مدثر احمد قاسمی
اس دنیا میں بسنے والے تمام انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں سے مستفیض ہوتے ہیں؛فرق بس اتنا ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی حکمت کاملہ سے کسی کو کم اور کسی کو زیادہ نعمتوں سے نوازا ہے۔غور کریں تو یہی نعمت کیا کم ہے کہ ہمیں انسان بنایا اور اشرف المخلوقات ہونے کاتاج ہمارے سر پر سجایا۔ اگر عقلی طور پر دیکھیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی نوازشات کا بدلہ ہمیں اپنی وسعت کے مطابق ہمہ وقت شکر کا نذرانہ پیش کر کے دینا چاہئے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم کما حقہ ایسا نہیں کرتے ہیں اور کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں جو بالکل ہی شکر کے جذبات سے عاری ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اِس سے بھی آگے بڑھ کر حضرتِ انسان احکامات خداوندی سے سرتابی اور روگردانی کر کے اپنے ناشکرا ہونے اور عملاً باغی ہونے پر خود ہی مہر ثبت کر دیتا ہے۔
اگر ہم شکر اور نا شکری کے معاملے کو اپنی روز مرہ کی زندگی کے آئینے میں دیکھیں گے تو ہمیں اپنی پوزیشن کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ملازم اپنے مالک کی عنایات کا بھرم رکھتے ہوئے اپنی سعادت مندی کا ثبوت پیش کرتا ہے تو اس کا مالک نہ صرف یہ کہ اُس سے خوش ہوتا ہے بلکہ اپنی عنایات کے سلسلے کو مزید دراز کردیتا ہے؛ اِس کے بالمقابل اگر کوئی ملازم اپنے مالک کی جانب سے عطا ءکردہ سہولیات کے باوجود اپنے اعمال سے اپنی وفاداری ثابت نہیں کرتا ہے تو مالک اُس سے ناراض ہونے کے ساتھ کبھی اُس کو کسی شکل میں سزا دیتا ہے تو کبھی ملازمت سے ہی نکال باہر کرتا ہے۔ہاں یہی ملازم اگر اپنی غلطی کو سدھار کر مالک کا فرما بردار اور وفا دار بن جاتا ہے تو دوبارہ اپنے مقام اور مالک کے عنایات کو حاصل کرلیتا ہے۔
مذکورہ تناظر میں جب ہم اپنی حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو اِس نتیجے پر پہونچتے ہیں کہ یقیناً ہم نے اپنی نافرمانیوں سے مالکِ حقیقی اللہ رب العزت کو ناراض کر دیا ہے ؛اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمیںاپنی نعمتوں سے ہی محروم کردیتالیکن یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی شانِ کریمی کا عظیم مظہر ہے کہ اب بھی ہم نعمتِ خداوندی سے لطف اندوز ہورہے ہیں؛ ہاں ہماری بد اعمالیوں اور کرتوتوں کی وجہ سے کبھی کبھار اللہ تبارک ہمیں متنبہ کرنے اور ہماری آزمائش کے لئے کچھ پریشانیوں سے با الفاظِ دیگر سزا سے ہمیں دو چار کر دیتا ہے، جیسا کہ اِ س وقت پوری دنیا کورونا وائرس کی لپیٹ میں ہے۔یہ وہ موقع ہے جس سے سبق لے کر ہمیں راہِ راست پر آجانا چاہئے اور ہمیں اپنی وفاداری کے تمام تار اللہ اور رسول اللہ ﷺ سے جوڑ دینا چاہئے۔
یہاں یہ سوال پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ جب یہ سزا نافرمانی کی پاداش میں ہے تو پھر بظاہر فرماں بردار نظر آنے والے افراد بھی اِس سے متائثر کیوں نظر آتے ہیں؛ کیونکہ قرآنی اصول کے مطابق ‘امر بالمعروف اور نہی عن المنکر’ (اچھائی کا حکم کرنا اور بُرائی سے روکنا) کی ذمہ داری میں کوتاہی اجتماعی پریشانی کا سبب بنتی ہے۔
