آج نہیں تو کل ہر مظلوم کی داد رسی اور ہر ظالم کی پکڑ ہوگی

عبد العزیز

جو لوگ دنیا میں نشۂ اقتدار میں مبتلا ہوتے ہیں وہ اس قدر مغرور اور گھمنڈی ہوجاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے سچائی اور صداقت اوجھل ہوجاتی ہے۔ وہ ہر کمزور پر ظلم روا رکھتے ہیں اور اپنے اقتدار کی عمر لمبی کرنے کیلئے ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے انسانیت شرمسار ہوتی ہے اور حیوانیت کو تقویت ملتی ہے۔ آج ہندستان میں ایک ایسی پارٹی یا ایک ایسا شخص برسر اقتدار ہے جو نشہ ¿ اقتدار میں مست ہے۔ اسے جبر و ظلم کے سوا کوئی چیز سجھائی نہیں دے رہی ہے۔ اس کی زد میں سب سے زیادہ ایمان والے ہیں اور انھیں اہل ایمان اور اہل حق ہونے کی وجہ سے ہر طرح سزا دینے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے۔
ظالموں کی پارٹی اور اس کا سرغنہ مسلمانوں کو نرم چارہ سمجھ کر اقتدار کے حرص اور لالچ میں وہ سب کچھ کر رہا ہے جو کسی زمانے میں فرعون اور نمرود نے کیا تھا مگر وہ بھول گیا ہے کہ مسلمان جس خدائے بزرگ و برتر پر ایمان رکھتے ہیں وہ عزیز و حمید ہے۔ آج مسلمان جن دشمنانانِ انسانیت کے ہاتھوں درد اور دکھ کی چکی میں پس رہے ہیں ان کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ان کی تکالیف اور مصائب سے بے خبر نہیں ہے۔ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے ، وہ اپنی بادشاہی میںاپنے صاحب ایمان بندوں پر ظلم و ستم کو بہت دیر تک گوارا نہیں کرسکتا۔ در اصل حق و صداقت کے دشمنوں کےلئے وعید ہے۔ انھیں خدا کی طرف سے ڈھیل دینے سے مغرور نہیں ہونا چاہئے۔ اللہ ان کی ستم رانیوں سے باخبر ہے۔ وہ سارا تماشا دیکھ رہا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جو اپنے مظلوم بندوں کا انتقام لے گااور ضرور لے گا اپنی افواجِ قاہرہ آسمانی برجوں سے بھیج کر یا زمین سے کوئی آفت ارضی ابھار کر سارے محلات اور ایوانوں کو مسمار اور ناز کرنے والوں کے غرور اور گھمنڈ کو پارہ پارہ کر دے گا۔
اللہ تعالیٰ سورہ بروج میں فرماتا ہے: ”قسم ہے مضبوط قلعوں والے آسمان کی اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے اور دیکھنے والے کی اور دیکھی جانے والی چیز کی کہ مارے گئے گڑھے والے (اس گڑھے والے) جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی؛ جبکہ وہ اس گڑھے کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے اسے دیکھ رہے تھے اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے، جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے اور وہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔
جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ظلم و ستم توڑا اور پھر اسے تائب نہ ہوئے، یقینا ان کیلئے جہنم کا عذاب ہے اور ان کیلئے جلائے جانے کی سزا ہے۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کئے، یقینا ان کیلئے جنت کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ ہے بڑی کامیابی۔
در حقیقت تمہارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔ اور وہ بخشنے والا ہے، محبت کرنے والا ہے، عرش کا مالک ہے، بزرگ و برتر ہے اور جو کچھ چاہے کر ڈالنے والا ہے۔ کیا تمہیں لشکروں کی خبر پہنچی ہے؟ فرعون اور ثمود (کے لشکروں) کی؟ مگر جنھوں نے کفر کیا ہے وہ جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں؛ حالانکہ اللہ نے ان کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ (ان کے جھٹلانے سے اس قرآن کا کچھ نہیں بگڑتا) بلکہ یہ قرآن بلند پایہ ہے، اس لوح میں (نقش ہے) جو محفوظ ہے“۔
صاحب تفہیم القرآن نے سورہ ’البروج‘ کی آیتوں کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے: ”سورہ البروج کا موضوع کفاع کو ظلم و ستم کے برے انجام سے خبردار کرنا ہے جو ایمان لانے والوں پر توڑ رہے تھے اور اہل ایمان کو یہ تسلی دینا ہے کہ اگر وہ ان مظالم کے مقابلے میں ثابت قدم رہیں گے تو ان کو اس کا بہترین اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ ظالموں سے بدلہ لے گا“۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے اصحاب الاخدود کا قصہ سنایا گیا ہے جنھوں نے ایمان لانے والوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک پھینک کر جلا دیا تھا۔ اور اس قصے کے پیرائے میں چند باتیں مومنوں اور کافروں کے ذہن نشین کرائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح اصحاب الاخدود خدا کی لعنت اور اس کی مار کے مستحق ہوئے اسی طرح سردارانِ مکہ بھی اس کے مستحق بن رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جس طرح ایمان لانے والوں نے اس وقت آگ کے گڑھوں میں گرکر جان دے دینا قبول کرلیا تھا اور ایمان سے پھرنا قبول نہیں کیا تھا، اسی طرح اب بھی اہل ایمان کو چاہئے کہ ہر سخت سے سخت عذاب بھگت لیں مگر ایمان کی راہ سے نہ ہٹیں۔ تیسرے یہ کہ جس خدا کے ماننے پر کافر بگڑتے اور اہل ایمان اصرار کرتے ہیں وہ سب پر غالب ہے، زمین و آسمان کی سلطنت کا مالک ہے، اپنی ذات میں آپ حمد کا مستحق ہے اور وہ دونوں گروہوں کے حال کو دیکھ رہا ہے، اس لئے یہ امر یقینی ہے کہ کافروں کونہ صرف ان کے کفر کی سزا جہنم کی صورت میں ملے بلکہ اس پر مزید ان کے ظلم کی سزا بھی ان کو آگ کے چرکے دینے کی شکل میں بھگتنی پڑے۔ اسی طرح یہ امر بھی یقینی ہے کہ ایمان لاکر نیک عمل کرنے والے جنت میں جائیں اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ پھر کفار کو خبردار کیا گیا ہے کہ خدا کی پکڑ بڑی سخت ہے، اگر تم اپنے جتھے کی طاقت کے زعم میں مبتلا ہو تو تم سے بڑے جتھے فرعون اور ثمود کے پاس تھے، ان کے لشکروں کا جو انجام ہوا ہے اس سے سبق حاصل کرو۔ خدا کی قدرت تم پر اس طرح محیط ہے کہ اس کے گھریے سے تم نکل نہیں سکتے، اور قرآن جس کی تکذیب پر تم تلے ہوئے ہو، اس کی ہر بات اٹل ہے، وہ اس لوحِ محفوظ میں ثبت ہے جس کا لکھا کسی کے بدلے نہیں بدل سکتا۔
اصل الفاظ ہیں ذات البروج یعنی برجوں والے آسمان کی۔ مفسرین میں سے بعض نے اس سے مراد قدیم علم ہیئت کے مطابق آسمان کے 12بُرج لئے ہیں۔ اور ابن عباس، مجاہد، قتادہ، حسن بصری، ضحاک اور سُدِّی کے نزدیک اس سے مراد آسمان کے عظیم الشان تارے اور سیارے ہیں۔
یعنی روز قیامت ۔ …. دیکھنے والے اور دیکھی جانے والی چیز کے بارے میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں مگر ہمارے نزدیک سلسلۂ کلام سے جو بات مناسبت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ دیکھنے والے سے مراد ہر وہ شخص ہے جو قیامت کے روز حاضر ہوگا اور دیکھی جانے والی چیز سے مراد خود قیامت ہے جس کے ہولناک احوال کو سب دیکھنے والے دیکھیں گے۔ یہ مجاہد، عِکرِمہ، ضحاک، ابن نُجیع اور بعض دوسرے مفسرین کا قول ہے۔
گڑھے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے بڑے بڑے گڑھوں میں آگ بھڑکاکر ایمان لانے والے لوگوں کو ان میں پھینکا اور اپنی آنکھوں سے ان کے جلتے کا تماشا دیکھا تھا۔ مارے گئے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر خدا کی لعنت پڑی اور وہ عذابِ الٰہی کے مستحق ہوگئے اور اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ ایک برجوں والے آسمان کی۔ دوسرے روزِ قیامت کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ تیسرے قیامت کے ہولناک مناظر کی اور س ساری مخلوق کی جو ان مناظر کو دیکھے گی۔ پہلی چیز اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو قادر مطلق ہستی کائنات کے عظیم الشان ستاروں اور سیاروں پر حکمرانی کر رہی ہے، اس کی گرفت سے یہ حقیر و ذلیل انسان کہاں بچ کر جاسکتے ہیں۔ دوسری چیز کی قسم اس بنا پر کھائی گئی ہے کہ دنیا میں ان لوگوں نے جو ظلم کرنا چاہا کرلیا، مگر وہ دن بہر حال آنے والا ہے جس سے انسانوں کو خبردار کیا جاچکا ہے کہ اس میں ہر مظلوم کی داد رسی اور ہر ظالم کی پکڑ ہوگی۔ تیسری چیز کی قسم اس لئے کھائی گئی ہے کہ جس طرح ان ظالموںنے ان بے بس اہل ایمان کے جلنے کا تماشا دیکھا اسی طرح قیامت کے روز ساری خلق دیکھے گی کہ ان کی خبر کس طرح لی جاتی ہے۔
گڑھوں میں آگ جلاکر ایمان والوں کو ان میں پھینکنے کے متعدد واقعات و روایات بیان ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کئی مرتبہ اس طرح کے مظالم کئے گئے ہیں۔
ان میں سے ایک واقعہ حضرت صہیبؓ رومی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ ایک بادشاہ کے پاس ایک ساحر تھا، اس نے اپنے بڑھاپے میں بادشاہ سے کہاکہ کوئی لڑکا ایسا مامور کر دے جو مجھ سے یہ سحر سیکھ لے۔ باداہ نے ایک لڑکے کو مقرر کردیا، مگر وہ لڑکا ساحر کے پاس آتے جاتے ایک راہب سے بھی (جو غالباً پیروانِ مسیح علیہ السلام میں سے تھا) ملنے لگا اور اس کی باتوں سے متاثر ہوکر ایمان لے آیا، حتیٰ کہ اس کی تربیت سے صاحب کرامت ہوگیا اور اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے لگا۔ بادشاہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ لڑکا توحید پر ایمان لے آیا ہے تو اس نے پہلے تو راہب کو قتل کیا، پھر اس لڑکے کو قتل کرنا چاہا مگر کوئی ہتھیار اور کوئی حربہ اس پر کارگر نہ ہوا۔ آخر کار لڑکے نے کہاکہ اگر تو مجھے قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو مجمع عام میں باسم رب الغلام (اس لڑکے کے رب کے نام پر) کہہ کر مجھے تیر مار میں مرجاو ¿ں گا؛ چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا مرگیا۔ اس پر لوگ پکار اٹھے کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے۔ بادشاہ کے مصاحبوں نے اس سے کہاکہ یہ تو وہی کچھ ہوگیا جس سے آپ بچنا چاہتے تھے۔ لوگ آپ کے دین کو چھوڑ کر اس لڑکے دین کو مان گئے۔ بادشاہ یہ حالت دیکھ کر غصے سے بھر گیا۔ اس نے سڑکوں کے کنارے گڑھے کھدوئے، ان میں آگ بھڑکائی اور جس جس نے ایمان سے پھرنا قبول نہ کیا اس کو آگ میں پھینکوادیا“۔ (احمد، مسلم، نسائی، ترمذی، ابن جریر، عبدالرزاق، ابن ابی شیبہ، طبرانی، عبد بن حمید)۔
دوسرا واقعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : وہ فرماتے ہیں کہ ایران کے ایک بادشاہ نے شراب پی کر اپنی بہن سے زنا کا ارتکاب کیا اور دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات استوار ہوگئے۔ بات کھلی تو بادشاہ نے لوگوں میں اعلان کرایا کہ خدا نے بہن سے نکاح حلال کر دیا ہے۔ لوگوں نے اسے قبول نہ کیا تو اس نے طرح طرح کے عذاب دے کر عوام کو یہ بات ماننے پر مجبور کیا، یہاں تک کہ وہ آگ سے بھرے گڑھوں میں ہر اس شخص کو پھینکواتا چلا گیا جس نے اسے ماننے سے انکار کیا۔ حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ اسی وقت سے مجوسیوں میں محرمات سے نکاح کا طریقہ رائج ہوا ہے۔ (ابن جریر)

موبائل: 9831439068
azizabdul03@gmail.com