متحدہ عرب امارت میں چار روز(قسط :4)

ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر مفتی شمس تبریز قاسمی نے 19جولائی تا 22 جولائی 2016 میں متحدہ عرب امارت کا ایک مختصر سفر کیا تھا،اس سفر میں ان کے علاوہ ہندوستان کے نامور علماء کرام شامل تھے ،احباب کے اصرار پر انہوں نے مختصر سفرنامہ تحریر کیا ہے ، سفر نامہ کل 10 ہزارسے زائد الفاظ پر مشتمل ہے ،ملت ٹائمز میں قسط وار اسے شائع کیا جارہاہے ،ہر چار روز بعد تقریبا 15 سو الفاظ پر مشتمل ایک قسط شائع کی جائے گی ، دیگر اخبارات کو بھی یہاں سے شائع کرنے کی اجازت ہے ۔ سفرنامہ کی چوتھی قسط آج ملاحظہ فرمائیں ۔
ایف آئی فیضی
منیجنگ ایڈیٹر

شمس تبریز قاسمی
گذشتہ سے پیوستہ
الرصاصی کے یہاں عصرانہ کی دعوت
عصر کی نماز سے فراغت کے بعد کوہ کن سے تعلق رکھنے والے گلف کے معروف تاجر جناب سلیم الرصاصی کے یہاں یہ قافلہ پہونچا ،لب سڑک واقع یہ بہت بڑاخوبصورت اور حسین بنگلہ تھا ،علاقہ انتہائی خوبصورت اور شاف وصفاف تھا،مختلف گارڈ دروازے پر کھڑے تھے ،ایک حصے میں فوراہ بنا ہواتھا ،جگہ جگہ کرسیاں لگی ہوئی تھیں،کئی ساڑی گاڑیاں کھڑی تھیں ،گارڈن اور پارکنگ کا منظر دیدہ زیب تھا۔گلف میں الرصاصی پرفیوم بہت ہی مشہور ہے، یہ خاندان انتہائی دین دارلوگوں میں ماناجاتاہے ،علماء کرام کا بیحد احترام کرتے ہیں،مدارس کا تعاون دل کھول کرتے ہیں ، تقریبا دوسوکڑور روپے زکوۃ کی رقم وہ تقسیم کرتے ہیں،اس کے علاوہ الرصاصی کے مہاراشٹر میں بہت سے رفاہی اور تعلیمی ادارے بھی قائم ہیں ،یہاں شاندار اور عمدہ ناشتہ کا انتظام تھا ،سلیم الرصاصی صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی بہت سے خدام کے باوجود علماء کرام کی خدمت میں مصرو ف تھے ،وہ خود سے ناشتہ لگارہے تھے ،ایک ایک کرکے سبھی مہمانوں سے تناول کرنے کی فرمائش کررہے تھے اور اکرام واعزاز کے تمام پہلوؤں پر نظر رکھے ہوئے تھے ۔
خوشبو کے سفر کا اجراء
عصرانہ سے فراغت کے بعد اسی علاقہ میں واقع ایک مسجد میں نماز مغرب ہم لوگوں نے ادکی اورپہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق المظہر میں واقع پروگرام ہال میں یہ قافلہ پہونچا جہاں خوشبو کے سفر کا رسم اجراء عمل میں لایا گیا ،اس تقریب میں مولانا سعید الرحمن اعظمی ،مولانا شاہد سہارنپوری مولاناسفیان قاسمی صاحب سمیت تمام حضرات نے خطا ب کیا اور ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب قاسمی کو اس خوبصورت تصنیف کیلئے مبارکباد پیش کی گئی ، سامعین میں ہندوستان کے تمام اہم تاجروں کے علاوہ متعدد عرب بھی تشریف فرماتھے ،پروگرام ہال عربوں کے علاقہ میں تھا اس لئے بھی بہت سے عرب وہاں بآسانی پہونچ گئے ،یہ کہنے کی ضرورت نہیں اردوزبان سمجھنے والے دنیا بھر میں موجود ہیں ،بھلے وہ بولنے اور لکھنے پر قدرت نہیں رکھتے ہیں لیکن سمجھنے کی صلاحیت ضرور رکھتے ہیں۔
رسم اجراء کی تقریب میں بہت سے ایسے ہندوستانی بھی نظرآئے جو اپنے لباس اور وضع قطع سے مکمل عرب لگ رہے تھے ،ان میں سے بیشترمجھے میری تحریروں کی معرفت جانتے تھے ،پروگرام ختم ہونے کے بعد جب انہوں نے مجھ سے آکر ملاقات کی تو ان کی زبان سے لفظ سلام نکلتے ہوئے مجھے بیحد تعجب ہواکہ لباس سے یہ عربی لگ رہے ہیں اور زبان ہندوستانی جیسی ہے ،آگے کی گفتگو میں انہوں نے خود ہی بتادیاکہ میں ہندوستان کے فلاں شہر سے ہوں ،فیس بک پر آپ کی تحریریں پڑھتارہتاہوں ، آپ کا اخبار ملت ٹائمز میرے مستقل مطالعہ میں رہتاہے ،ملاقات کی خواہش تھی جس کی آج تکمیل ہوگئی ، پروگرام ہال میں ایسے بہت سے احباب سے ملاقات ہوئی جن سے میری شناسائی کا سبب میرا قلم اور ملت ٹائمز تھا،ان تمام لوگوں نے بے پناہ محبتوں کا اظہار کیا اور میں انہیں بدلے میں تشکر کے چند کلمات کے سوا کچھ اور نہیں دے سکا۔
مراکش کے ایک شہری سے ملاقات
رسم اجراء کی تقریب کے بعد حاجی شفیع اللہ صاحب کے صاحبزادے کا ولیمہ تھا جہاں میری ملاقات ایک ویٹر سے ہوئی ،ہال میں داخل ہوتے ہی انہوں نے سلام کیا میں میرے جواب دینے کے بعد انہوں نے عربی میں کہا’’ کیف انت‘‘ اور میں نے بھی عربی زبان میں جواب دیا ’’انا طیب و کیف انتم‘‘ اس کے بعد کافی دیر تک ان سے عربی زبان میں گفتگو شروع ہوگئی ،انہوں نے اپنے دوسرے ساتھیوں سے بھی ملاقات کرائی ،یہ تمام مراکش سے تعلق رکھتے تھے ،ان میں سے ایک کا نام محمد سعد اور دوسرے کا مصطفے تھا،عربی زبان میں گفتگو کرنے کے بعد انہوں نے سب سے زیادہ اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ آپ ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں ،وہاں کی قومی زبان ہندی ہے ،وہاں ایک غیر مسلم کی حکومت ہے پھر آپ عربی زبان کیسے جانتے ہیں ،دین کے بارے میں یہ معلومات کہاں سے آپ کی ملی ہے ،ان کے اس سوال سے براہ راست اس بات کا علم ہوا کہ ہندوستان کے بارے میں دنیا بھر کے مسلمان کیا تصور رکھتے ہیں وہ کیا سوچتے ہیں۔میں نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو ہندوستان میں جاری مذہبی سرگرمیوں کی تفصیل بتائی اور ان سے کہا کہ اس وقت اگر سب سے زیادہ اسلام اور مذہب کی تعلیم کہیں پڑھائی جارہی ہے تو وہ ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش ہے ، یہ مت سمجھیں کہ ہندوستان پر غیروں کی حکومت ہے ،اس سرزمین پر آٹھ سو سالوں تک مسلمانوں نے حکومت کی ہے ،عالم اسلام کی تاریخ میں اندلس اور ہندوستان کو ہمیشہ یادرکھاجائے گا اس فرق کے ساتھ کہ اندلس میں حکومت کے ساتھ اسلام اور مسلمان کا بھی خاتمہ ہوگیا لیکن ہندوستان میں صرف اقتدار کا خاتمہ ہوا،اسلام اور مسلمان کا کوئی بال بیکا نہیں ہوسکا،رفتہ رفتہ اس میں اضافہ ہورہاہے اور اس کا سہرا یہاں کے علماء کرام کو جاتاہے جنہوں دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے مدارس کے قیام کا سلسلہ شروع کیا ۔
سید نذیر صاحب کے گھر پر پروگرام
دبئی میں ایک پروگرام وہاں کے مشہور تاجر جناب سید نذیر صاحب کے گھر پر تھا ،20 جولائی کو انہوں نے اپنے گھر پر تمام علماء کرام کو دعوت دی ،اس موقع پر انہوں نے گجرات اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے تمام تاجروں کو مدعو کیا ،مولانا سعید الرحمن اعظمی ،دبئی اسلامک مشن کے رکن مولانا اسحاق خاں ،مولانا شاہد سہارنپوری،مولانا عثمانی مدنی قاسمی ،مفتی محفو ظ الرحمن عثمانی سمیت متعدد علماء کرام کا خطاب ہوا ۔
مولانا ثمین اشرف صاحب سے ملاقات
دبئی میں قیام پذیر ایک اور ہندوستانی شخصیت حضرت مولانا ثمین اشرف قاسمی صاحب کی ہے ،آپ وہاں گذشتہ بیس سالوں سے مسجد مصلی میں امام ہیں،سیتامڑھی ضلع میں واقع مادھوپور گاؤں آپ کا وطن اصلی ہے ،یہاں مادھوپور میںآپ کے ایک بڑے بھائی مولانا امین اشرف قاسمی صاحب کا ایک مدرسہ بھی ہے ،مولانا ثمین اشرف قاسمی صاحب کا نام ہم نے بہت پہلے سناتھا،حال ہی میں مولانا کی کتاب تجلیات قدسیہ بھی پڑھنے کا اتفاق ہواتھا ،اس لئے ان سے ملاقات کی شدید خواہش تھی جس کی تکمیل رسم اجراء کے پروگرام میں ہوئی ،ہمارے مخلص دوست جناب حسان جامی صاحب نے ان سے میرا تعارف کرایا ،مولانا کے ساتھ میں ان کے صاحبزادے جناب صہیب ا شرف بھی تھے، مولانا نے بھی اپنائیت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات کی ،ایسا لگا کہ ہم دونوں کے درمیان تعلقات کافی وسیع اور گہرے ہیں ، وطن سے ہزاروں کیلومیٹر دور ہونے کے باوجود انہوں نے بہار کی مادری زبان میں گفتگو کرکے اس مٹھاس میں مزید اضافہ کردیا ، یوں لگا کہ جیسے ہم اپنے گھر میں بیٹھے اپنے کسی مشفق وکرم فرماء کے ساتھ محو گفتگو ہیں،مولانا ثمین اشرف صاحب دبئی کے اکثر پروگرام میں ساتھ تھے بلکہ یوں کہاجائے کہ آپ اس قافلہ کے ایک جز تھے ،علماء کرام کے اس قافلہ کے ساتھ ہمہ وقت رہنے کے ساتھ مولانا نے اپنے گھر پر بھی 21 جولائی کو ظہرانہ کی دعوت دی جہاں سبھی علماء کرام تشریف فرماتھے ۔(جاری)

اس سفرنامہ کی تیسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں