محمد عمران
آزادی کی 70ویں سالگرہ کاموقع ہے اورپورے ملک میں جشن کی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ گزشتہ 69برسوں سے بھی یہی ہوتاآرہا ہے ۔ غالباًیہی وہ موقع ہوتا ہے جب ہم وطن عزیز میں آزادی کے حصول کے لئے انگریزوں کے مظالم کے خلاف مجاہدین آزادی کی قربانی اور ان کی جانفشانی کو یاد کرتے ہیں اورانہیں عقیدت بھراسلام پیش کرتے ہیں ۔اس موقع پرتاریخ کے صفحات پلٹتے ہوئے جلیان والاباغ کا قتل عام ،کسانوں پر کی جانے والی سختی ،عورتوں ،بچوں اور بزرگوں کی بے حرمتی ،حقوق کی پامالی اور ان کے حصولیابی سے محرومی ،اپنے ہی وطن میں غیر جیسی زندگی جینے کی مجبوری اور انگریزوں کی تفریق سے پر سیاست کی کارفرمائی وغیرہ کا ہم پرجوش انداز میں تذکرہ کرتے ہیں ۔اس موقع پر تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہوئے جگہ جگہ گنگاجمنی تہذیب ،حب الوطنی کاجذبہ ، اتحاد واتفاق کی قوت اور امن وآشتی کا منظرنامہ بھی نظر آتاہے ،جس کا ذکر اکثر وبیشتر تقریروں اور پیغامات میں کیابھی جاتاہے۔مزید یہ ہوتاہے کہ کبھی کسی سڑک کوکسی مجاہد آزادی کے نام سے موسوم کردیاجاتا ہے توکبھی کسی مقام کانام تبدیل کرکے وطن کو آزادی دلانے والے سورماؤں کے نام پر رکھ دیاجاتا ہے اور کبھی ان کے نام پر کوئی ڈاک ٹکٹ بھی جاری کردیاجاتاہے۔ پھر ایسا لگنے لگتا ہے گویا جشن آزادی کا حق ادا ہوگیا ہو اورہم محب وطن ہوجانے کی خوشی میں اپنی ہی پیٹھ تھپتھپانے کے حق داربھی ہوگئے ۔
لیکن اس کے ساتھ ہی ایک بہت ہی افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ آج وطن عزیز کی آزادی کیلئے اپناسب کچھ قربان کردینے والوں کے نام پر اور ’یوم آزادی‘ اور ’جشن آزادی‘ کے عنوان سے مختلف مقامات پر مختلف انداز میں محض اپنی سیاست کی دکان چمکائی جارہی ہے،جبکہ سچائی یہ ہے کہ وطن عزیزکے مجاہدین آزادی کوسچا خراج پیش کرنے کیلئے ان کے قائم کردہ اصولوں کواپنانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔آج بھی ملک میں آزادی کوسہی نہج پر قائم ودائم رکھنے کیلئے وہی قربانی کا جذبہ چاہئے جو مجاہدین آزادی کی زندگی میں ہمہ وقت موجود رہتاتھا۔تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ وہ لوگ اپنے ذاتی وسیاسی مفادات کو وطن کی آزادی کے حصول کیلئے جب بھی ضرورت پڑتی تھی قربان کردیتے تھے اورسنجیدگی کے ساتھ حب الوطنی کامظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے چھوٹے چھوٹے مسئلے کو حل کرنے میں بھی ہرطرح کی تفریق سے بالاتر ہوکر اپنی اپنی ذات سے مخلصانہ طورپر اس کاحصہ بنتے تھے ۔لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آزادی کے 70 سال بعد ملک میں آج کا معاملہ پہلے سے بہت ہی مختلف ہوگیا ہے ،آج ہرجگہ ذاتی مفادات حاوی ہونے لگے ہیں،اورآزادی کو محفوظ ومامون رکھنے کیلئے بھی مثبت اقدام نہیں کئے جاتے ہیں۔
رفتہ رفتہ حالات کچھ ایسے ابتر ہونے لگے ہیں کہ قومی یکجہتی کا شیرازہ ہی بکھرنے لگاہے،صدیوں پرانی گنگاجمنی تہذیب بھی پارہ پارہ ہونے لگی ہے،اوریہاں کے اتحاد واتفاق کی قوت کو گویاکسی کی نظر لگ گئی ہے۔ صدیوں سے مل جل کررہنے والے ،ایک دوسرے پر اعتماد کرنے والے اور ایک دوسرے کے کام آنے والے ،ایک دوسرے کومشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے ہیں۔ بہت ہی افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ آج بجائے ان خرابیوں کودور کرنے کے ، مطلب پرستی اور خود غرضی کوبڑھاوادیتے ہوئے انہی خرابیوں سے اپنی اپنی ذات کیلئے کسی کارگر پہلو کی تلاش کی جارہی ہے اور ہم وطنوں کے درمیان اس بڑھتی ہوئی کھائی کومزیدبڑھاوا دیتے ہوئے بہت بڑے پیمانے پر اپنے ذاتی سیاسی مقام کومزیداستحکام دینے کی مذموم کوشش ہورہی ہے۔ملک کی سالمیت اور اس کی تاریخی شان شوکت والی حقیقت اب ان کے سامنے جیسے کوئی بہت ہی بے معنی سی چیز بن کر رہ گئی ہے۔یہاںیہ کہتے ہوئے بھی دل چھلنی ہوجاتاہے کہ صدیوں سے ہندوستان کی روح کہلانے والے اور ’ہم‘ سے تعبیر کئے جانے والے ہندو اور مسلمان میں بھی آج انتہادرجے کا فرق کردیاگیا ہے،ان کے درمیان کے جس یقین و اعتماد کے ہیرے جواہر کو مجاہدین آزادی نے اپنی قربانیوں سے کمایاتھا اور ہمیں سونپ کرگئے تھے اس کو موجودہ عہد کی ذاتی اغراض والی منافع بخش سیاست کی کارفرمائی کی وجہ سے ہم پتھر سمجھ بیٹھے ہیں اورسیاست کے مکر وفریب کی وجہ سے ہی ایک دوسرے کو اسی پتھر سے زخمی بھی کررہے ہیں ۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم خود ہی زخمی ہورہے ہیں،ہمارے ساتھ ہی ہندوستان بھی لہولہان ہورہاہے،اوراسی وجہ سے آج ہمارے آزاد ملک ہندوستان میں آزادی کی معنویت بھی کسی حد تک بے وقعت ہونے لگی ہے۔
یاد کیجئے ا نگریزوں کی تفریق کی سیاست نے جس طرح ہندوستان کو غلام بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی ،آج اسی راہ پر چل کر دنیا بھر میں اپنی شناخت قائم کرنے والے جمہوری ملک کے کچھ’ سیاسی آقاؤں‘ کی مدد سے آزادی سے محرومی کی راہ ہموار کی جانے لگی ہے۔یقینی طور پرہم ہندوستانیوں کے لئے آج بھی یہ قابل فخر بات ہے کہ ہم ایک آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں۔ لیکن اگر ہندوستان کے موجودہ ماحول میں آزادی کو تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو بہت حد تک مایوسی کاسامنا کرنے کیلئے بھی تیار رہناپڑے گا۔یہاںآپ کوآئین مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہنے والے تو ’آزاد‘ گھومتے او’ر آزاد ی ‘کے مزے لوٹتے ہوئے نظر آجائیں گے،کالا دھن جمع کرنے والے ،اوراونچی کرسیوں پر بیٹھنے والے بھی کسی حد تک’ آزاد‘ نظر آئیں گے ،یہاں ظلم وبربریت کاجامہ زیب تن کرکے ملک میں بدامنی پھیلانے والوں کی’ آزادی‘ کواپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا جاسکتاہے،گؤرکشا کے نام پر جگہ جگہ مسلمانوں اور دلتوں کونشانہ بنائے جانے کی عجیب وغریب قسم کی’ آزادی‘ بھی نظر آئے گی ،مذہنی تنگ نظری کی بنیاد پر مذہبی انتشار کو ہوا دینے والے بھی اپنی طرح کی ’ آزادی ‘کے ساتھ ملک کی سا لمیت کی ڈور کو کاٹتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ایماندار افسروں کا قتل ،لوٹ کھسوٹ کا بڑھتا چلن ،معصوم بچوں کااغوا کیا جانا،نربھیا جیسے منحوس سانحات کوانجام دیاجانا، تعلیمی پسماندگی اور معاشی بدحالی کا بڑھتاجانا ،قانون سے بے پروائی اور آئینی اصولوں سے بے اعتنائی میں آپ کو ’آزادی ‘ کاپہلو نظر آجائے گا ۔
لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اس کے برعکس ہندوستان کا کوئی شریف النفس شہری قانون کے دائرے میں بھی اپنی آزادی کویقین کے ساتھ بیان کرنے کی ہمت جٹانے میں کامیاب نہیں ہوپائے گا،کیونکہ وہ آج بھی خوف کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہورہاہے،ماحول کی بے چینی ہمیشہ اسے پریشان کیے رہتی ہے،اس کو راستے میں لوٹے جانے کاڈر بھی ستاتا رہتاہے،اس کو کسی پل قتل کردیئے جانے کابھی خوف بھی بے چین رکھتا ہے،یہاں کاحال یہ ہے کہ کسی کے بچے کبھی بھی اغواکیے جاسکتے ہیں،روز بروز ہونے والی عورتوں کی عزت کی پامالی یہاں کی ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں کو ہمیشہ خوف زدہ رکھتی ہے،اقلیتوں کے ساتھ بڑھنے والا تفریق کا جارحانہ رو یہ بھی آج کے ہندوستان میں ان کی آزادی پر سیدھا حملہ تصور کیاجارہاہے،ان کے نوجوانوں پر اپنی تفریق والی آزادی کی بنیاد پرا لزام تراشی کرکے انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاجاتا ہے،ان کے مستقبل کوتاریک غار کاحصہ بنادیاجاتا ہے،برسوں بعدوہ عدالت کے ذریعے تمام الزامات سے بری بھی ہوجاتے ہیں لیکن اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتاہے کہ اس طرح وہ تعلیم وترقی کے حق سے ہی محروم ہوجاتے ہیں،اورآزاد ملک میں بھی ان کی آزادی محض ایک خواب بن کررہ جاتی ہے۔
