جب اونٹ آیا پہاڑ کے نیچے!

ڈاکٹر یامین انصاری

 سپریم کورٹ کےجھٹکے اور اُدھو ٹھاکرے و شرد پوار کے سیاسی تجربے کے سامنے مہاراشٹر میں بی جے پی چاروں شانے چت ہو گئی 

کسی سیاسی جماعتپر جب اقتدار کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے تواس کے اندر صحیح اور غلط، قانونی اور غیر قانونی، جائز اور ناجائز کا تمیز ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے لیڈران اقتدار کی طاقت کو پائیدار اور کبھی نہ ختم ہونے والی طاقت سمجھنے لگتے ہیں۔اس کی بڑی اور تازہ مثال بی جے پی ہے۔ ۲۰۱۴؁ء کے بعد بی جے پی کی اعلیٰ قیادت سے لے کر زمینی کارکنان تک نے فی الوقت جو تکبرانہ اور آمرانہ رویہ اختیار کیا ہے، اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھیں لگتا ہے کہ وہ شاید ابھی ۵۰؍ سال تک ملک پر حکمرانی کرنے والے ہیں، جیسا کہ وہ خود عویٰ کرتے ہیں۔ ۲۰۱۴؁ء کے بعد بھلے ہی بی جے پی کی کامیابیوں کی فہرست کافی طویل ہے، لیکن اس دوران وقفہ وقفہ سے ملنے والے جھٹکوں کو شاید وہ یاد نہیں رکھنا چاہتے۔ بی جے پی کو سب سے پہلا اور بڑا جھٹکا تو جلد ہی اس وقت لگ گیا تھا، جب پارلیمانی انتخاب کی یکطرفہ کامیابی کے چند ماہ بعد ہوئے دہلی کے اسمبلی انتخابات میں ملک میں مودی لہر کے باوجود شکست فاش ہوئی تھی۔ اس کے بعد کچھ ریاستوں میں بی جے پی نے کہیں مسند اقتدار کا بیجا استعمال کرکے اور کہیں عوام کو دام فریب میں لے کر کامیابی حاصل کی۔ پھر بھی کبھی پنجاب میں، کبھی بنگال میں، کبھی راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں عوام بی جے پی کو وقفہ وقفہ سے یاد دلاتے رہے کہ سیاست میں کچھ بھی پائیدار اور مستقل نہیں ہوتاہے۔ جس طرح سیاستدانوں کے نزدیک نظریات، آئین اور جمہوری اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اسی طرح عوام کے نزدیک بھی کسی سیاسی جماعت کی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہے۔ لیکن لگتا ہے بی جے پی کی سمجھ میں یہ بات شاید ابھی نہیں آئی ہے۔ اسی لئے اس نے مہاراشٹر میں رات کی تاریکی میں جمہوری اور آئینی اقدار کی دھجیاں اڑانے میں کوئی عار نہیں سمجھی۔ بہر حال، ملک تو آئین اور جمہوری تقاضوں کو پورا کرکے ہی چلتا ہے۔ اس کا ثبوت ایک بار پھر ہمیں اس روز ملا جب پورا ملک ۲۶؍ نومبر ۱۹۵۰؁ء کو ہندوستانی آئین کے نفاذ کا جشن منا رہا تھا، اسی روزعدلیہ نے مہاراشٹر کے سلسلہ میں دئے اپنے فیصلے سے عوام کے اعتماد کو جلا بخشی ہے۔

مہاراشٹر کی سیاست میں ۲۲؍ اور ۲۳؍نومبرکی رات میں جو کچھ بھی ہوا، اسے ایک مثالی جمہوریت کے لئے کسی بھی طرح صحت مند نہیں کہا جا سکتا۔ یہ واقعہ ہندوستانی جمہوریت کے لئےشرمناک ثابت ہوا ہے۔ بی جے پی کے اس سیاہ کارنامہ سے سیاستداں اورتجزیہ کار ہی نہیں، عام شہری بھی حیران رہ گئے۔ ۲۲؍ نومبر کی رات تک کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آنے والی صبح شیو سینا، این سی پی، کانگریس کی بازی پلٹ کر رکھ دے گی۔ بی جے پی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ سیاسی بازی گری میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ بھلے ہی اس کے لئے جمہوری اصولوں اور تقاضوں کو بالائے طاق رکھنا پڑے۔ ایک ایسے وقت میں جب شیو سینا، این سی پی اورکانگریس تقریباً سب کچھ طے کر چکی تھیں اور گورنر کے پاس حکومت سازی کا دعویٰ لے کر جانے کا پروگرام بنا رہی تھیں، عین اس سے پہلے این سی پی کے اجیت پوار کو اپنے ’داؤ‘ میں پھنسالیا اور رات کی تاریکی میں حکومت سازی کا تانا بانا بن دیا۔ صبح جب لوگ نیند سے بیدار ہوئے تو بی جے پی کے دیویندر فڑنویس وزیر اعلی اور این سی پی کے اجیت پوار نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لے چکے تھے۔ اخبارات کی سرخیاں کچھ کہہ رہی تھیں اور نیوز چینلوں کی سرخیاں مہاراشٹر کی الگ ہی تصویر بیان کر رہی تھیں، لیکن جیسے جیسے وقت گزرا بی جے پی اور اجیت پوار کی ساری حقیقت سامنے آنے لگی۔ جن اجیت پوار کو بی جے پی نے نائب وزیراعلی بنایا،بی جے پی ان پرمحکمہ آبپاشی میں ۷۲؍ ہزار کروڑ روپے کے گھپلے کا الزام لگاتے ہوئے جیل بھیجنے کی بات کہتی تھی۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر فڑنویس کا ۲۰۱۴؁ء کا ایک ویڈیو بھی خوب وائرل ہوا، جس میں وہ بہت مزے لے کر کہہ رہے ہیں کہ اگر مہاراشٹر میں بی جے پی کی حکومت بنی تو اجیت پوار جیل میں چکی پیسیں گے۔ پانچ سال کی حکومت بھی چلی گئی، اجیت پوار کا کچھ نہیں ہوا، بلکہ انعام کے طور پر انہیں مہاراشٹر کا نائب وزیر اعلی بنا دیا۔ وہ توغنیمت رہی کہ وقت رہتے اپوزیشن جماعتوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا اور عدالت عظمی نے بی جے پی کو اس کی حیثیت بتا دی۔ رات کے اندھیرے میں کرسی اقتدار سنبھالنے والے بی جے پی کے دیویندر فڑنویس اور این سی پی کے باغی اجیت پوار کو دن کے اجالے میں سب کے سامنے آ کر صرف تین دن کے اندر اپنے عہدوں کو چھوڑنے کا اعلان کرنا پڑا۔ کیوں کہ جہاں ایک طرف سپریم کورٹ کا ڈنڈا چلا، وہیں دوسری طرف اس کا سامنا سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی شرد پوار اور اپنی جارحانہ سیاست کے لئے مشہور شیو سینا کے اُدھو ٹھاکرے سے ہوا۔ بی جے پی شاید سوچ رہی تھی کہ اس نے جس طرح کا کھیل گووا، منی پور، کرناٹک اور اتراکھنڈ وغیرہ میں کھیلا تھا، شاید اتنی ہی آسانی سے وہ اپنی سازشوں میں یہاں بھی کامیاب ہو جائے گی۔ مہاراشٹرمیں گورنر کے ذریعہ بی جے پی کو حکومت بنانے کے لئے دعوت دینے کے فیصلے کے خلاف شیوسینا، این سی پی اور کانگریس کی عرضی پر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ وزیر اعلیٰ فڑنویس کو ۲۷؍ نومبر کی شام پانچ بجے تک فلورٹیسٹ کے ذریعہ ایوان میں اکثریت ثابت کرنی ہوگی۔ کورٹ نے کہا کہ شفافیت کے ذریعہ فلورٹیسٹ کرائے جائے اور ارکان اسمبلی کو خفیہ ووٹنگ کی اجازت نہیں دی جائیگی اور ووٹنگ کا لائیو ٹیلی کاسٹ کرایا جائے گا۔ یاد رہے کہ جسٹس این وی رمنا، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس سنجیو کھنہ کی خصوصی بنچ نے پیر کو مسلسل دوسرے دن سبھی متعلقہ فریقوں کی دلیلیں سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور منگل کو یہ فیصلہ سنا دیا۔ جسٹس رمنا نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اتوار کو ایک خصوصی سماعت میں وزیراعلیٰ فڑنویس اور مہاراشٹر کے گورنر کے درمیان خط و کتابت کے دستاویزات پیش کرنے کا مرکز کو حکم دیا تھا۔ سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے پیر کو خصوصی بنچ کو وہ دونوں خط سونپے، جس کے ذریعہ گورنر نےوزیراعلیٰ فڑنویس کو حکومت بنانے کے لئے دعوت دی تھی اوربی جے پی لیڈر نے ارکان کی حمایت کا دعوی کیا تھا۔ تشار مہتا نے دلیل دی کہ این سی پی لیڈر اجیت پوار کے ذریعہ۲۲؍ نومبر کو گورنر کو سونپے گئے خط میں انہوں نے این سی پی کے پورے ۵۴؍ اراکین اسمبلی کی حمایت کا دعویٰ کیا تھا۔ خط میں ذکرکیا گیا تھا کہ وہ این سی پی لیجس لیٹرپارٹی کے سربراہ ہیں۔ واضح ہو کہ مہاراشٹر اسمبلی میں کل ۲۸۸؍ نشستیں ہیں۔ حکومت بنانے کے لئے یا اکثریت ثابت کرنے کے لئے ۱۴۵؍ اراکین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسمبلی انتخابات کے نتائج میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ۱۰۵؍، شیوسینا کو۵۶؍، این سی پی کو۵۴؍ اور کانگریس کو ۴۴؍ سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ بی جے پی اور شیوسینا انتخابات سے پہلے ساتھ تھے اور ایسے میں دونوں کے پاس اکثریت کے اعداد و شمار بھی تھے۔ تاہم، اتحاد ٹوٹ گیا اور بی جے پی کو حکومت بنانے کے لئے۴۰؍ نشستوں کی ضرورت ہو گئی۔ جو اس کے پاس پوری نہیں ہو رہی تھیں۔

بہر حال، اگر جمہوری تقاضوں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بی جے پی کی اخلاقی شکست تو ہے ہی، ساتھ ہی اس نے جمہوری اداروں کو طاقت کا ناجائز استعمال کرکے پامال کرنے کا کام بھی کیا ہے۔ یہ کسی بڑے جرم سے کم نہیں ہے۔ اس کی سزا عدلیہ تو دے گی ہی، وقت آنے پر عوام بھی اس کا حساب ضرور مانگیں گے۔کیوں کہ مہاراشٹر کے واقعہ کو اگر راشٹر پتی بھون، راج بھون اور اقتدار کا ناجائز سیاسی استعمال کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں