص بندہ حضرت علیؓ سے کردیا اور مجھے حکم ہوا کہ نکاح کی تجدید کرکے گواہان کے روبرو ایجاب وقبول کرادوں ،اس طرح حضرت سیدہ فاطمہ کا نکاح حضرت علی ؓ سے ہوا ،اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی :اللہ تعالیٰ تم دونوں کو دلجمعی اور حسن رفاقت عطا فرمائے ،تم دونو ں کو خوش نصیب بنائے ،تم دونوں پر برکتیں نازل فرمائے اور پاکیزہ اولاد عطا فرمائے۔
ام المو¿منین حضرت عائشہ ؓ سے جمیع بن عمیر نے پوچھا ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ پیارا کون تھا؟حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ”فاطمہ رضی اللہ عنہا،مردوں میں کون تھا؟فرمایا:شوہرِ فاطمہ ،حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ فاطمہ ؓسے بڑھ کر کوئی بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ نہ تھا ، جب آپ خدمت میں حاضر ہوتیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ کر مرحباً فرماتے ، پیشانی پر بوسہ دیتے پھر دعا دے کر کے رخصت کرتے ۔ مسرور بن مخزمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ فاطمہ میرے جسم کا ایک حصہ ہے جو اسے ناراض کرے گا وہ مجھے ناراض کرے گا ۔ مجھے اپنے اہل و عیال میں فاطمہ سب سے زیادہ محبوب ہے تمام تر محبت کے باوجود انہیں ایمان و عمل اور فکر آخرت کی توجہ دلاتے اور دنیاوی لذات و مرغوبات سے کنارہ کشی کی ترغیب دیتے ، آقا ارشاد فرماتے ہیں : یافاطمة بنت محمد ! انقذی نفسک من النار فانی لااملک لک من اللہ ضراً ولا نفعاً ترجمہ: ۔ اے محمد کی بیٹی فاطمہ ! اپنے آپ کو جہنم سے بچا ، کیونکہ میں اللہ کی طرف سے تمہارے لئے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں حضرت فاطمہؓ کو دو بچے (حسن ، حسین) اور دو بچیاں (حضرت زینب و حضرت کلثوم)ہوئے اور چاروں زندہ رہے ، ایک موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حسین کے بارے میں فرمایا : کہ وہ دونوں جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ۔
جب حضرت حسن پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام حسن رکھا، ان کے کان میں اذان دی ، ان کی طرف سے عقیقہ کیا گیا ، اسی طرح حضرت حسین کی پیدائش پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے انتہا خوشی ہوئی ، پیدائش کی خبر سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہؓ کے یہاں تشریف لے گئے ۔ انہیں اپنے گود میں لے کر ان کی تحنیک فرمائی اور اپنی زبان مبارک ان کے منہ میں داخل کرکے اپنا لعاب مبارک ان کے منہ میں داخل کیا ، ان کے کان میں اذان دی اور ان کے لئے دعا فرمائی ، ان دونوں کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حسن و حسین یہ دونوں میری دنیا کے دو پھول ہیں ، ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رب العٰلمین میں اس سے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ اور اس شخص سے بھی محبت رکھ جو اس سے محبت رکھے ۔ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے اچانک حسن و حسین آگے گرتے پڑتے چلے آرہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیکھ کر ممبر سے اتر کر آئے اور دونوں کو اپنی گود میں اٹھایا پھر ان کو اپنے پاس بٹھا کر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سچ کہا : ”انما اموالکم واولادکم فتنة “ میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا کہ گرتے پڑتے چلے آرہے ہیں تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں اپنی وعظ و نصیحت منقطع کرکے ممبر سے اترا اورن کو گود میں اٹھا لیا ۔ حضرت یعلیٰ بن مرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں جس شخص نے حسین سے محبت رکھی اس نے اللہ تعالیٰ سے محبت رکھی۔حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسن کو اپنے کندھے پر بٹھائے ہوئے تھے ایک شخص بولا اے خوش نصیب منّے کیسی اچھی سواری پر تو سوار ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر یہ فرمایا وہ سوار بھی تو کتنا اچھا ہے ۔حضرت زینب ؓ کے بارے میں آپ کا ارشاد ہے”ھی افضل بناتی اصیبت فی“یہ میری بیٹیوں میں افضل ہے ،میری وجہ سے ستائی گئی۔حضرت زینب ؓ کو دو بچے تھے،علی اورامامہ،فتح مکہ کے دن اپنی اونٹنی پر ان کو پیچھے بٹھایا تھا ،جوانی میں اللہ کو پیارے ہوئے، یا دوسری روایت کے مطابق جنگ یرموک میں شہید ہوئے، اورپیاری نواسی امامہ سے آپ کو اتنی محبت تھی کہ انھیں کندھے پر بیٹھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادافرمائی تھی ۔ دیگر بچوں کے ساتھ پیارو محبت !حضرت جابر بن سمرہؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی (جب پڑھ چکے تو ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر جانے کے لئے مسجد سے باہر نکلے تو آپ کے
ساتھ میں بھی باہر آیا اتفاق سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ بچے آگئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پیار کرنے کیلئے ) ان میں سے ہر ایک بچہ کے رخساروں پر ہاتھ پھیرا اور پھر میرے رخساروں پر ہاتھ پھیرا، اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی ایسی ٹھنڈک اور خوشبو محسوس کی جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی عطروں کے ڈبہ میں سے اپنا ہاتھ نکالا ہو (مشکوٰة :۷۱۵)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ طویل عرصہ تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے رہے، وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پورے عرصہ میں میری کسی غلطی اور کوتاہی پر ڈانٹنا ڈپٹنا تو کجا کسی بات پر اف تک نہیں کیا ، جب کہ وہ زمانہ بچپن اور لاابالی پن کا تھا ۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی (اس پورے عرصہ میں ) مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اف بھی نہیں کہا اور نہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا اور یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا۔ (بخاری و مسلم)
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ جب مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو میری عمر آٹھ سال کی تھی ، اس وقت سے مسلسل دس سال آپ کی خدمت کے فرائض انجام دیتا رہا (جو مدینہ میں آپ کی کل مدت قیام ہے) اس پورے عرصہ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میرے ہاتھ سے کوئی چیز ضائع ہوگئی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو ملامت کی ہو ، اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے کوئی شخص (کسی چیز کے ضائع ہو جانے پر )مجھ کو ملامت کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جانے دو ، اس کو ملامت نہ کرو ، حقیقت یہ ہے کہ جو بات ہونے والی ہوتی ہے ضرور ہوکر رہتی ہے۔ (مشکوة شریف ۹۱۵)خالد بن سعیدکی بیٹی ام خالد کہتی ہیں کہ ( ایک دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (ھدیہ) میں کچھ کپڑے آئے جن میں ایک چھوٹی سی کملی بھی تھی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ام خالد کو میرے پاس لاو¿ ، چنانچہ ام خالد کو (جو بچہ ہی تھیں) اٹھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کملی اٹھائی اور اپنے ہاتھ سے ام خالد کو اڑھا دی اور پھر جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب کوئی نیا کپڑا پہنتا تو اس کو دعا دیتے ، ام خالد کو یہ دعا دی اس کپڑے کو پرانا کرو اور پھر پرانا کرو یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری عمر درازکرے اور بار بار تمہیں کپڑا استعمال کرنا اور بہت کپڑا پہننا نصیب ہو ، اس کملی میں سبز یا زرد نشان بنے ہوئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ام خالد یہ کپڑا تو بہت عمدہ ہے سناہ حبشی زبان کا لفظ ہے جس کے معنیٰ عمدہ اور بہترین کے ہیں ، ام خالد کہتی ہیں کہ پھر میں (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک کی طرف چلی ) گئی اور (بچپن کی ناسمجھی کی بنا پر ) مہر نبوت سے کھیلتی رہی ۔میرے باپ نے (یہ دیکھا تو ) مجھے ڈانٹنے اور منع کرنے لگے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس کو کھیلنے دو منع نہ کرو ۔ (مشکوٰة:۶۱۵)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا اور جب اس نے صحابہ کو دیکھا کہ وہ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے ہیں، تو کہنے لگا کہ کیا تم لوگ بچوں کو چومتے ہو ؟ ہم تو بچوں کو نہیں چومتے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن کر فرمایا : کیا میں اس بات پر قادر ہو سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل میں سے جس رحم و شفقت کو نکال لیا ہے اس کو روک دوں (بخاری و مسلم )
انسان کے دلوں میں شفقت و رحمت کا ہونا اللہ رب العزت کی طرف سے عظیم عطیہ ہے اگر کسی انسان کے دل سے اللہ تعالیٰ رحم ، شفقت اور
مروت نکال دے تو پھر کسی انسان کے بس میں نہیں ہے کہ ایسے شخص کے دل کو ان جذبات کی دولت عطا کرے ، اس پاک ارشاد میں نفرت اور سخت دلی کے خلاف نفرت کا اظہار ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں کرتا یعنی اس کو اپنی خاص و کامل رحمت کا مستحق نہیں گردانتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری و مسلم )
(مضمون نگار امارت شرعیہ میں صدر مفتی ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں