ممبئی: ( پریس ریلیز) جھارکھنڈ کے بعد دہلی میں فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دیکر عوام نے یہ ثابت کردیا ہے کہ نفرت کی سیاست بہت دنوں تک نہیں چل سکتی اس سے وقتی طورپر فائدہ تو اٹھایا جاسکتاہے لیکن نفرت کی سیاست کو ہندوستان کے عوام مستقل طورپر برداشت نہیں کرسکتے، جمعیۃعلماء ہند کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے اس لئے ملک کے موجودہ سیاسی حالات پر بولنے سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن ہمارافرض بنتاہے کہ ہم اپنی قوم کو ان مایوس کن حالات میں عزت وآبرواور قوت کے ساتھ اس نفرت کی سیاست کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیں، یہ گرانقدرالفاظ مولانا سید ارشدمدنی کے ہیں جو انہوں نے جمعیۃعلماء ہند کی مجلس منتظمہ کے اجلاس سے صدارتی خطبہ دیتے ہوئے کہے، انہوں نے کہا کہ پچھلے چند برسوں سے ملک میں جس طرح کی سیاست ہورہی ہے اس کے خطرناک اثرات پورے ملک میں مرتب ہوئے ہیں خاص طورپر شمالی ہندوستان میں مسلم اقلیت اس سے بہت زیادہ متاثرہوئی ہے،اقتدارکے حصول کے لئے جس نظریہ کو پورے ملک میں گھر گھر پہنچایا گیا اس سے ملک بھرمیں خوف وہراس کا ایک ایساماحول قائم ہوگیا ہے کہ اب حق بیانی بھی ایک ناقابل معافی جرم بن گئی ہے، انہوں نے آگے کہا کہ موجودہ حکومت کے اقتدارمیں آتے ہی مآب لنچنگ کا افسوسناک سلسل شروع ہوا جس میں 97 بے گناہ افرادکو بھیڑنے سرعام پیٹ پیٹ کرہلاک کرڈالا، ان میں 16غیر مسلم بھی ہیں، افسوسناک بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے باوجود نہ تو مرکزنے اس کے خلاف کوئی مؤثرقانون بنایا اور نہ ہی بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں نے چنانچہ شرپسند عناصرکے حوصلے بدستوربلند ہیں اور وہ قانون اپنے ہاتھ میں لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے،مولانا مدنی نے آسام میں این آرسی کے نفاذ کی صورت میں ہونے والی ہولناکیوں کا تفصیل سے ذکر کیا اور کہا کہ آسام میں فرقہ پرست طاقتوں کا منصوبہ 50لاکھ لوگوں کو غیر ملکی ثابت کرنے کا تھا لیکن وقت وقت پر سپریم کورٹ میں جمعیۃعلماء ہند کی قانونی جدوجہد کے سبب ان کا یہ منصوبہ ناکام ہوگیا، این آرسی کی حتمی فہرست سے جو 19لاکھ لوگ باہر ہوئے ہیں ان میں تقریبا 13لاکھ غیرمسلم اور ساڑھے پانچ لاکھ مسلمان ہیں،انہوں نے کہا کہ خداکی ذات سے توقع ہوکہ ان میں سے بھی ایک بڑی تعدادشہریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی، مولانامدنی نے کہا کہ آسام میں ناکامی کا انتقام اب سی اے اے جیسا آئین مخالف قانون لاکر پورے ملک کے مسلمانوں سے لینے کی سازش ہورہی ہے، انہوں نے کہا کہ سی اے اے کے ساتھ این پی آر اور این آرسی انتہائی سنگین مسئلہ ہے جس نے پورے ملک میں ہیجان برپا کررکھاہے اور ہندوومسلمان دونوں ان کے خلاف جگہ جگہ سراپا احتجاج ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ مسئلہ ہندومسلم کانہیں ہے مگر اسے ہندومسلم بنانے کی مسلسل کوشش ہورہی ہے، سی اے اے مذہب کی بنیادپر لایا گیا ایک ایسا قانون ہے جو آئین کی رہنماہدایات سے ٹکراتاہے، آئین میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ مذہب کی بنیادپرکسی شہری کے ساتھ امتیاز نہیں ہوگا اور ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گامگر اس قانون کے دائرہ سے مسلمانوں کو ایک بڑی سازش کے تحت باہر رکھاگیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ این پی آرتو اس سے زیادہ خطرناک ہے اس میں کچھ ایسی نئی چیزیں بھی جوڑ دی گئی ہیں جن کی معلومات فراہم کرنا ہر شہری کے لئے مشکل ہوسکتاہے، خطرناک بات یہ ہے کہ اس میں سروے کرنے والے افسرکو یہ اختیاردیدیا گیا کہ وہ جس کو چاہے ڈی ووٹرقراردیدے اس کی وضاحت کرتے ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ایسا شخص مشکوک قرارپائے گا اور اسے ووٹ دینے کا حق نہیں ہوگا نہ تو اس کی اولاد سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرسکے گی اورنہ ہی اسے ملازمت کا حق ہوگا اور اسے زمین وجائدادخریدنے کے حق سے بھی محروم کردیا جائے گا ایسے شخص کو خودتو ہندوستانی ثابت کرنے کے لئے ایک طویل قانونی لڑائی لڑنی پڑے گی اور ضروری نہیں کہ وہ اس میں کامیاب بھی ہوجائے، دوسرے ایک بار جو ڈی ووٹر ہوگا این آرسی میں بھی اس کانام شامل نہیں ہوگا، مولانا مدنی نے کہا کہ ہم روز اول سے یہ کہتے آئے ہیں کہ این پی آردرحقیقت این آرسی کا ہی ایک حصہ ہے اپنے خطبہ میں کشمیر کا ذکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ خالص سیاسی معاملہ ہے اس سلسلہ میں آئین
کے تقاضوں اور جمہوری اقدارکا لحاظ کرتے ہوئے کوئی مناسب قدم اٹھاناچاہئے تھا، جمعیۃعلماء ہند ان میں کشمیر کو بھارت کے حصہ کے طورپر دیکھا ہے اور ہمیشہ سے اس موقف رہا ہے کہ جمہوری نظام حکومت میں کسی عوامی مسئلہ کاحل بات چیت ہی سے نکالنے کی کوشش ہونی چاہئے، انہوں نے آخر میں کہا کہ ملک کے موجودہ حالات میں نفرت کی سیاست کا مقابلہ برادران وطن کے ساتھ حسن معاملہ، قرابت اور اپنی خوشی میں انہیں شریک کرکے ہی کیا جاسکتاہے حسن معاملہ جمعیۃعلماء ہند کے اغراض ومقاصدمیں شامل ہے بلکہ اگرمیں یہ کہوں کہ مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر حسن معاملہ قرآن وحدیث کی تعلیمات میں شامل ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا نفرت کا مقابلہ نفرت سے نہیں محبت سے ہی کیا جاسکتاہے۔ قابل ذکر ہے کہ 20اور21/فروری کو جمعیۃعلماء ہند کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس ہوا بعدازاں 22فروری کو مجلس منتظمہ کا اہم اجلاس منعقدہوا جس میں میں مختلف امورپر نہ صرف غوروخوض ہوا بلکہ کئی اہم تجاویز کو منظوری بھی دی گئی اس میں میں پہلی تجویز بابری مسجد سے متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مسجد قانون وعدل کی نظرمیں مسجد تھی آج بھی شرعی لحاظ سے وہ ایک مسجد ہے اور قیامت تک مسجد رہے گی خواہ اسے کوئی بھی شکل یانام دیدیاجائے،یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو رقبہ مندرکو دیاگیا ہے اس میں وقف کی زمین بھی شامل ہے قبرستان اور اس کے آثار موجود ہیں چنانچہ اس پر مذہبی عمارت کھڑی کرنا وقف قانون کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے، سی اے اے، این پی آراور این آرسی کے حوالہ سے منظورشدہ تجویز میں کہا گیا ہے کہ عوام کو ان کے حقائق اور مضمرات سے آگاہ کرنے کے لئے ریاستی اور ضلعی سطح پر عوامی مہم چلائی جائے جس میں ہندو، سکھ، عیسائی، سیاسی ومذہبی رہنماوں کو ساتھ لیاجائے ایک اہم تجویز باہمی رواداری سے متعلق بھی منظور ہوئی جس میں کہا گیا ہے کہ مذہبی ہم آہنگی، امن وآشتی اور باہمی اخوت ومحبت کی قدیم روایت کو برقرارکھنے کے لئے کسی بھی جہداور عمل سے دریغ نہ کیا جائے، اجلاس میں مختلف ریاستوں سے تجاویز موصول ہوئی تھیں جن میں جمعیۃ کے دستورمیں ترمیم واضافوں سے متعلق کچھ تجاویز تھیں جن پر غوروخوض کے لئے ایک سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کی منظوری مجلس عاملہ کے آئندہ اجلاس میں لی جائے گی۔