تمام آثار و قرائن سے جب یہ بات ظاہر ہوگئی ہے کہ ہم نے اپنی بد اعمالیوں سے اللہ رب العزت کو ناخوش اورناراض کر دیا ہے تو اب ہمارے سامنے صرف ایک ہی راستہ اپنے گناہوں سے سچے دل سے توبہ اور اس کے بعداطاعت شعاری سے عبارت پاکیزہ زندگی کا بچتا ہے۔ یوں تو جس لمحے ہی ہمیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوجائے اُسی وقت توبہ کرکے نیک زندگی کا آغاز کر دینا چاہئے کیونکہ اِس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ آنے والی ساعتوں میں ہمارے جسم و روح کا رشتہ برقرار رہے ۔ البتہ کچھ خاص لمحات ایسے ہوتے ہیں جب اللہ رب العزت کی خصوصی توجہ کا فیضان عام ہوتا ہے ؛جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہمیںسعادتِ دارین کا طلبگار ضرور ہونا چاہئے۔
اللہ رب العزت کے خصوصی فیضان کے لمحات میں سے وہ لمحات بھی ہیں جس کی گواہ اسلامی مہینہ شعبان المعظم کی ۵۱/ ویںشب بنتی ہے۔ اِس کی فضیلت اسقدر ہے کہ مسلمان سال بھر اِس رات کا انتظار کرتے ہیں کیونکہ اس رات میں دعاؤں کی قبولیت کا پروانہ سنایا گیا ہے۔ایک ایسے وقت میں جبکہ پوری دنیا کورونا وائرس سے دہشت میں مبتلا ہے، اِس رات کی اہمیت اِ س اعتبار سے مزید بڑھ جاتی ہے کہ اللہ پاک ہی بیماری سے شفا ءدینے والے ہیں ؛اس لئے یہ بہترین موقع ہوگا جب ہم پوری انسانیت کے لئے اِس وبائی مرض سے چھٹکارا کے لئے دعائیں مانگیں گے۔ایک حدیث پاک میں ہے: ‘جب نصف شعبان کی رات ہوتی ہے تو ایک پکار لگانے والا پکار لگاتا ہے کہ: ہے کوئی بخشش طلب کرنے والاکہ میں اس کو بخش دوں؟ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں اس کو عطاءکروں؟لہذا جو جس چیز کا سوال کرتا ہے اُس کو وہ چیز دے دی جاتی ہے سوائے مشرک کے۔’ (الجامع الصغیر) اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے: ‘اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں؛ لہذا استغفار کرنے والوں کو بخش دیتے ہیںاور رحم طلب کرنے والوں پر رحم کرتے ہیں اور اہلِ بغض (کینہ پرور)کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں۔’ (الجامع الصغیر)
۵۱/شعبان کی رات کو ‘شبِ براءت’ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہ گناہوں سے خلاصی کا ایک بہترین موقع ہے۔ شعبان کے مہینے کے حوالے سے ہمارے ذہن میں یہ بات ضرور رہنی چاہئے کہ یہ پورامہینہ ہی بابرکت اور باعثِ فضیلت ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جب بندوں کے اعمال اللہ رب العزت کے دربار میں پیش کئے جاتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق اسامہؓ نے رسول اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں آپ کو شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میںروزہ رکھتے نہیں دیکھتا ہوں، آپ ﷺ نے جواباً فرمایا: رجب اور رمضان کے بیچ میں یہ وہ مہینہ ہے جس میں بندوں کے اعمال ربِ کائنات کے دربار میں پیش کئے جاتے ہیں، اسی لئے میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اِس حالت میں اُٹھائے جائیں کہ میں روزے سے ہوں۔ ‘(نسائی) ہم میں سے کوئی یہ نہیں چاہتا ہے کہ اس کی بد اعمالیاں اللہ رب العزت کے دربار میں پیش ہوں؛اس لئے ہم جلد از جلد توبہ کرلیںتاکہ ہمارے نامہ اعمال سے گناہ مٹ جائے؛ کیونکہ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہوجاتا ہے گویا کہ اُس نے گناہ کیا ہی نہیں۔
۵۱/شعبان کی فضیلت کے پیشِ نظر ہمیں اِس کی رات کو اِ س اعتبار سے بہت اہم بنالینا ہے کہ ہم ہر طرح کے غیر شرعی رسم و رواج سے بچتے ہوئے حتی المقدور اِس شب کو شبِ عبادت و دعا ءبنالیں اور اگلے دن روزہ بھی رکھ لیں۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:’جب نصف شعبان کی رات آجائے تو تم اُس رات میں قیام کرواور اس کے دن کا روزہ رکھو۔’ (ابن ماجہ)
(مضمون نگار مرکز المعارف ممبئی کے سینئر استاذ، معروف مصنف اور الغزالی انٹرنیشنل اسکول ارریا کے ڈائریکٹر ہیں)