‘اپریل فول’ محض ایک جھوٹ ایک فریب

 مفتی عبدالرزاق بنگلوری 

    آئے دن دنیا میں نت نئے فتنے مغربی کلچر کی شکل میں رونما ہورہے ہیں، جس میں عالم اسلام بھی مبتلا ہے،لوگ اسلامی تعلیمات سے کوسوں دور جاچکے ہیں، یہ ‘اپریل فول’ ایک دجل اور مکر وفریب سے خالی نہیں ہے، یہ ایک شیطانی داؤ ہے، جس میں سارے انسان ملوث ہیں، غیر تو دور اپنوں نے ہی اسلامی تعلیمات کو بھلانا شروع کردیاہے، جس کا نتیجہ یہی ہے کہ آج پوری دنیا میں مغربی تہذیب عام ہوتی جا رہی ہے، مسلمانوں کے اندر سے حلال وحرام کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے، سچ اور جھوٹ کی پہچان دشوار ہوچکی ہے، حتی کہ نیکی اور گناہ کے درمیان اتحاد پیدا کر دیا گیا ہے، نیکی کو نیکی سمجھ کر اور گناہ کو بھی نیکی سمجھا جا رہا ہے، ‘اپریل فول’ میں جھوٹ کا افشاء کرکے لوگوں کو خوش کروانا اور ان کو مسکراتے دیکھنا نیکی سمجھی جارہی ہے،     

       اس رسم کی ابتدا کے بارے میں مؤرخین کے بیانات مختلف ہیں، بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترھویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا، اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی وینس(venus) کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھا کرتے تھے، وینس کا ترجمہ یونانی زبان میں اپرو ڈیٹ (aphrodite) کیا جاتا ہے، اور شاید اسی یونانی نام سے مشتق کرکے مہینے کا نام اپریل رکھا گیا ہے، 

                       (برٹانیکا٨/ ٢٩٢ ایڈیشن ١٥) 

         بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ چونکہ اپریل سال کی پہلی تاریخ ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ایک بت پرستانہ تقدس بھی وابستہ تھا، اس لیے اس دن کو لوگ جشن مسرت منایا کرتے تھے، اور اسی جشن مسرت کا ایک حصہ ہنسی مذاق بھی تھا، جو رفتہ رفتہ ترقی کرکے ‘اپریل فول’ کی شکل اختیار کرگیا، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس جشن مسرت کے دن لوگ ایک دوسرے کو تحفے دیا کرتے تھے، ایک مرتبہ کسی نے تحفے کے نام پر کوئی مذاق کیا جو بلآخر دوسرے لوگوں میں بھی رواج پکڑ گیا،

        برٹانیکا میں اس رسم کی ایک اور وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ 21 مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آنی شروع ہوتی ہیں، ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذ اللہ) قدرت ہمارے ساتھ مذاق کر کے ہمیں بیوقوف بنا رہی ہے، لہذا لوگوں نے بھی اس زمانے میں ایک دوسرے کو بیوقوف بنانا شروع کر دیا،. ( برٹانیکا ١/ ٤٩٦).       

           مذکورہ بالا تاریخ سے صاف معلوم ہوتا ہےکہ یہ ایک دجالی فتنہ ہے، جو مغربی کلچر کی شکل میں رونما ہورہا ہے، آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی قرآن وحدیث نے صاف کہہ دیا تھا کہ جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے مگر مذاق میں بھی جھوٹ بولنا کسی بڑے گناہ سے کم نہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے ‘جھوٹ گڑھنے والےوہی لوگ ہوتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے، اور وہی لوگ(حقیقت میں) جھوٹے ہیں، 

                               ( سورۃ النحل.١٠٥).     

     

           ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہ’ بے شک اللہ تعالی اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے ہدایت نہیں دیتے،. ( سورۃ الزمر، ٣) 

        ایک اور جگہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا، اے ایمان والوں! خدا سے ڈرتے رہو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ رہو (سورہ توبہ، ١١٩)

        بخاری شریف کی روایت ہے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے ہے ہے سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے، اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کرلیتا ہے، اور بلاشبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے، اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے، اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے یہاں بہت بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے،(صحیح بخاری. حدیث ٦٠٩٤)

    حرف آخر

           مذکورہ بالا قرآنی آیات و حدیث مبارک سے یہ معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ میں سے ہے، چاہے مذاق میں جھوٹ بولیں یا حقیقت میں جھوٹ کا افشاء کریں، جھوٹ بولنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مبغوض اورنا پسندیدہ عمل ہے، سچائی آدمی کو نجات دیتی ہے، اور جھوٹ آدمی کو ہلاک کر دیتا ہے، اس لیے ہم بھی ہر حال میں سچ بولیں، جھوٹ سے اجتناب کریں، بالخصوص مغربی تہذیب کی شکل میں جو روزافزوں نت نئے فتنے برپا ہو رہے ہیں ان سے بھی احتراز کریں اللہ تعالی ہم سب کو سیدھی راہ پر چلائے،( آمین)

abdurrazzaq825@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں