غیرمحتاط نقل مکانی: تباہ کن صورت حال کا اشارہ

محمدشارب ضیاءرحمانی
پانچ برس پیچھے جائیے ، بہار الیکشن کے وقت زور و شور سے سوا لاکھ کروڑ کے پیکیج کا اعلان ہوا تھا، اسی طرح کورونا بحران کے دورمیں بیس لاکھ کروڑ کا اعلان ہوا ہے ۔ وزیرخزانہ کی پنچ روزہ تفصیلی پریس کانفرنس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان میں مزدوروں اور غریبوں کی جیب میں نہ پیسے جائیں گے، نہ ان کے اب تک کے نقصان کا ازالہ ہوگا۔ نہ موجودہ نقل مکانی اور پریشانی کا کوئی حل نکلے گا۔ بیس لاکھ کروڑ، آنے والے دنوں میں رقم نہیں ، مراعات اور بچت کی شکل میں مفید ہوسکتے ہیں ، لیکن پانچ دن تک تفصیلی پریس کانفرنس ماہرین اقتصادیات کو اچھی طرح سمجھ میں نہیں آسکی ہے۔ یہاں تک کہ آر ایس ایس کو بھی نہیں – سنگھ کی ٹریڈ یونین نے کہا ہے کہ وزیرخزانہ نے ملک کو مایوس کیا ہے ۔ تجزیہ کے مطابق سرکار کے چالیس لاکھ کروڑ ڈوبنے کے ازالے کے لیے بیس لاکھ کروڑ مختص کیے گئے ہیں۔ ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ ان میں صرف ڈیڑھ لاکھ کروڑ سرکاری خزانے سے نکلیں گے اور اس پیکیج میں آٹھ لاکھ کروڑ کے پرانے اعلانات ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ پیکیج کہاں سے آئے گا؟ جب ریزروبینک سے ریزرو پیسے لینے کی ضرورت پڑجائے تو اتنے بڑے پیکیج پر سوال اٹھ ہی سکتے ہیں۔ ابھی بھارت سرکار نے برکس سے ڈیڑھ ڈیڑھ ارب ڈالر کا قرض لیا ہے۔ اس سے پہلے ڈبلیو ایچ او نے بھی تعاون کیا ہے۔ وزرائے اعلیٰ کو جی ایس ٹی کے بقایا تک مل نہیں رہے ہیں، ریاستیں ہر میٹنگ میں اپنے حق کے پیسے مانگ رہی ہیں لیکن بہلاوا دیا جارہا ہے ۔ تلنگانہ کے 1719کروڑ، پنجاب کے 4,386 کروڑ اور دہلی کے 2355 کروڑ مرکز پر باقی ہیں۔ ان کے علاوہ بنگال، کیرل، تمل ناڈو، راجستھان اورمہاراشٹربھی مسلسل بقایا کی ادائیگی کے مطالبے کررہے ہیں۔ جب جی ایس ٹی کے پیسے دینے کے لیے نہیں ہیں تو بیس لاکھ کروڑ کہاں سے آگئے- ”کورونا یوددھاؤں“ کے نام پر موم بتی ریلی اور ڈھول، تھالی کا تماشہ کیا گیا، ان کے وقار کے تحفظ پر لیکچر ہورہے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ دہلی میں تین ماہ سے طبی عملہ کی تنخواہ باقی ہے،بہار کے 35000 طبی عملہ نے چھے ماہ سے تنخواہ نہ ملنے پر ہڑتال کی دھمکی دی ہے، ڈھول، تھالی اور موم بتی سے ان کا پیٹ نھیں بھرجائے گا۔ معیشت کی تباہ کن صورت حال کی وجہ سے اعلان کردہ جملوں پر تو پہلے ہی شک تھا، جیسے جیسے تفصیلات آئیں گی، یقین ہوجائے گاکہ نچلے اور متوسط طبقے کو کچھ نہیں ملنے والا ہے ۔ وزیرخزانہ کے ا علان کے مطابق ایک ہزار کروڑ روپیے ’پی ایم کیئرس فنڈ‘ سے دیئے جائیں گے، سابق وزیرخزانہ پی چدمبرم نے بتایا ہے کہ یہ رقم براہ راست مزدوروں کو نہیں ملے گی بلکہ پیکیج ریاستوں کو دیئے جائیں گے تاکہ وہ کرائے ،کورنٹائن سنٹروں اور جانچ میں خرچ کرسکیں۔ سوال یہ ہے کہ جب کرایہ لیا جارہا ہے ، بعض جگہ کورنٹائن کے اخراجات بھی لیے جارہے ہیں اور جانچ کی فیس وصول کی جارہی ہے تو یہ پیسے کس چیزمیں خرچ ہوں گے؟
بہار کے لیے اعلان کیا گیا خصوصی پیکیج نہ اب بی جے پی کو یاد ہے اور نہ ” تین انجن سرکار کے مکھیا “ کو مانگنے کی ہمت ہے ۔ بے چارے نتیش جی کے پاس اپنی مادرعلمی کو سینٹرل یونی ورسیٹی کا درجہ تک دلانے کی ہمت نہیں ہے، وہ بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ خاک دلائیں گے۔ (پٹنہ یونی ورسیٹی کی تقریب میں گڑگڑا کر مانگنے کے بعد کے ردعمل کا منظر کسے یاد نہیں ہوگا) لکھ کر رکھ لیجیے کہ خصوصی ریاست کا مدعا الیکشن کے وقت جاگ جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ انتر آتما بیدار ہو جائے۔ پندرہ سال کی سرکار میں میڈیکل سسٹم چوپٹ رہا۔ مرکز اور ریاست میں ایک اتحاد کی حکومت کے باوجود نتیش کمار کے چہرے پر بے بسی نمایاں ہے۔ وہ مزدوروں کے غصے سے بری طرح گھبرائے ہوئے ہیں اور جملوں میں الیکشن تک الجھاکر رکھنا چاہتے ہیں، چراغ پاسوان نے مزدوروں کی ناراضگی پر اپنی تشویش ظاہرکردی ہے، انھیں الیکشن کا ڈر ستانے لگا ہے بلکہ حلیف لوجپا لگاتار راشن معاملے پر اپنی سرکار کو گھیر رہی ہے۔ جب غریبوں کے لیے ایک ایک دن مشکل رہا ہو ، ڈیڑھ ماہ تک دس لاکھ راشن کارڈ کی منظوری بہار حکومت کی بے حسی کی وجہ سے التواء میں رہی۔ یہ خود رام ولاس اور چراغ پاسوان بتاچکے ہیں، مزدوروں کی ناراضگی کی وجہ سے بہار سرکار چاہتی ہے کہ وہ کم سے کم واپس آئیں کیوں کہ اگر یہ مزدور اکتوبر یعنی الیکشن تک بہار میں رک گئے اور ایک پیکٹ شراب اور پانچ سو روپئے کا کھیل نہ کھیلا گیا تو کھٹیا کھڑی ہے۔ لیکن امید ہے کہ اس وقت تک مذہب کا رنگ چڑھا دیا جائے گا اور سب مل کر مزدور سے ’ہندو‘ ہوجائیں گے۔ جب ساری ریاستیں اپنے لوگوں کو بلارہی ہیں، نتیش سرکار ٹرین بھر کر اپنے مزدوروں کو تلنگانہ بھیج دیتی ہے، دیگر ریاستوں سے ان کی واپسی پر سب سے زیادہ آنا کانی بہار حکومت نے کی ہے۔چیف سکریٹری اور وزیراعلیٰ نے نقل مکانی پر مرکزی وزارت داخلہ کو خط لکھ کر ناراضگی ظاہرکردی ہے۔ پھربھی سنبت پاترا جیسے لوگ کہتے ہیں کہ اپوزیشن کے زیرِ اقتدار ریاستیں اپنے لوگوں کو نہیں بلانا چاہتیں، انھیں ایک بار پھر نتیش سرکار کے رویے کو غورسے دیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح مزدوروں کی نقل مکانی سے بھاگ رہی تھی۔
نتیش کمار اس لیے بھی ڈرے ہوئے ہیں، ان کے پاس طبی وسائل کی بہت کمی ہے۔ عمدہ انتظام کا دعویٰ کچھ ہو، لیکن قرنطینہ مراکز کی بدحالی، کھانے میں چاول، نمک کی خبریں آچکی ہیں، گھبراہٹ میں اب بہار کے قرنطینہ مراکز پر میڈیا کی انٹری بند کردی گئی ہے۔ نتیش کمار خود شکایت کرتے ہیں کہ ٹیسٹ کٹس کی کمی ہے۔سوال پھر یہی ہے کہ کیسی دوستی ہے کہ مرکز انھیں نظر انداز کررہا ہے اور کوئی حیثیت باقی نہیں رہی کہ پریشر بناسکیں۔ 11کروڑ 95 لاکھ کی آبادی والے بہار میں دس لاکھ افراد پر صرف 313 ٹیسٹ ہورہے ہیں جب کہ 1کروڑ 98 لاکھ کی آبادی پر مشتمل دہلی میں دس لاکھ میں 5355 افراد کی جانچ ہوئی ہے۔ اسی طرح کشمیر کی آبادی 1کروڑ 32 لاکھ ہے، وہاں دس لاکھ پر 4069 ٹیسٹ ہورہے ہیں۔ اندازہ لگاییے کہ ان چھوٹی ریاستوں کے مقابلے میں بہار کہاں کھڑا ہے ، بلکہ جو تیرہ ریاستیں زیادہ متاثر ہیں ان میں ٹیسٹنگ کے اعتبار سے بہار سب سے پیچھے ہے۔ڈیڑھ عشرے کی ناکامی بتارہی ہے کہ ”وکاس پرش“ اور ”سوشاسن بابو“ نے پندرہ سال کیا کیا ہے اور اس بحران میں ان کا سسٹم کتنا چوپٹ نکلا ہے ۔ تین انجن کی ریاستی سرکاریا تو بے بس ہے یابے حس ہے۔ ہنگامے کے بعدنتیش کمار نے اپنے حکام کو کہا ہے کہ روزانہ دس ہزار جانچ کو یقینی بنائیں، جب کہ اب تک ریاست میں صرف 42645 نمونوں کی جانچ ہوئی ہے۔