لاکھوں پاکستانی ” ارطغرل غازی “ کے سحر میں مبتلا  کورونا کے باوجود ترکی کے لئے ٹرکش ائیرلائن میں بکنگ کا نیا ریکارڈ

ٹریول  ایجنسیز  نےخصوصی  پیکجیز کی تیاری شروع کردی ۔ ٹرکش ائیر لائن کی پہلی پرواز کے لیے بکنگ کا آغاز ۔ زیادہ تر  پاکستانی ترکی میں سب سے پہلے  ار طغرل  مقبرے  کی زیارت  کے خواہاں ہیں

انقرہ: ٹریول  ایجنسیز  نےخصوصی  پیکجیز کی تیاری شروع کردی ۔ ٹرکش ائیر لائن کی پہلی پرواز کے لیے بکنگ کا آغاز ۔ زیادہ تر  پاکستانی ترکی میں سب سے پہلے  ار طغرل  مقبرے  کی زیارت  کے خواہاں ہیں۔

ترکی  جہاں زیادہ تر  روس، جرمنی، امریکہ اور برطانیہ کے سیاحوں  کا تانا بندھا  رہتا ہے اس بار بڑی تعداد میں پاکستانی سیاح بھی ترکی جانے کی تیاری کرچکے ہیں  اور جیسے  کورونا کے بعد حالات نارمل سطح پر آ جائیں گے اس کے بعد بڑی تعداد میں  پاکستانی سیاحوں کے ترکی آنے اور  ار طغرل کے مقبرے کی زیارت کیے جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔

پاکستان میں “ارطغرل ڈرامے  کو ریکارڈ حد تک مقبولیت حاصل ہوئی ہے اور ابتدائی پندرہ دنوں میں اس ڈرامہ کے یوٹیوب چینل پر دس لاکھ سبسکرائبرز ہو گئے جبکہ ڈرامہ کی پہلی قسط کو 10 مئی تک یوٹیوب پر ایک کروڑ 41لاکھ سے زیادہ افراد دیکھ چکے تھے۔

یہ ڈرامہ خلافت عثمانیہ کی اسلامی تاریخ، کلچر اور روایات پر مبنی ہے جسے ترکی میں بہت بڑی کامیابی کے بعد وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر اردو زبان میں ڈب کر کے پاکستان میں دکھایا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد پاکستانی عوام کو اسلام کے سنہری دور سے آگاہ کرنا ہے۔

گزشتہ  دو سالوں کے دوران بیلے جیک کے علاقے سووت میں آنے والے  سیاحوں میں  سب سے زیادہ تعداد  پاکستانیوں کی ہے اور اب پی ٹی وی  پر نشر ہونے کے بعد  پاکستانی عوام  نے  بڑی تعداد میں فلائٹس بند ہونے کے باوجود  ترکی جانے  اور ار طغرل کے مقبرے کی زیارت کرنے کے لیے بکنگ کروانی شروع کردی ہے۔پاکستانی باشندوں نے گروپوں کے شکل میں  ترکی آنے اور  سووت میں ار طغرل اور حلیمہ کے مقبرے  کی زیارت کرنے  اور وہاں پر ان گروپوں کے لیے خصوصی بندو بست کرنے  کی بھی درخواست کی ہے۔

  ترکی کے شہر استبنول سے تقریبا تین گھنٹے کی مسافت پر بیلیچک صوبے میں سوعوت کا قصبه واقع ہے۔ مقامی پہاڑی سلسلے کے خم دار اور پرپیچ راستوں پر واقع یہ چھوٹا سا قصبہ اپنے دامن میں صدیوں کی تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ اس کی ایک نشانی یہاں قائم سلطنت عثمانیہ کی داغ بیل ڈالنے والے قائی قبیلے کے سردار ارطغرل غازی (1188-1281) کا مقبرہ ہے۔

چودہ ہزر نفوس پر مشتمل پر یہ قصبہ تقریبا دو سال قبل تک تقریباﹰ گمنامی کا شکار تھا اور شاذونادر ہی کسی سیاح کی اس طرف آمد ہوتی تھی۔ لیکن پھرپانچ سال قبل ترکی کے سرکاری ٹی وی ٹی آرٹی کی پیشکش ڈرامہ سیریل “دریلیش ار طغرل” نے اس قصبے کو گمنامی سے نکال کر ایک مرتبہ پھر دنیا کی نظروں میں لا کھڑا کیا ہے

مقبرے کے باہر مقامی کائی قبیلے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی چاق و چوبند ٹولیاں اپنے صدیوں پرانے روایتی لباس میں ملبوس اور ہتھیاروں سے لیس ہو کر حفاظتی ڈیوٹیاں سر انجام دیتی ہیں۔ انہیں دیکھنے والے ایک لمحے کے لیے وقت کی قید سے آزاد ہو کر خود کو آٹھ صدیوں قبل کے ماحول میں پاتے ہیں۔

ارطغرل کی قبر کے پہلو میں سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر رہنے والے تمام ممالک سے لائی گئی خاک کو بڑی ترتیب کے ساتھ چھوٹی چھوٹی ڈبیاوں میں سجا کر رکھا گیا ہے۔

ارطغرل کی قبر کے پہلو میں سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر رہنے والے تمام ممالک سے لائی گئی خاک کو بڑی ترتیب کے ساتھ چھوٹی چھوٹی ڈبیاوں میں سجا کر رکھا گیا ہے۔

یہاں کاروبار کرنے والوں نے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیےقائی قبیلے کے زیر استعمال صدیوں پرانے خیموں کو بھی ایک مرتبہ پھر آباد کر رکھا ہے۔

مقامی منتظمین کا کہنا ہے کہ دو سال قبل یہاں آنے والے سیاحوں کی ماہانہ تعداد چار سے پانچ سو کے درمیان تھی تاہم کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے قبل یہ تعداد بڑھ کر چار ہزار ماہانہ تک جا پہنچی تھی۔ تاہم اب جہاں کورونا وائرس نے دنیا بھر میں سیاحت کی صنعت کو متاثر کیا ہے وہیں ترکی میں بھی اس صنعت پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اس قصبے میں اب یادگاری اشیا کی دوکانیں یا سوئینیر شاپس بھی تیزی سے اپنا کاروبار جما رہی ہیں۔ ان دوکانوں پر آپ کو چمڑے سے تیار کیے گئے  قائی قبیلے کے روایتی لباس، روزمرہ استعمال کی دیگر اشیا کے ساتھ ساتھ ہتھیار اور خواتین کے پہناوے اور جیولری کا سامان دستیاب ہوتا ہے۔

تیروں اور ایک کمان پر مشتمل قائی قبیلے کا پرچم آپ کو یہاں جگہ جگہ لہراتا نظر آتا ہے۔ اکثر یادگاری اشیا جیسے کہ مختلف قسم کی ٹوپیوں، ٹی شرٹس اور کی چین وغیرہ پر بھی آپ کو یہ نشان بنا ہوا ضرور نظر آئے گا۔

ارطغرل کے مزار کے احاطے میں ان کی اہلیہ حلیمہ خاتون، دوسرے بیٹے ساوجی بے کے علاوہ چودہ دیگر قریبی رفقا کا کی قبریں بھی ہیں۔