دنیا بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ ہندوستان کی شناخت اس کی سیکولر روایتوں کی وجہ سے صدیوں سے قائم رہی ہے،سارے جہاں سے اچھا کہلانے والا ہمارا ہندوستا ن ہمیشہ سے یہی پیغام دیتارہاہے کہ مذہب آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتا ،لیکن یہ کہتے ہوئے دکھ ہوتاہے کہ آج اسی شناخت کو مٹانے کی سازشیں کی جارہی ہیں،کبھی لوجہاد کا شوشہ چھوڑ کر ماحول کوپراگندہ کیاجاتا ہے،کبھی ’گھرواپسی ‘ کی غیر ہندوستانی قسم کی مہم چلاکر سب کو ہندو بنانے اور سیکولر کردار کومٹادینے کا منصوبہ تیار کیاجاتا ہے،اس کے لئے دادری اور مندسور جیسے گھناؤنے افعال کوانجام دیاجاتا ہے،اس طرح سیکولر ملک کو ہند راشٹر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے،مخصوص زعفرانی نظریات کو ہندوستان سے جوڑنے کی مذموم سعی کی جاتی ہے اور جو شخص اس سے اتفاق نہیں رکھتا یا ہندوستان کی سیکولر روایتوں کوپامال ہونے سے بچانے کی صدا بلند کرتا ہے تواس پر ملک سے غداری کرنے تک کابھی کاالزام لگادیاجاتاہے۔
یہاں دلتوں کی حالت بھی روز بروز ابتر ہوتی جارہی ہے،ان پر ظالمانہ اور سفاکانہ سلوک کوروارکھتے ہوئے انہیں بھی آزاد ملک میں آزادی کے حق سے کسی حد محروم کردیاجاتاہے۔ان کی پسماندگی دور کرنے کے لئے مناسب اقدامات بھی نہیں کئے جاتے ہیں ،ان کے ساتھ تفریق کا سلوک بھی کیاجاتاہے،روہت ویمولا جیسے ہونہار طالب علموں کو بھی آزاد ملک کی آزادی کے باوجود حقوق سے محرومی کے سبب خودکشی تک کرنی پڑجاتی ہے، مردہ گائے کی کھال اتارنے کے اپنے آبائی پیشہ کواپنانے کے عوض دلتوں کو زور وظلم کانشانہ بنایاجاتاہے، جب وہ اس کام کوکرنے سے انکار کردیتے ہیں تو تعفن کاماحول پروان چڑھتاہے۔آج وطن عزیز کی آزادی کے موقع پر اس کے پیچھے کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی حقوق کا منظر نامہ بتاتاہے کہ آج کے اس بے چین ماحول میں اکثر وبیشتر مواقع پرہندوستان کی جمہوریت میں ووٹ دینے کی آزادی بھی خرید وفروخت کی سیاست کی نذر ہوجاتی ہے،غریبی ،بے روزگاری،بھکمری،ظلم وبربریت ،مذہب اور ذات پات کے نام پر کی جانے والی تفریق سے حاصل کی جانے والی آزادی کے نعرے آج بھی جگہ جگہ بلند کئے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج پورا ملک آزادی کے باوجود بھی عجیب وغریب قسم کی متحیر کردینے والی اور اپنے اوپر تنگ نظری کو حاوی کردینے والی ’غلامی ‘ کی افراتفری کے دور سے گزررہا ہے۔اور شاید اسی لئے ایسا محسوس ہوتاہے کہ آزادی کے 70سال گزر جانے کے بعد بھی سارے جہاں سے اچھاکہلانے والے ہمارے پیارے ملک ہندوستان میں آزادی کا پیغام پوری طرح سے عام نہیں ہوسکاہے۔
غور کیجئے !تومعلوم ہوگا کہ1947میں ملک کا آزادہونادراصل تمام طرح کے مظالم کے خاتمہ کا ہی اعلان تھا،اس اعلان کے ساتھ ہی ملک کے ہرشہری کواپنے بنیادی حقوق حاصل ہوگئے تھے،وہ خود اپنی ذات کے فیصلے کرنے کیلئے آزاد تھے،تعلیم اور پیشہ وغیرہ کے اختیارکرنے کی انہیں آزادی حاصل تھی،ہرطرح کی تفریق کو ختم کردیاگیا تھا ،اوریہی آزادی کی پکاربھی تھی۔آج بھی آزادی کی اسی پکار کوسننے کی ضرورت ہے۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار اینگلوعربک اسکول میں استاذ ہیں )
mohd1970imran@gmail.com