یعنی اسے اگر پچاس دنوں میں تقسیم کریں تو یومیہ 852 ٹیسٹ ہوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے دعوے اور ارادے کی ہوا یوں نکل جاتی ہے کہ مرکزی وزیرصحت ہرش وردھن کے مطابق ملک میں مئی کے اخیر تک یومیہ ایک لاکھ ٹیسٹ ممکن ہوسکیں گے۔ اندازہ لگائیے کہ ان میں اکیلے بہار دس ہزار ٹیسٹ کیسے کرلے گا؟ جو پہلے ہی سب میں پچھڑا ہوا ہے۔ مرکزی وزیرمملکت برائے صحت اشونی کمار چوبے کے آبائی شہر بھاگلپور میں کاٹریج نہ ہونے سے دس دن سے جانچ رکی ہوئی ہے۔ ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ مزدوروں کی نقل مکانی سے کیسز تیزی سے بڑھے ہیں اور ایک ہفتے کے دوران کے کسیز میں 74 فی صد صرف نقل مکانی کی دین ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرینوں سے لے جائے جانے والوں کی نہ تو پہلے ڈھنگ سے اسکریننگ ہورہی ہے اور نہ سوشل ڈسٹینسنگ پر عمل ہورہا ہے۔ پانی پت سے جانے والی ٹرین میں مسافروں کو بھوکا لے جایا گیا، سیوان پہونچتے ہوئے حالت خستہ ہوگئی۔ ایک ٹرک میں پچاس پچاس افراد بھرکر جائیں گے تو کیا ہوگا؟ کل تک تبلیغی مرکز پر بھوکنے والا میڈیا خاموش ہے۔ کجریوال بھی اس وقت روزانہ کالم بناکر اعداد و شمار پیش کرتے تھے۔ اب بتائیں کہ مزدوروں کی غیرمحتاط نقل مکانی اور ملک بھر میں ہجوم کے نتیجے میں بڑھتے کیسز کے لیے کون ذمے دارہے؟ ڈیڑھ ماہ کے بعد مزدوروں کے لیے ریل سروس شروع کی گئی، گیارہ کروڑ میں صرف 17 لاکھ محنت کشوں کو ان کی آبائی ریاست لے جایا گیا ہے۔ وکاس ماڈل گجرات میں چار بار یہ لوگ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے، مدھیہ پردیش کی سرحد پر دس ہزار سے زائد محنت کش جمع ہیں، یہاں اور ہریانہ بارڈر پر لاٹھی چارج کیے جارہے ہیں، دہلی، غازی آباد سرحد پر بھی یہی صورت حال ہے۔ غازی آباد اور میرٹھ کی بھیڑ کا اندازہ لگا لیجیے ۔ یوپی کے انبالہ میں سڑکیں جام کی گئیں، احمد آباد میں ہجوم پر آنسو گیس کے گولے چھوڑنے پڑے۔ظاہر ہے کہ ایسے ہجوموں کا انجام کیا ہوگا ؟سوشل ڈسٹینسنگ تیل لینے گئی، حیرت ہے کہ میڈیا کو ان جگہوں پر مہاراشٹر کی طرح مسجد نظر نہیں آئی۔ دہلی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ لاکھوں لوگوں کو کھانا کھلا رہی ہے، ہرطرف راشن کی بارش ہورہی ہے، آٹو والوں اور مزدور طبقے کو پیسے دیے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب مرکزی حکومت اور ریاستیں بہت کچھ کررہی ہیں، تو یہ محنت کش اور متوسط اور غریب طبقہ پریشان کیوں ہے؟ یا تو دعوے کھوکھلے ہیں یا لوگ بے وقوف ہیں جو اتنے آرام کے باوجود بھاگنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ویسے بھی یوگی سرکار کے ایک وزیر نے محنت کشوں کو چور اور ڈاکو سے تشبیہ دی ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسئلے کے حل کے لیے یہ لوگ کتنے سنجیدہ ہیں۔سوچا گیا تھاکہ بغیر وژن کے لاک ڈاؤن کے باوجود سب گھر میں بند ہوجائیں گے ، پھر مقبولیت کا ترانہ گایا جائے گا لیکن دو ماہ تک بھوک پیاس کسے برداشت ہے۔ اب وہ جھانسوں سے تنگ آکر نکل رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں غیرمحتاط نقل مکانی اور ہجوم کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ لوگ ڈرے ہوئے ہیں، لیکن کورونا سے کم ، نااہلی ،کھوکھلے دعووں اور جملے بازیوں سے زیادہ خوفزدہ ہیں۔ اس لیے ہرشخص کی ذمے داری ہے کہ خود کا خیال خود رکھے، کیوں کہ خود کفیل ہونے یعنی سرکار کے بھروسے نہ رہنے کا مشورہ دے دیا گیا ہے ۔