ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی
آج ترکی میں پہلا دن تھا، عشاء کی نماز ہم نے استنبول کی مشہور مسجد سلطان احمد میں ادا کی، ظہر کی نماز اس سے ملحقہ مسجد میں ادا کرنے کا اتفاق ہوا، دونوں جگہ دیکھا کہ امام صاحب کا امامت کے لیے ایک مخصوص لباس ہے جسے وہ نماز سے پہلے پہن لیتے ہیں، یہاں کا ایک عجیب ’’کلچر‘‘یہ ہے کہ امام نماز کے بعد اپنے مصلے پر بغیر سنت پڑھے کافی دیر تک بیٹھا رہتا ہے اور با آواز بلند مختلف اذکار کرتا ہے، بیچ بیچ میں وقفہ بھی کرتا ہے۔ یہی بات ملیشیا کی مساجد میں بھی دیکھی۔ یعنی سنت کی ادائیگی میں غیر معمولی تاخیر ایک عام بات ہے۔ کل یہاں کے کچھ علمائے کرام سے ملاقات ہے اس سلسلے میں ان سے دریافت کروں گا۔
شامی مہاجرین چونکہ ترکی میں بہت ہیں ان میں اچھی خاصی تعداد سڑک پر مانگنے والوں کی بھی دیکھی۔ میں اس سے پہلے سن 2008 میں یہاں آیا تھا، اس زمانے میں کہیں کوئی مانگنے والا نہیں دیکھا۔ اللہ ان لوگوں کے حال پر رحم فرمائے۔
صبح تقریبا 9 بجے ناشتے سے فارغ ہوکر ہم قریب ہی واقع آیا صوفیا دیکھنے چلے گئے۔ چودہ سو اسی سال قبل بازنطینی عیسائیوں نے اسے تعمیر کیا تھا اور یہ تقریبا ایک ہزار سال تک ان کا سب سے بڑا چرچ رہا۔ پھر سلطان محمد دوم نے اس کو سنہ چودہ سو ترپن میں مسجد میں تبدیل کردیا۔ اس وقت اس عمارت میں جگہ جگہ دیواروں پر تصویریں بنی ہوئیں تھی، سلطان نے ان کو اس طرح مٹوایا کہ ابھی بھی اندازہ ہوتا ہے یہاں عیسائی شعار بنے ہوے تھے۔ صرف دروازے پر بنی ہوئی ایک تصویر کو باقی رکھا۔ اسی سے ملحقہ احاطے میں سلاطین عثمانیہ کی قبریں بھی ہیں جو آج بھی ان کے کر وفر کی گواہ ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ لوگ وہاں جاتے ضرور ہیں مگر فاتحہ شاید ہی کوئی پڑھتا ہو۔ وہ محض ان قبوں کی خوبصورتی دیکھنے جاتے ہیں۔
وہاں سے ہم نے میٹروں لی جو آبنائے باسفورس کے اندر بنی سرنگ میں چلتی ہے۔ اس آبنائے کے ایک طرف یورپ ہے اور دوسری طرف ایشیا۔ گو کہ دونوں طرف کے علاقے استنبول ہی میں آتے ہیں مگر ایشیائی علاقے کو مرمرہ کہا جاتا ہے۔
ایک صاحب ہمیں اسٹیشن پر لینے کے موجودہ تھے۔ ان کی ترکی نژاد اہلیہ چند سال قبل معہد تعلیم الاسلام امریکہ میں پڑھتی تھی۔ اس نسبت سے وہ ہم سے ملنے آئے تھے۔ وہ ہمیں قریب ہی واقع ترکی کے مشہور ادارے مرکز البحوث للدراسات الاسلامیہ لے کر گئے۔ ادارے کے ڈائریکٹر جناب تنجائی بشعولہ ہمارے منتظر تھے۔ انھون نے تفصیل سے اپنے ادارے اور اس کے مختلف کاموں کا تعارف کرایا۔ انھوں نے ایک مصحف بھی ہدیہ کیا جو مصحف عثمانی کی کاپی ہے۔ آدھے صفحہ پر مصحف عثمانی کا ایک پیج ہے اور بقیہ آدھے پر آج کے رسم الخط میں لکھا ہوا ہے۔
وہ اپنے ساتھ ادارے کے کینٹین میں کھانے کے لیے لے گئے جہاں مختلف جامعات کے پروفیسر حضرات آتے ہیں، ہمیں ان کے ساتھ دیکھ کر کچھ اساتذہ ہماری ٹیبل پر اپنا کھانا لے آئے۔ ان حضرات سے بڑا دلچسپ تبادلہ خیال رہا۔ انھی لوگوں میں ایک صاحب ڈاکٹر عبد الحمید ابریشق بھی تھے، ان کا موضوع اختصاص علمائے دیوبند ہیں، انہوں نے ترکی زبان میں علمائے دیوبند کے تعارف میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ وہ خود کہتے ہیں کہ میں یہاں علماء ہند کا ترجمان ہوں۔ وہ جامعہ مرمرہ کی دینیات فیکلٹی کے ڈین ہیں۔ اس یونیورسٹی میں اسی ہزار کے قریب طلباء پڑھتے ہیں۔ پانچ ہزار طلبہ صرف دینیات فیکلٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کے آفس میں کچھ وقت گزارنے کے بعد ہم نے وہاں کی مسجد دیکھی۔ ماڈرن آرٹ کے مطابق بنی ہوئی اتنی خوبصورت مسجد میں نے نہیں دیکھی لاکھوں ڈالر کے صرفہ سے بنی ہوئی مسجد کسی ایک صاحب نے ہی بنوائی ہے۔
پھر وہ ہوا جو ہر جگہ ہوتا ہے، یعنی دیوبند کے ایک فاضل سے ملاقات ہوئی، ان کا نام ہے مولانا قاسم عادل، ازبکستان سے تعلق رکھتے ہیں، میرے دور طالب علمی میں وہاں سے ایک طالب علم آئے تھے مولانا یارقین، یہ انہی کے شاگرد بھی ہیں۔ مولانا قاسم ترکی میں ایم اے کے طالب علم ہیں، دیوبند کے عاشق صادق اور تحریکی ذہن رکھنے والے نہایت با اخلاق اور صالح نوجوان ہیں۔ وہ باوجودیکہ روزے سے تھے مگر افطار کے بعد تک ہمارے ساتھ رہے، وہ ہمیں الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین ترکی کے ذمے دار جناب عبد الوہاب اکینجی سے ملاقات کے لیے لے گئے۔ یہ صاحب تو مجسم اخلاق تھے، ان کی خوبصورت بیٹھک میں پہلے سے ہی کچھ عرب مہمان اور علمی شخصیات جلوہ افروز تھیں۔ ان حضرات سے ملاقات میرے لیے سعادت تھی، انھوں نے دیوبند کی نسبت سے بڑا والہانہ استقبال کیا۔ کچھ دیر وہاں بیٹھ کر ہم مولانا قاسم عادل کے ساتھ واپس ہوے۔
ایک عجیب بات میں نے یہ محسوس کی کہ یہاں لوگ ہمارے روایتی لباس کے عادی نہیں ہیں اس لیے کچھ لوگ ہمیں بنظر استعجاب دیکھتے رہے، امریکہ میں تو ہم ایسی نگاہوں کے عادی ہیں مگر یہاں بھی ایسا ہی تجربہ ہوگا یہ دیکھ کر اچھا نہیں لگا۔ البتہ دینی خیالات رکھنے والے افراد ہمیں دیکھ کر یہ سمجھتے رہے کہ ہم تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں اور اس وقت حالت گشت میں ہیں۔ مولانا قاسم عادل بھی ہمیں یہاں کے تبلیغی مرکز لے جا کر یہاں کے امیر صاحب سے ملاقات کرانا چاہتے ہیں اور میں اس بات سے خائف ہوں کہ کہیں اپنی تشکیل نہ کرا بیٹھوں۔